کتاب ’’این مرد پایان ندارد (بے پایان مرد)‘‘ سے دو واقعات
انتخاب : فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری
2023-05-04
۔تم نے مجھ پر ظلم کیا ہے[1]
ہمارا ایک بھائی تھا جس نام زندی تھا۔ وہ مکینیکل انجینئر تھا۔ والفجر ۸ کے آپریشن میں وہ ایک ذمہ دار تھا۔ میں نے سنا تھا کہ ایک دن قبل اس کا بیٹا ایک حادثہ کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن گیا تھا۔ اس بچہ سرد خانہ میں رکھا گیا تھا تاکہ اس کا باپ آجائے تو اس بچہ کو دفن کریں اور اس ڈرائیور کا بھی فیصلہ ہو جس نے اس بچہ کو مارا تھا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ ان لوگوں کو کس طرح سے قائل کروں کہ اس کو اطلاع بھی نہ ملے اور وہ واپس بھی چلا جائے۔ بیٹے کے غم کی خبر تھی۔ وہ آیا تو میں پھر سوچنے لگا کہ اس کو کس طرح سے قانع کروں۔۔ میں نے کہا: جناب مہدی۔ اس نے کہا جی۔۔ وہ جس وقت میرے پاس آیا اس وقت بہت خوش تھا پر نشاط تھا۔ جنگ بہت سخت تھی مشکلات بہت زیادہ تھیں مگر میں نے دیکھا کہ وہ انتہائی مسرور ہے۔ مجھے شرم محسوس ہوئی کہ میں اس کو پریشان کر دوں۔ میں نے کہا: مہدی جنگ طویل ہے اور دشمن کے حملے مسلسل ہیں تم ایسا کرو کہ پیچھے ہٹو اور کچھ دن اپنے گھر جا کر آرام کر لو۔ میں تمہارا جانشین مقرر کر دوں گا کچھ عرصہ بعد وہ پیچھے آجائے گا تو تم اس کی جگہ دوبارہ چلے جانا۔ اس نے مجھ پر ایک نظر ڈالی اور مسکرایا۔
’’معلوم ہے کیا کہہ رہے ہو؟تم چاہتے ہو کہ میں دشمن کے شدید حملوں کے دوران چھٹی پر چلا جاوں؟ مجھے پتہ ہے کہ تم یہ کیوں کہہ رہے ہو۔ میرے بچہ کی وجہ سے کہہ رہے ہو نا؟ وہ بچہ خدا کی ایک امانت تھا جو خدا نے مجھے سونپی تھی۔ میں نے پیغام دےدیا ہے کہ بچہ کو دفن کر دیں اور ڈرائیور کو بھی آزاد کر دیں۔
یہی میرا بھائی جو کربلا ۵ کے آپریشن میں شہید گیا تھا۔ گارڈز کے قومی دن جب میں نے ثار اللہ کے لشکر کو جمع کیا تو مجھے بہت یاد آیا۔مجھے یاد تھا کہ اس دن اپنے اس گارڈ یعنی مہدی زندی کی یاد منانی ہے۔
میں نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ محفل کے آخری سرے پر مہدی بیٹھا ہے اور اپنا سفید بسیجی رومال سر پر باندھا ہوا ہے اور ایک ہاتھ اپنے ٹھوڑی کے نیچے رکھا ہوا ہے اور ہماری ساری باتیں سن رہا ہے۔
جس وقت ہم نے کہا کہ ماڈل گارڈ کا تعارف کرانا چاہتے ہیں تو سب جوان سوچنے لگے کہ دیکھیں ماڈل گارڈ کون ہوگا۔ وہ بھی ہماری گفتگو سن رہا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ ماجرہ کیا ہے۔ جب ڈائس سے اس کے نام کا اعلان کیا گیا اور میں نے کہا: ’’مہدی زندی‘‘ تو میں نے محسوس کیا کہ جیسے وہ زمین میں گڑ گیا ہو، دھنس گیا ہو۔ وہ بادل کی طرح پھٹ پڑا تھا۔ میں نے اس کے بازووں کو تھاما اور اس کو ڈائس پر لایا۔ جس وقت ہم نے اس کو اس کا میڈل دینا چاہا تو تو اس نے میری جانب دیکھا اور آنسو بہاتے ہوئے کہا: تم نے مجھ پر ظلم کیا ہے۔
میں اس کی وہ نگاہ فراموش نہیں کر سکتا۔ کسی بھی گناہ پر میں اتنا شرمندہ نہیں ہوا جتنا اس کام پر ہوا تھا۔[2]
دفاع مقدس کے دوران ہر چیز آئمہ اطہار کے نام سے موسوم تھی۔ ایسا دنیا میں کسی اور جگہ ہمیں نہیں ملتا جنگی نظام کی ہر چیز کو اپنے محبوبوں کے نام سے موسوم کر دیا جائے۔ بہت سی ایسی چیزیں جو مورچوں پر ہمارے لئے بری تھی آج ہمارے روزمرہ میں شامل ہوچکی ہیں۔
ہم نے پورے دفاع مقدس میں نہیں دیکھا کہ کسی کو سراہا گیا ہو۔ جنگ میں سینکڑوں ہزار سپاہی اور آپریشنز تھے۔ لیکن کبھی کسی نے نہیں سنا کہ امام خمینیؒ نے کسی کو کوئی میڈل یا کوئی رتبہ عنایت کیا ہو۔ دفاع مقدس کے دوران کام ایک شخص کی توہین محسوب ہوتا تھا۔ میں نے ایک بار ہی یہ کام کیا تھا اس پر آج تک شہید کے اس جملے اور اس کی آبدیدہ آنکھوں کی وجہ سے شرمندہ ہوں۔ میں نے ایک سپاہی کو سراہنے کے لئے(جو بعد میں شہید ہوگیا تھا) ایک لوح تقدیر اور ایک میڈل دیا تھا اس شہید نے مجھ سے کہا تھا کہ تم نے اپنے اس کام سے مجھے توڑ دیا ہے۔[3]
شہدا کی ماؤں کا احترام
مجھے یاد ہے کہ کرمان کے کے دیہاتوں میں سے ایک میں ایک بزرگ خاتون تھیں جن کا نام خانوک تھا۔ ان کے شوہر اور تین بیٹے میدان جنگ میں تھے۔ ان کا ایک بیٹا شہید ہوا تو انہوں نے کسی کو اجازت نہ دی کہ ان کے بیٹے کی قبر کھودے۔ خود آئیں اور قبر کھودی۔ جب یہ خاتون تھکن سے بے حال ہوئیں تو انہوں نے اپنی بیٹیوں کو پکارا کہ وہ ان کی مدد کریں۔ اس طرح انہوں نے اپنے سترہ سالہ بیٹے کی قبر بنائی اور اپنے اس بیٹے کو دفن کیا۔ اس کے بعد اپنے بقیہ دونوں بیٹوں اور شوہر کو دوبارہ مورچہ پر بھیج دیا۔ بہت عجیب منظر تھا۔
میں نے کبھی کسی شہید کی ماں، بھائی وغیرہ کو رونے سے منع نہیں کیا۔ نا صرف یہ کہ منع نہیں بلکہ میں ہمیشہ وصیت کہ کہ گاؤں میں شہید کی ماں اچھے انداز سے گریہ کرے بالخصوص اس عبارت کے ساتھ گریہ کرے:
رودم۔۔۔۔ رودم۔۔۔۔ رودم۔۔۔۔
مجھے اس سے حوصلہ ملتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ جب تک شہیدوں کی مائیں زندہ ہیں یہ آواز میرے کانوں میں گونجتی رہے۔ یہ غم و غصہ اور یہ آنسو یہ گریہ ہمارے لئے قیمتی ہیں اور ہمارا سرمایہ ہیں۔[4]
[1] بنی لوحی، سید علی، این مرد پایان ندارد، قاسم سلیمانی کا جہادی زندگی نامہ، ناشر: انتشارات راہ بہشت، اٹھاروان ایڈیشن، ۲۰۲۰ صفحہ: ۱۱۰
[2] گاؤں ھاجی کلاہ میں شہداء کی مجلس میں ایک تقریر سے اقتباس۔ ۲۰۱۱
[3] مالک اشتر بریگیڈ شہر آمل میں بریگیڈ کے شہدا اور سرداروں کی یاد میں ایک مجلس سے خطاب ۲۰۱۱
[4] بنی لوحی، سید علی، این مرد پایان ندارد، سردار سلیمانی کی جہادی زندگی، ناشر: راہ بہشت، ۱۸واں ایڈیشن، ۲۰۲۰ صفحہ ۱۲۵
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 1512
http://oral-history.ir/?page=post&id=11202