ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، 49 واں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-04-20


پولیس والوں نے محمد اور فہیمہ کے اسکول کا پتا معلوم کیا مگر میں جتنا بھی اپنے ذہن پر زور دیتی مجھے ان کے اسکول کا نام پتا  کچھ بھی یاد نہ آتا تھا کہ میں پولیس کو بتاوں اور وہ جاکر میرے بچوں کو اسکول سے گھر لے آئیں۔اسکول کا پتا انہوں نے زہیر سے پوچھا اور جاکر اسکول کے پرنسپل کو تمام واقعہ سنایا تو وہ بھی رو پڑے اور روتے ہوئے کلاس میں گئے جب محمد و فہیمہ کے اساتید کو اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ بھی ضبط نہ کرسکے اور رونے لگے اور انہوں نے روتے ہوئے محمد کو گود میں اٹھا لیا۔محمد نے اتنی پولیس اور استاد کو روتے ہوئے دیکھا تو سمجھا کہ ان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اس لئے وہ بہت سہم گیا اور اب وہ اس بات کا منتظر تھا کہ علی سے ملے اور سکون حاصل کرے۔ وہ اس سے بے خبر تھا کہ اب علی اور اس کی حمایتیں باقی نہیں رہیں۔

میں بے حال بد حواس اور بے جان کمرے کے درمیان میں بیٹھی تھی ، فہیمہ آ گئی ، میری آواز گلے میں گھٹ گئی۔خدا کا شکر ہے ان دونوں کے آنے تک پولیس نے لاشیں اٹھا لی تھیں مگر خون پورے خانہ فرہنگ میں بکھرا پڑا تھا۔ میں اس بات پر بھی پریشان تھی کہ جو مناظر میرے ان بچوں نے دیکھے ہیں وہ ان کی عمر سے بہت بڑے ہیں اور اب خدا جانے اس کا ان کی نفسیات پر کیا اثر ہوگا۔فہیمہ جونہی گھر آئی اور میری نظر علی کی اکلوتی بیٹی پر پڑی میری طاقت پھر سے جواب دے گئی۔ وہ حیرانی سے مجھے دیکھ رہی تھی۔

-امی ۔بابا کہاں ہیں؟

میں رو پڑی

-کون بابا؟اب بابا نہیں ہیں ۔ سب ختم ہوگیاہے۔

بچے وہیں بیٹھ کر رونے لگے مہدی ، فہیمہ کے پاس آیا اور کہا

-بابا کو کچھ نہیں ہوا ان کے پیر میں زخم آیا ہے اسپتال لے کر گئے ہیں وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔

فہیمہ نے مہدی کی بات کو قبول کر لیا اور اس کو کچھ قرار آگیا اور وہ باپ کی صحت و سلامتی کے لئے دعائیں کرنے لگی۔محمد میرے ارد گرد گھوم رہا تھا اور میری حالت زار پر پریشان تھا۔

-امی بابا کو کچھ نہیں ہوا ناں۔ بابا ٹھیک ہو جائیں گے ناں۔۔۔۔۔۔

اس  نے چاہا کہ میں اس  کی بات پر یقین کر لوں۔وہ ایک لمحے کو مجھ سے جدا نہ ہوتا تھا اور میرے رونے پر روتا تھا اس کا اصرار تھا کہ میں نہ رووں اور بابا بالکل ٹھیک ہوجائیں گی۔

خانہ فرہنگ پر حملے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح تمام شہر میں پھیل گئی اور اور لوگوں کا ایک جم غفیر خانہ فرہنگ کے دروازے کے باہر جمع ہو گیا۔ تقریباً         ۳ بجے کے قریب  یعنی میرے  نالہ و شیوں کے گھنٹوں بعد پولیس نے اجازت دی کہ چند عورتیں ہمارے گھر آ سکیں سو  زہیر کی بیوی، ایک بخاری خاتون اور ایک گردیزی خاندان کی خاتون  میرے پاس پُرسے کو چلی آئیں۔ وہ لوگ ایک ڈاکٹر کو بھی لے آئےجس نے مجھے آرام و سکون کے انججیکشن  یکے بعد دیگرے لگائے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، میرا جسم ٹھنڈا پڑا تھا۔ میری آواز بیٹھ گئی تھی اور زندگی کی رمق بھی باقی نہ تھی۔  نہ رات بھر سوئی  تھی نہ کھانا کھایا تھا اس پر مسلسل رونا اوار یہ صدمات، میری حالت تباہ ہوچکی تھی۔ میرے پٹھے تناو کا شکار تھے۔

-زہیر علی کا حال ٹھیک ہے ناں؟

میں جیسے ہی کچھ ہوش و حواس میں آتی  یہ سوال کرتی۔

-رحیمی صاحب اسپتال  میں ہیں ٹھیک ہو جائیں گے۔

وہ روتے ہوئے جواب دیتا۔ اور سر نہوڑا کر نکل جاتا اور میں تھوڑی دیر بعد پھر یہی سوال کرتی۔  ایران میں دو بجے علی کی شہادت کی خبر نشر ہو گئی تھی تو اب گھر کا فون مسلسل بج رہا تھا رشتہ دار اور دوست احباب اس خبر پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے اس لئے ہم سے تصدیق چاہتے تھے میں اپنے حال میں نہیں تھی کیا جواب دیتی فقط اتناہی کہہ پاتی تھی

-سب کچھ ختم ہو گیا ۔ اس کو قتل کردیا ہے۔

وہ یقین  نہ کرتے

-کس چیز سے مارا؟

میں جواب نہ دے پاتی تو مہدی فون لے کر ان کو سمجھاتا ۔ باوجود اس کے کہ شہادت کی خبر کا سرکاری طور پر اعلان ہو گیا تھا  لیکن میں بے یقینی کی کیفیت میں ہاتھ پاوں مارنا زیادہ مناسب سمجھ رہی تھی۔

پھپھو شیرین نے مدتوں بعد مجھے بتایا کہ جب علی کی شہادت کی خبر نشر ہوئی تو وہ گھر کے کپڑے پہنے ہوئے سر پر روسری  دھرے ٹیلی فون بوتھ پہنچ گئیں اور چلانا شروع کر دیا

-ملتان فون ملاو۔ ملتان پاکستان۔

جن لوگوں نے خبر سن لی تھی انہوں نے شیریں پھپھو کو آگے بھیج دیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ فون پر بھی میں حواس میں نہ تھی اور صرف یہی کہے جاتی تھی۔

-سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ بس آپ دعا کریں۔  بس سب ختم ہو گیا۔

مہدی بے چارا میری حالت کو دیکھتا اور مجھ سے فون لے کر جواب دینے لگتا اور ساتھ ساتھ اپنے بہن بھائی کی دل جوئی بھی کرتا جاتا۔وہ اس وقت ۱۵ سالہ جوان کے بجائے گھر کا ایک مرد محسوس ہو رہا تھا۔ اس کا بچپن صرف ایک رات کے عرصے میں تمام ہوگیا تھا اور باپ کی شہادت کے وقت سے وہ گھر کا بڑا مرد بن گیا تھا اور گھر کے سرپرست کی طرح تمام کام انجام دے رہا تھا۔

اس وقت کے تمام واقعات پراکندہ  اور دھندلے دھندلے سے میرے ذہن کے گوشوں میں ہیں۔ میں اس دن رات تک کئی بار بے ہوش ہوئی۔میں بچوں کے اشک آلود چہرے دیکھ رہی تھی اور ان کے گریے کی صدائیں سن رہی تھی مگر مجھ میں ہمت نہ تھی کہ ان کو گود میں لے سکوں یا بات کر سکوں مجھے اپنے سارے جسم میں سوئیاں چھبتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔تھوڑی دیر کو ایسا ہوتا کہ میں خود کو اس دنیا سے جدا دیکھتی تھی۔ اور خود کو ہونے نہ ہونے ، وجود و عدم کے درمیان پاتی تھی۔ میں اسی بے خودی میں بڑبڑاتی ہاتھ پاوں چلاتی اور ہوش میں آتی۔ایرانی ٹیلی ویژن چینل لگا ہوا تھا رات ۹ بجے کی خبروں میں اعلان کیا گیا

-سید محمد علی رحیمی انچارج خانہ فرہنگ ایران واقع ملتان پاکستان کو ان کے سات ملازمین کے ہمراہ  ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید کر دیا گیا ہے۔

محمد نے جیسے ہی علی کا نام سنا مجھ سے پوچھنے لگا

-یہ بابا کا نام ٹی وی پر کیوں لے رہے ہیں؟

وہ بھونچکا سا میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں پھر سے مضطرب ہو گئی، میری حالت پھر بگڑنے لگی نالہ و شیون کرنے لگی

-اب تمہیں یقین آگیا کہ تم بن باپ کے ہوگئے ہو؟

محمد نے رونا شروع کر دیا ور سسکیاں لینے لگا۔ اس کو میرے پاس سے دور لے گئے نہیں معلوم وہ کب تک روتا سسکتا رہا۔ اس کی آواز میرا دل ٹکڑے کئے دیتی تھی مگر مجھ میں اٹھنے کی سکت نہ تھی۔اس کا رونا صرف اسی وقت بند ہوتا تھا جب اس کی طاقت جواب دے جاتی تھی  اور اس کی آنکھ لگ جاتی مگر تھوڑی میں وہ ڈر کے مارے اٹھ بیٹھتا اور پھر رونا شروع کر دیتا، یہ صبح تک ایسے ہی چلتا رہا۔ گو کہ میں نے علی کے خون آلود بدن کو دیکھا تھا مگر خبریں سنے سے پہلے مجھے خود اس بات کا یقین ہی نہ آیا تھا کہ اب علی لوٹ کر نہ آئے گا۔

ہمارے گرد ایک ہجوم تھا ۔ جمشیدی صاحب بھی لاہور سے آ گئے تھے۔مہدی کا سارا بچپن انہی کے ساتھ ہندوستان میں گذرا تھا وہ بھی مہدی کو اپنے بچوں کی طرح چاہتے تھے مہدی نے جو ان کو دیکھا تو اس کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا  اور  اس نے اپنے جسم کو ان کی آغوش میں ڈال کر رونا اور بلکنا  شروع کر دیا۔

انہوں نے جلدی جلدی تمام امور انجام دیئے طے یہ پایا کہ پہلے ہم لاہور جائیں گے اس کے بعد ایران، علی کا جنازہ بعد میں ایران بھیجا جائے گا مگر میں علی کو تنہا چھوڑنے پر تیار نہ تھی سو میں نے قبول نہ کیا۔

۔ جمشیدی صاحب آپ ہی تو کہتے تھے کہ میں اور علی، لیلیٰ مجنون  ہیں اورکبھی ایک دوسرے کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے تو اب میں یہاں علی کو اکیلا   کیسے چھوڑ  جاوں؟

ساجد علی نقوی صاحب بھی جمشیدی صاحب کے ہمراہ آئے تھے میری اس بات پر سب رو پڑے۔ میں نے ساجد علی نقوی صاحب کو کئی بار خانہ فرہنگ میں دیکھا تھاانہوں نے عبا کو الٹ کر منہ پر رکھ لیا اور سر اٹھائے بغیر ہی تعزیت کرنے لگے اورہمدردی کے الفاظ ادا کرنے لگے۔

-ہم شرمندہ ہیں آپ لوگ ہمارے مہمان تھے ہم لوگ اچھے میزبان ثابت نہ ہوئے۔ رحیمی صاحب اعلیٰ ظرف اور شریف النفس انسان تھے میں ان کو دل سے چاہتا تھا۔

وہ رندھی ہوئی آواز میں بات کر رہے تھے اور اشک بہا رہے تھے۔



 
صارفین کی تعداد: 920



http://oral-history.ir/?page=post&id=11173