ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، 55 واں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-04-20


سارا ہفتہ میں جمعرات کے انتظار میں گذارتی تھی۔ جمعرات کے دن سب کام چھوڑ چھاڑ کر میں بہشت زہراء چلی جاتی  اور اسکی قبر کے کنارے بیٹھ کر دل بھر کر آنسو بہاتی پھر اپنے درد و تکالیف اس کو سناتی۔ سہ پہر تک جب دل بھر کر رو چکی ہوتی اور خود کو ہلکا محسوس کرتی گھر پلٹ آتی۔

ان سب پریشانیوں اور ذہنی و جسمانی الجھنوں کے ساتھ کچھ لوگ ہمارے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کے چکر میں تھے۔ مختلف لوگ انٹرویو کے لئے فون کرتے ان کے پہلے ہی چند سوالات  سے میں سمجھ جاتی کہ ان کا سارا مقصد کسی ایسے نکتے ، ایسے جملے کا حصول ہے جس کو وہ بڑھا چڑھا کر ایک خبر تراش لیں اور نظام اسلامی اور نظام ولایت کو بدنام کر سکیں میں ایسا کبھی سوچ بھی نہ سکتی تھی اور مجھے یقین تھا کہ علی بھی اس پر کبھی راضی نہ ہوگا۔ اگر ہمیں کچھ گلہ شکوہ تھا بھی  تو وہ گنتی کے چند لوگوں سے تھا  نظام اسلامی سے ہمیں کوئی شکایت ، کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ میں غصہ میں فون پٹخ دیا کرتی تھی ، علی ہوتا تو وہ بھی یقیناً یہی کرتا کیونکہ اس کا ہم و غم ولی فقیہ کی اتباع اور رضا مندی اور ولایت فقیہ کی ترویج و تحفظ تھا۔ کوئی بھی چیز داخلی تناو اور ولایت فقیہ پر اندرونی تیر اندازی سے زیادہ اس کے لئے موجب آزار نہ تھی۔

جیسے جیسے وقت گذرتا جاتا تھا میں علی کی شہادت کے دن کے واقعات کو ذہن میں لاتی رہتی تھی۔  خانہ فرہنگ ملتان کے بارے میں تمام خبروں سے باخبر رہنے کی کوشش کرتی تھی۔ اخبارات  میں،  میں نے دہشت گردوں کی گرفتاری کی خبریں پڑھیں تھیں۔ زہیر نے اپنے انٹرویو میں اس دن کی تفصیلات بتائی تھیں جن کو پڑھ کر میں بہت روئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ میں سارے مناظر دوبارہ دیکھ رہی ہوں مگر اس بار مناظر بالکل واضح تھے اور کسی قسم کا کوئی ابہام نہ تھا۔  اس بار ان مناظر کو دیکھ کر پہلے جیسی حالت نہ تھی کہ میں بس صدمہ زدہ روئے جارہی ہوں اور کچھ سمجھ نہ آ رہا ہو۔ ایرانی اخبارات نے تین افراد کی گرفتاری کی خبر دی تھی جن کا اس ماجرے میں ہاتھ تھا ۔ ان میں سے ایک آدمی نے اعتراف کیا تھا کہ اس دن اس نے علی سے ملنے کا وقت لےرکھا تھا تاکہ وہ تمام واقعہ کو قریب سے دیکھ سکے اور منصوبے  کو ہر طور کامیاب کیا جائے۔ مجھے علی کی بات یاد آگئی جب وہ گھر آیا تھا اور میں نے اس سے کھانے کا کہا تھا تو اس نے کہا تھا کہ ایک اور ملاقات کا وعدہ ہے اور اس کے لئے جانا بہت ضروری ہے، اور پھر وہ ایسا گیا تھا کہ کبھی واپس نہ  پلٹا۔

جھنگوی گروہ کے سرغنہ ملک اسحاق کا نام بار بار  لیا جارہا تھا وہ بھی علی پر حملے کے بعد گرفتار ہوا تھا۔ میں اپنے خیال خام میں اس کی پھانسی کی منتظر تھی مگر چودہ سال قید میں گذارنے کے بعد اس کو ثبوت کافی نہ ہونے کی بنیاد پر آزاد کر دیا گیا اور مجھے پاکستانیوں کو یہ جملہ یاد آ گیا

-پاکستان میں قاتلوں کو سزا دینے والا کوئی نہیں ہے۔

ہمارے دن رات جیسے بھی گذر رہے تھے، گذر رہے تھے ہم شکوہ شکایت والے کبھی تھے ہی نہیں  بس خدا کا شکر ادا کرتے تھے اس کی نعمتوں پر مگر علی کی کمی ایک ایسا زخم تھا جس کا مرہم نہ ملتا تھا اور یہ زخم پہلے دن کی طرح ہی تازہ تھا۔بچے ہر روز پہلے سے زیادہ افسردہ و پژمردہ نظر آتے تھے۔  انہوں نے زیادہ تعلیم اجنبی زبانوں میں حاصل کی تھی اور اب ان کی نفسیاتی حالت بری تھی تو ان کا تعلیمی گراف مسلسل نیچے جارہا تھا۔ محمد ، علی کو زیادہ یاد کرتا تھااس لئے وہ پڑھائی میں سب سے پیچھے تھا۔

 اسکول کے پرنسپل نے ایک دن مجھے بلایا  تو میں نے ان کو بتایا کہ ان کے باپ نے ان کے پاس ہونے کے انعامات بہت پہلے ہی خرید لئے تھے  آپ اس کو پڑھائی کا شوق دلائیں۔ انہوں نے میرے سامنے محمد کو بلایا اور علی کے خریدے ہوئے تحفوں کا تذکرہ کیا اور اس سے وعدہ لیا وہ اچھی طرح پڑھائی کرے گا۔ علی سے اپنی شہادت سے دوماہ قبل ہی بچوں کے لئے یہ تحفے بطور انعام خرید لئے تھے۔ دونوں لڑکوں کے لئے کیمرے اور فہیمہ کے لئے گڑیا۔  ملتان میں رہائش کے آخری دنوں میں جب دھمکیاں حد سے زیادہ ہوگئی تھیں اور ہمارا کسی بھی صورت گھر سے باہر نکلنا ممکن نہ تھا  تو  فہیمہ کچھ ضدی سی ہوگئی تھی سو علی نے وقت سے پہلے ہی ان کے لئے یہ تحائف خرید لئے ۔

رات زیادہ نہ ہوئی تھی ۔ فہیمہ کمرے میں گئی اور ایک گڑیا لے آئی جس نے لال لباس پہنا ہوا تھا، اس کے پیچھے علی بھی گھر میں داخل ہو گیا اور دروازہ بند کر کے صوفے پر دراز ہوگیا۔ مجھے پتا تھا وہ فہیمہ کو کبھی نا نہیں کہہ سکتا اس لئے اس کو گڑیا لا دی ہے۔

-آج تو اس سے کھیل لو مگر صبح  امی کو دے دینا وہ اس کو سنبھال رکھ دیں گی۔

علی یہ کہہ کر دفتر چلا گیا۔ فہیمہ اور علی میں پہلے ہی یہ طے ہوچکا تھا کہ تحفہ آجائے گا مگر  اس کو اس وقت تک چھپائے رکھنا ہے جب تک امتحان کا رزلٹ نہیں آجاتا۔

جس دن بچوں کو رزلٹ ملا میں یہ تحفے نکال لائی۔ محمد کو اپنے انعام /تحفے کی بہت جلدی تھی۔ میں نے بچوں کو ان کی چیزیں دیں تو علی کو یاد کرکے سینہ پھٹ گیا۔ تحفے بچوں کے ہاتھ میں تھے مگر علی نہ تھا۔ میرا دل چاہتا تھا زور زور سے رووں ،مگر میں بچوں کی اس چھوٹی سی خوشی کو برباد کرنا نہیں چاہتی تھی سو آنسو پی لئے اور مسکرانے لگی۔ سال پر سال علی کے بغیر گذر رہے تھے ہر سال پہلے سے زیادہ مشکل اور طاقت فرسا ہوتا مگر ان سالوں کی خوبی یہی تھی کہ گذر رہے تھے۔

مہدی پڑھائی بھی کر رہا تھااور کام بھی کر رہا تھا۔ وہ اپنی تمام تنخواہ ہم پر خرچ کرتا تھا میرا دل نہ مانتا تھاکہ اس سے پیسے لوں لیکن وہ کب ماننے والا تھا۔ مہدی نے اپنی تنخواہ سے روز مادر پر میرے لئے عقیق کی ایک تسبیح خریدی اس وقت یہ تسبیح ایک بہت مہنگا تحفہ تھا سو میں اس کو ڈانٹے لگی کہ اتانا مہنگا تحفہ لینے کی کیا ضرورت تھی؟  وہ خلق و خو میں بنا بنا یا علی تھا، اس نے میری بات سنی ان سنی کردی اور بس ذوق و شوق سے میرے ہاتھ میں تسبیح کو  دیکھتا رہا۔ اس کو جب بھی پیسے ملتے  ہمیں رات کے کھانے پر باہر لے جاتا یا گھر کے لئے خریداری کر لیتا۔ میں ان چیزوں کو  کشادہ پیشانی سے قبول کرتی تاکہ اس کا ذوق و جذبہ ماند نہ پڑے اور اس کے جذبات کو کسی قسم کی ٹھیس نہ پہنچے، مگر میں یہ سب اس سے قرض کے طور پر لیتی تھی۔



 
صارفین کی تعداد: 933



http://oral-history.ir/?page=post&id=11179