ملتان کا مصلح، 56 واں حصہ
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2023-04-20
کچھ دن بعد ہمیں یہ گھر تبدیل کرنا پڑا کیونکہ لال بیگوں اور دیمک نے زندگی اجیرن کر دی تھی اور یہاں محلے والوں کو علی کی برسی کی وجہ سے معلوم ہوگیا تھا کہ ہم شہید کے خاندان والے ہیں اور یہ مجھے پسند نہ تھا۔دوسرے گھر میں ہم تین سال رہے پھر اس کو بھی بدلناپڑا۔ اس بار تبدیلی کی وجہ وہ تحقیق تھی جو مہدی کے دفتر والوں نے ہمارے محلے میں کی۔
-محترمہ آپ شہید کی زوجہ ہیں؟
میں ہکا بکا رہ گئی، میں خریداری کرنے گئی تھی تو دوکاندار نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے خود تو یہ بات کسی کو بتائی نہ تھی اور بچوں پر مجھے بھروسہ تھا کہ وہ بھی کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ دوکاندار سر جھکائے ہوئے باقی پیسے مجھے واپس کر رہا تھا۔
-وہ مہدی صاحب کے دفتر والے آئے تھے پوچھ گچھ کرنے، کہہ رہے تھے کہ آقا رحیمی ، شہید ہوئے تھے۔
میں اس کو کیا جواب دیتی بس سر کو تائید میں ہلایا اور دوکان سے باہر نکل آئی۔ ہم نے دوبار گھر تبدیل کیا اور دونوں بار پیسے کی کمی پڑی۔ مہدی اور علی کے ایک دوست نے بہت مدد کی۔ علی کے دوست نے مالک مکان سے طویل مدت لے لی بقایا جات کی ادائیگی کے لئے ،اور بے چارے مہدی نے اپنا موبائل بیچ دیا۔ اس زمانہ میں موبائل سے حاصل شدہ رقم ایک بڑی امداد تھی اور یوں مہدی گھر کا مرد بن گیا تھا جو گھر کے لئے قربانی دے سکتا تھا۔ وہ جب بھی مجھے پریشان دیکھتا تو اپنے سینے پر ہاتھ مار کر باپ کی طرح کہتا۔
-یہ کام میرے سپرد کر دیں اور آپ اس کی بالکل فکر نہ کریں۔
علی ،شہید ہوگیا اور ہم اس کے بعد زمانے کے سرد و گرم کا مزہ چکھتے رہے۔ نہ وہ آرام و سکون جو علی کے ساتھ ہمیں میسر تھا وہ ہمیشہ کے لئے تھا نہ ہی یہ پریشانیاں جو اس کے بعد ہم پرنازل ہوئیں تھیں ہمیشہ کے لئے تھیں مگر ایک چیز جس نے ہمیشہ مجھے توڑے رکھا وہ علی کی کمی ہے جو کسی صورت پوری نہ ہوسکتی تھی۔
ہم نے ابھی گھر تبدیل کیا ہی تھا کہ علی کے ساتھ کام کرنے والا ایک شخص ایک پینا فلیکس لئے چلا آیا۔ اس کا قصہ بھی بہت دلچسپ ہے۔
علی کے دوستوں میں سے کوئی ان صاحب کے پاس آیا اور اس نے کہا
-میں کافی دن سے علی کے بارے میں سوچ رہا ہوں میں چاہتا ہوں اس کا ایک پینا فلیکس بنایا جائے۔
ان صاحب کو علی کے دوست نے ڈیزائن دکھایا جس میں علی ایک جنگی محاذ پر تھا۔ انہوں نے اس کی مخالفت کردی ان کا کہنا تھا کہ علی کاکام ثقافتی نوعیت کا تھا ان کا جنگ و جدال سے کیا رابطہ؟
بات آئی گئی ہوئی۔ مگر کچھ دن بعد ان صاحب نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک جنگی محاذ پر ہیں ایک پشتہ کے کنارے۔ بہت سے نوجوان شہید ہوگئے ہیں اور ایک شخص پشتے پر بیٹھا زیارت عاشورہ پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے اس آدمی کو آواز دی۔
-بھائی آو میری مدد کرو تاکہ ہم شہدا ءکے جنازے جمع کر سکیں۔
لیکن وہ شخص زیارت عاشورہ پڑھتا رہا اور ان کی بات پر دھیان نہ دیا۔ یہ پشتے پر چڑھ گئے اور اس کا بازو ہلا کر دوبارہ اس سے کچھ کہنا چاہا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شخص علی ہے ۔ یہ پلٹ آئے اور مسکر اکر اس کو دیکھتے رہے۔ دوسرے دن اپنے دوست کو اس خواب سے آگاہ کیا۔ تو معلوم ہوا کہ وہ بھی گذشتہ شب پینا فلیکس ڈیزائن کر رہا تھا اور کافی گھنٹوں کی محنت کے بعد جو ڈیزائن دل کو بھایا تھا وہ یہی تھا کہ علی کی تصویر کو اس نے ایک جنگی میدان میں پشتے کے اوپر لگا دیا تھا۔ میں نے اس پینا فلیکس کو دیکھا تو علی کی بات یاد آگئی کہ وہ کہا کرتا تھا اس کا مورچہ یہی اجنبی دیار ہے اور میں اس کا مذاق اڑایا کرتی تھی۔
بعض اوقات میں علی کی تصویر کے سامنے بیٹھ جاتی ہوں اور فکر و خیال کے دریا میں غوطے لگانے لگتی ہوں۔ ان دنوں کے خیالات میں کھو جاتی ہوں جب ہم ایک ساتھ تھے پھر ان دنوں کا سوچتی ہوں جو اس کی شہادت کے بعد گذرے۔ وہ کب کا جا چکا ہے مگر میں اس کو ہمیشہ اپنے پاس پاتی ہوں۔ جب زندگی کے جھمیلوں سے تنگ آتی ہوں اور غم و اندوہ میرا سانس لینا بھی دشوار کر دیتے ہیں تو میں علی سے باتیں کرنا شروع کر دیتی ہوں۔ میں بولتی رہتی ہوں اور وہ صرف سننے پر اکتفاء کرتا ہے۔ بعض اوقات جب میں بہت چڑی ہوئی ہوتی ہوں تو اس کے نا بولنے کا ناجائز فائدہ بھی اٹھا لیتی ہوں اور جو دل میں آتا ہے سب بول دیتی ہوں۔جب وہ موجود تھا تب بھی وہ میری باتوں کو سنتا تھا مگر میرے اعتراضات پر مجھے قانع کرنے کے لئے جواب دیا کرتا تھا مگر اب وہ خاموشی کے ساتھ صرف سنتا ہے۔ میں اس کی معنی خیز نگاہوں کو اب بھی محسوس کرتی ہوں۔ میں اس کو مہدی کے بارے میں بتاتی ہوں کہ وہ کس قدر اپنے باپ کی شبیہہ ہے۔ فہیمہ کا بتاتی ہوں کہ اب وہ خود ماشاء اللہ جوان عورت ہے اور اس سے اس کی آخری نشانی محمد کے بارے میں گفتگو کرتی ہوں جس کا قد مجھ سے بھی لمبا ہوگیا ہے اور جب بھی میں اس کو پیار کرنا چاہوں تو اس کو اپنا سر جھکانا پڑتا ہے۔
اس نے آخری شب، جس میں وہ ساری رات میرے سامنے ٹہلتا رہا تھا ، کئی بار کہا تھا۔
-یہ لوگ بعد میں سمجھیں گے کہ میں نے کیا کیا ہے۔
میں اپنے آپ سے پوچھتی ہوں واقعاً کوئی جان سکا کہ علی نے کیا کیا؟ میں علی سے اس دن کی وحشتناکی بیان کرتی ہوں جب میں نے پہلی گولی کی آواز سنی تھی اور اضطراب و وحشت میری روح میں اتر کر مجھے سرحدِ جنوں پر لے گئے تھے۔ اس رات کا تذکرہ کرتی ہوں جس کی صبح ناپید ہوگئی تھی اور میں خانہ فرہنگ میں شہداء کے خون پر سرگرداں چکر کاٹ رہی تھی۔
علی نے گولی لگنے کے بعد کیسا محسوس کیا تھا؟ اس بارے میں میں جاننا چاہتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ محسوس کروں علی پر کیا گذری؟ جس وقت گولی اس کے سر کے آر پار گئی اس کو تکلیف ہوئی تھی؟ کیا اس کو درد محسوس ہوا تھا؟ یہ سوال اس کی شہادت کے بعد سے مسلسل میرے ذہن میں تھا مگر جواب نہ ملتا تھا۔ ایک رات میں یہی فکریں لئے بوجھل پلکوں کے ساتھ سوگئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ مجھے کچھ لوگوں نے گرفتار کر لیا ہے۔ میں ان میں سے کسی کو نہیں جانتی میں ان کے سامنے دو زانو بیٹھی ہوئی ہوں اور انہوں نے بندوقیں میری طرف تان رکھیں ہیں مگر میں بہت مطمئن ہوں اور ان سے کہہ رہی ہوں مجھے مار ڈالو میں تم سے نہیں ڈرتی۔ وہ ہنستے تھے اور کہتے تھے جلدی نہ کرو ہم یہی کام کریں گے۔ میں نے بندوق کی نال کو پکڑ کر اپنی پیشانی پر رکھ لیا اور کہا۔
مارو مارو۔ چلاو گولی۔
گولی چلنے کی آواز آئی لحظہ بھر کو درد محسوس ہوا اس کے بعد سکون ہی سکون تھا۔ ایسا لگتا تھا مجھے خلاء میں چھوڑ دیا گیا ہے، میں خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہی تھی وہ کیا احساس تھا اس کا لفظوں میں بیان ممکن نہیں۔ اس کے بعد میں مطمئن ہوگئی کہ علی کو زیادہ درد نہیں ہوا تھا اور یوں میں مسکراتے ہوئے سو گئی۔
صارفین کی تعداد: 965
http://oral-history.ir/?page=post&id=11180