کربلا کی جانب مشی کے ابتدائی واقعات میں سے۔۔۔۔۔

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2023-05-16


نجف اشرف میں قیام کے دنوں کے واقعات میں ایک واقعہ بہت ہی شیریں اور روح پرور ہے۔ وہ واقعہ ہے نجف سے کربلا مشی کا واقعہ۔  اس تقریب میں اساتید، طلاب، فضلا کے علاوہ مراجع تقلید بھی شرکت کرتے تھے۔  یہ مشی مختلف مناسبتوں کے اعتبار سے منعقد ہوتی تھی جیسے عاشورا، اربعین وغیرہ۔ مرحوم آیت اللہ شاہرودی کی اس مشی شرکت سب کے لئے جالب توجہ ہوا کرتی تھی۔ وہ پیدل نجف سے نکلتے تھے اور کربلا کی جانب روانہ ہو جاتے تھے۔ باقی لوگ اثنائے راہ میں ان سے ملحق ہوتے رہتے تھے۔ بعض لوگ واپسی پر  نقل حمل کے وسائل استعمال کیاکرتے تھے مگر شاہرودی صاحب  پیادہ ہی واپس پلٹا کرتے تھے۔

مجھے بھی چند مرتبہ مشی کے موقع پر اس معنوی تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ میں اکثر اپنے طلاب کے ہمراہ ہی زیارت اور مشی سے مشرف ہوا۔ نجف سے کربلا کا راستہ جو کہ تقریبا بارہ فرسخ کا ہے عموما دو یا تین دن میں طے ہو جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا جیسے شیخ ہادی زابلی جو کہ میرے پاس ہی درس پڑھتے تھے، ان کا اپنا خاص طریقہ کار تھا۔ زابلی صاحب ایک دن میں کربلا جاتے اور ایک ہی دن میں واپس پلٹتے تھے۔ بعض لوگ ایسے تھے جو مشی مکمل ہونے پر کاظمین اور سامرہ کی زیارت کو نکل جایا کرتے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ راستہ میں ایسے بہت سے عرب قبائل تھے جن کا مذہب شیعہ تھا۔ یہ لوگ راستہ بھر میں امام حسین علیہ السلام کے زائروں اور طلاب و فضلا کی اچھی طرح مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔  یہ لوگ عرب و عجم میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے سب کے ساتھ ایک سا رویہ رکھتے تھے۔ دوپہر اور رات کے کھانے کے وقت یہ لوگ بڑے بڑے خیموں میں، زائرین کا استقبال کیا کرتے تھے اور بعض اوقات التماس اور منت سماجت کرکے لوگوں کو کھانے کے لئے خیموں میں لے جایا کرتے تھے۔  ان عرب قبائل کے ذہن ہر اس پروپیگنڈہ سے خالی تھے جو علما اور طلاب کے خلاف نجف اور دوسرے شہروں میں جاری تھا۔ ان کو امام حسین علیہ السلام کے زائروں کی معنویت اور علماء کی کرامات پر عجیب و غریب قسم کا اعتقاد تھا۔ بعض اوقات ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ لوگ طلاب کی چپلوں سے مٹی کو جمع کر لیا کرتے تھے اور اپنے مریضوں کی شفا یابی کے لئے لے جاتے تھے۔ مالی اعتبار سے ان قبائل کی حالت کوئی بہت زیادہ اچھی نہ تھی۔  فرات کے کنارے ان میں سے ہر ایک کچھ مقدار میں چاول کاشت  کیا کرتا تھا۔  ان کی اغلب غذا چاول اور دہی ہی تھی۔  اکثر اوقات ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور سالن بھی نہ ہوا کرتا تھا جو وہ چاولوں کے ساتھ تناول کریں۔ اس سب کے باوجود بھی وہ زائروں اور طلاب کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے اور اپنی بساط سے بڑھ کر ان کے لئے اہتمام کرتے تھے۔[1]

 


 

 

 

 


[1] حوالہ: آیت اللہ مسلم ملکوتی کے واقعات۔ مترجم عبدالکریم اباذری، صفحہ ۱۷۴، ناشر: مرکز اسناد انقلاب اسلامی تہران سال ۲۰۰۶


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 601



http://oral-history.ir/?page=post&id=11227