ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، 54 واں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-04-20


ساتویں فصل

شہادت کے بعد کے دنوں کی سختیاں

علی کی شہادت کے بعد تین ماہ تک تو ہم علی کے والد کے گھر میں رہے ۔ اس کے بعد دو تین ماہ بھائی کے گھر مہمان ہوگئے۔ ایک دو دن کا قصہ تو تھا نہیں، ہمیں زندگی گذارنے کے لئے اب مستقل ٹھکانے کی ضرورت تھی اس کے ساتھ مجھے یہ بھی فکر تھی کہ بچے کہیں یہ نہ سوچیں کہ باپ کی شہادت کے بعد وہ محتاج ہوگئے ہیں  سو مجھے کوئی نہ کوئی کام ، کوئی نہ کوئی ملازمت اور مستقل آشیانہ ہر حال میں ڈھونڈنا تھا۔

خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ علی کے شہادت کے چھ ماہ بعد ہم اس قابل ہوئے کہ ایک پرانا فلیٹ خرید سکیں۔ فلیٹ پرانا تھا مگر بچوں کو چھت نصیب  ہوگئی تھی۔ گھر میں سب سے پہلے قرآن لے کر جانا تھا اس کے لئے میں صبح ہی صبح گھر سے قرآن لے کر روانہ ہوگئی، وہ بھی اکیلی بغیر بچوں کے۔ خزاں کی چبھتی ہوئی ٹھنڈی ہوا میں میرا دل بیٹھا جارہا تھا۔ راستے بھر میں صرف آنسو بہاتی رہی مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں خوش ہوں یا  بے چین۔  ہمیں ایک آشیانہ نصیب ہوگیا تھا اس کی خوشی تھی مگر  علی کے نہ ہونے کا غم اپنی جگہ جوں کا توں تھا اور یہ غم میرے دل پر سب سے بڑا بوجھ تھا۔ جب تک علی تھا ہم خانہ بدوش تھے اب علی نہیں تھا تو ہمیں جائے پناہ میسر آگئی تھی، یہ سوچ کر میں زور زور سے رونا چاہتی تھی مگر میں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ اے کاش علی ہوتا چاہے یہ سب  کچھ نہ ہوتا۔ میں انہی خیالوں میں گم اشک افشاں  راستہ طے کر رہی تھی جب ہوش میں آئی تو دیکھا میں اپنے نئے گھر کے دروازے سامنے کھڑی ہوں۔ میں نے چابی لگائی اور دروازہ کھولا وہ دروازہ جس کو اب علی کے لئے کبھی نہ کھلنا تھا۔ ایسے گھر کا دروازہ جہاں بچے کبھی اپنے باپ کی آمد کے منتظر نہ ہونگے۔ در و دیوار میری جان نکالے دے رہے تھے۔ علی  کا گھر میں نہ ہونا ایسے گھر میں جہاں کبھی وہ رہا ہی نہیں تھا مجھے آزار پہنچا رہا تھا۔ اسی عالم میں ، میں نے گھر کی صفائی شروع کی بس روتی جاتی تھی اور گھر کی صفائی کرتی جاتی تھی۔بچوں کے نہ ہونے کی وجہ سے میں گھر میں بے فکر ہو کر رو سکتی تھی۔ گھر میں ٹہلتی جاتی تھی روتی جاتی تھی۔ گھر بہت ٹھنڈا تھا ایسی ٹھنڈ تھی کہ لگتا تھا کہ کبھی گرمی نہ آئے گی۔ میرے اپنے قدموں کی آواز خالی میں گونج رہی تھی جو میرے احساس تنہائی کو اور شدید کر رہی تھی۔  کئی دن تک میرا یہی دستور رہا کہ بچے اسکول چلے جاتے تو میں اس گھر کو اشکوں کی برسات میں صاف کرنے لگتی۔ بچوں کی حالت بھی کوئی مجھ سے اچھی نہ تھی۔  اب نہ ان میں جوش و نشاط تھا نہ ہی ان کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔

 سب نے اپنے اسکول کا بستہ ماموں کے گھر سے اٹھایا اور ہم نئے گھر میں  شفٹ ہوگئے۔ گھر کے سامان میں ہمارے پاس کپڑوں کی ایک اٹیچی تھی اور ملتان جاتے وقت جو کاٹھ کباڑ ہم نے ایک رشتہ دار کے اسٹور میں رکھوادیا تھا، وہ تھا۔ سب ملا کر مشکل سے ایک سوزوکی کا سامان ہوا۔ جو کوئی ہم سے ملنے آتا وہ کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لے آتا تاکہ ہماری ضرورت کی چیزیں بھی جمع ہو سکیں اور پیسے کا معاملہ بھی درمیان میں نہ آئے اور جب عنوان تحفہ کا ہوگا تو مجھے مجبوراً اس کو قبول کرنا پڑے گا۔

جیسے بھی ہوا مگر خدا کے کرم سے ہم نے نئی زندگی شروع کر دی۔ ایسی زندگی جس میں ہر روز علی کے نہ ہونے کا احساس پہلے سے زیادہ ہوتا جاتا تھا۔ اس گھر میں غروب کے مناظر بڑے دلگیر ہوتے تھے۔ سرد فضاء، ماتم زدہ ماحول،  گھر والوں کے ہوتے ہوئے بھی تنہائی۔ گھر میں اگر سب کچھ ہوتا تب بھی علی کے ہنسی مذاق کی کمی کو کون پورا کر سکتا تھا۔ وہ ہوتا تو بچوں کے ساتھ کھیلتا، وہ اس کے پیچھے بھاگتے اور یوں سارا گھر الٹ پلٹ کر رکھ دیتے مگر اب یہ سب کچھ ایک خواب تھا اور بس، بچوں کا کھلکھلا کر ہنسنا ، علی کے قرآن پڑھنے کی آواز، اس کا رات سے صبح تک کتاب پڑھنا، میرے گرد چکر کاٹنا سب کچھ ایک حسرت بن کر رہ گیا تھا ایک یاد رہ گئی تھی جو میرے دل پر بوجھ تھی۔ بچے  بہت ہی کم گو ہوگئے تھے۔ مغرب کے بعد ہر ایک ایک کونے میں چپ سادھ کر بیٹھ جاتا۔ بات بے بات ان کا دل بھر آتا اور وہ خوب خوب گریہ کرتے، اور جو جہاں ہوتا رات میں روتے روتے وہیں سو جاتا۔ بچوں کے لئے یتیمی کی غربت کا سہنا بڑا دشوار تھا۔ ان کی آنکھوں میں جو حسرت تھی وہ میرا دل پارہ کئے دیتی تھی وہ راتوں کو بغیر آواز کے روتے تھے اور میں مجبور تھی کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دوں ۔ فہیمہ افسردہ خاطر رہتی تھی، محمد چڑچڑا ہوگیا تھا اور مہدی تو بات ہی نہ کرتا تھا صرف غمگین رہتا تھا۔ ماتم اور سوگ گھر کے در و دیوار سے ٹپکتا تھا، میری حالت سب سے بد تر تھی۔

میں اپنی سی کوشش کرتی کہ بچوں کے لئے باپ کا بدل ثابت ہوں مگر میں نہ کرپاتی۔ اگر یہ بچے خوش و خرم ہو بھی جاتے تو میں اپنے دل کا کیا کرتی؟ علی کے نہ ہونے کی وجہ سے جو خلاء میری زندگی میں آیا تھا اس کو میں کیسے پر کرسکتی تھی؟صبح سے رات تک ہزار قسم کی مشکلات، بھاگ دوڑ اور پھر رات سے صبح تک ہزاروں فکریں  جن سے میرے دماغ کی رگیں پھٹنے لگتی تھیں۔  میں روز علی کے نہ ہونے ، اسکی یادوں اور غیر واضح مستقبل کا سوچتے سوچتے سو جاتی تھی۔

جس وقت میں نےتہران میں ، خانہ فرہنگ ملتان کے حفاظتی انتظامات کمزور ہونے کا  قضیہ اٹھایا تو مجھے ادھر ادھر کی باتیں کرکے ٹالا جاتا رہا اور ایسے سطحی ، غیر قانع کنندہ اور  غیر منطقی جواب دیئے گئے کہ میرا دل ہی مر گیا اور میں نے ارادہ کر لیا کہ اب اس بارے میں کچھ نہ کہوں گی۔بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ علی اب شہید ہوچکا تھا تو اب مجھے ادارہ کے افسروں کی کوتاہیوں سے صرف نظر کرنا چاہئے تھا اور انہوں نے جو اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کی ہوئی تھی اب اس بات کو زبان پر نہ لانا چاہئے تھا۔

-محترمہ، رحیمی صاحب اب شہید ہوگئے ہیں۔ اب آپ اس قصے کو چھوڑ دیں۔ ان گڑے مردوں کو اکھاڑ کر اب آپ کو کیا ملے گا؟

-بالکل ۔ شہادت جو بالا ترین درجہ تھا اور وہ وعدہ جو علی اور اس کے خدا کے درمیان تھا ، وہ اس کو مل گیا۔ مگر کیا اب میری اور آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ اگر کوئی شہید ہوجائے تو  کیا اس بعد باقی رہ جانے والوں کی ذمہ داریاں ختم ہوجاتی ہیں؟

میں نے اتنے بے سروپا جوابات سنے کہ اب مایوس ہوگئی تھی اور یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اپنی تمام توانائیاں علی کی تینوں نشانیوذں کی پرورش پرصرف کروں گی ان چیزوں میں جان نہیں کھپاوں گی جن کا نتیجہ صرف مایوسی ہے۔ زندگی بہت مشکل تھی اور ہم سے ہر ایک علی کی کمی کو جداگانہ محسوس کر رہا تھا۔ ہم  نے کبھی مادّی مشکلات پر ناشکری نہ کی تھی کیونکہ جب علی تھا یہ مشکلات تب بھی تھیں اور  پر آسائش دنیاوی زندگی کی ہمیں کبھی بھی توقع ہی نہ تھی۔  جب تک وہ زندہ تھا اور کوئی بڑا خرچہ آجاتا تھا جس کے لئے مجھے گمان ہوتا تھا کہ علی کی توان سے باہر ہے تو میں پوچھتی تھی۔

-تمہارے پاس اتنے پیسے ہیں؟

اسے یہ کبھی پسند نہ تھا کہ میں خرچہ کی کوئی فکر کروں وہ بہت سکون سے کہتا

-تمہیں اس سے کیا مطلب ؟؟ تم اپنی زندگی گذارو میں انتظام کر لوں گا۔

اب جب کہ علی شہید ہوچکا تھا تو میں علی سے کچھ نہ مانگ سکتی تھی اور کسی اور پر میرا کیا حق تھا کہ اس سے تقاضہ کرتی؟ یہی جو لوگوں کی مدد سے ہمیں گھر مل گیا تھا اور لوگوں کے تحفوں سے ہماری ضرورت کی چیزیں جمع ہوگئیں تھیں یہی  ان سب کا ہم پر بہت بڑا احسان تھا اور میں سب کی آج تک ممنون ہوں۔

میں نے تمام مشکلات کو تحمل کیا لیکن بعض اوقات جب تھکن سے چور ہوجاتی تھی تو  میرا پیمانہ صبر لبریز ہوجاتا تھا ۔ ان موقعوں پر میرا دل خون روتا تھا۔ اکثر علی کے والد میرے ساتھ کاموں کے سلسلے میں گھومتے پھرتے تھے تاکہ میں اکیلی نہ رہوں، مگر علی کی جگہ آخر کون لے سکتا تھا۔ ایک بار ایک ادارہ میں کام کے سلسلے میں اتنا گھومی کہ تھک کر سوچنے لگی کہ علی ہوتا تو مجھے یوں دربدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتی  بس اس خیال کے آتے ہی میرے آنکھوں سے ایک دریا رواں ہو گیا۔

جب ادارہ کا کام ختم ہوجاتا تو میں تھکی ماندی علی کے والد کے پیچھے پیچھے گھر کو چل پڑتی۔ ایک دن میں اپنی سوچوں میں گم علی کے والد کے پیچھے چلی جاتی تھی کہ ایک کھمبے سے ٹکرا گئی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو علی میرے سامنے تھا۔بالکل اسی حلیہ میں جو اس کا جوانی کے ایام میں تھا اور میں نے اس کو دل بھر کر دیکھا تھا۔ علی کی نوجوانی کی تصویر، لمبی داڑھی اور کمزور جسم، اس کو دیکھ کر مجھے  علی اور اپنی مشترکہ زندگی  کے ایام یاد آنے  لگے اور میری آنکھوں سے ایک سیلاب رواں ہو گیا، علی پھر اسی شکل و صورت میں میرے پاس آگیا تھا۔ وہ ادھ کھلی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کا کمزور جسم انہی ابتدائی ایام کی مانند تھا حتیٰ کہ اس نے وہی واسکوٹ پہنی ہوئی تھی جو اس دن پہنی تھی۔ میں  حیرت میں ڈوب گئی اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھ کھولی تو علی میرے پہلو سے گذر چکا تھا۔ میں مڑی تو اس کو پیچھے سے دیکھا وہ مجھ سے دور ہو رہا تھا۔ اسی چال کے ساتھ جو اس کا خاصہ تھی نحیف جسم اور کچھ جھکی ہوئی کمر۔ ہر قدم پر اس کا سر اور سینہ آگے کی جانب جھک جاتا تھا۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے پھر آنکھیں موند لیں وہ لوگوں کے ہجوم میں گم ہوگیا اور میری نظریں اس کا تعاقب کرنے لگیں دل کہتا تھا کہ اس کا پیچھا کروں مگر پیر دل کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھے اور دوسری طرف مجھے علی کے والد کا خیال تھا جو مجھ سے کافی آگے جا چکے تھے۔  حواس بحال ہوئے تو میں نے دیکھا کہ لوگ عجیب عجیب نظروں سے مجھے دیکھ رہے ہیں، علی پھر سے کھو گیا تھا اور میں لوگوں کی نظروں سے شرمندہ ہو رہی تھی۔ میں نے اپنے آپ میں آتے ہوئے علی کی والد کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیا۔

کفگیر کھرچن پر پڑ رہی تھی۔ اب مجھے وہ دوائیں واپس کرنی تھیں جو میں خرید چکی تھی۔ میرے ہاتھ خالی تھے اور میں کسی کا احسان لینا نہیں چاہتی تھی۔ میں اللہ والے گلو بند کو گردن سے اتارا ہر چند علی کی ایک نشانی تھا مگر اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔گلوبند کو مٹھی میں دبایا تو وہ رات یاد آگئی جب علی نے کتنی محبت سے اپنے ہاتھوں سے یہ گلوبند مجھے پہنایا تھا اس وقت اس کی آنکھوں میں کتنا پیار تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ ہمیشہ کی طرح وہ اب بھی سونا بیچنے پر راضی نہیں ہے مگر میری مجبوری تھی۔ میں نے گلوبند ، علی کے ایک دوست کے حوالے کیا تاکہ وہ اس کو بیچ دے۔ کچھ ماہ بعد اس نے وہ گلو بند مجھے واپس کر دیا۔ میں خوشی سے اچھل پڑی قریب تھا کہ میری چیخ نکل جاتی۔  علی کے دوست کا دل اس گلوبند کو بیچنے پر راضی نہ ہوا تھا اور اس نے مجھے کچھ بتائے بغیر صرف پیسے مجھے دے دیئے تھے اور گلو بند کو اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد اس کی زوجہ نے، جس کو میں اس گلو بند کا قصہ سنایا ہوا تھا مجھ سے کہنے لگی کہ وہ اس گلوبند کو بیچنے میں مانع بن گئی تھی۔ بہر حال جو کچھ بھی ہوا ہو  مگر علی کی نشانی میرے پاس واپس آ چکی تھی اور یہ میرے لئے بہت نایاب تھی۔



 
صارفین کی تعداد: 1119



http://oral-history.ir/?page=post&id=11178