ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، اکتیسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-04-19


اردو اخبارات خانہ فرہنگ ایران کے کاموں کے بارےمیں روز  سرخی لگاتے تھے ۔ نمائشات اور محافل پورے دہہ فجر میں جاری رہیں۔ خانہ فرہنگ کی تقریبات میں شرکت کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا تھا حتیٰ کہ زہیر بھی اس طرح کی قبولیت عام سے حیران تھامجھ سے سرگوشی میں کہنے لگا

-محترمہ میں تو بڑا حیران ہوں اب سب آ رہے ہیں پہلے کوئی نہ آتاتھا۔

اس کے لئے زیادہ تعجب کی بات یہ تھی کہ جن لوگوں کو اس نے خود مدعو کیا تھا ان میں سے اکثر لوگ تشریف لائے تھے خصوصاًایک سیاسی تنظیم کے راہنما '' یوسف رضا گیلانی ''اور پاکستانی شیعوں کے راہبر سید ساجد علی نقوی صاحب بھی تشریف لائے تھے۔

ان محافل اور مراسم کے انعقاد اور خانہ فرہنگ کا نام زبان زدِ عام ہوتے ہی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی۔ پاکستان کی زمین رنگ و نسل و نژادپرستی اور فرقہ واریت کے لئے بہت ہی زر خیز تھی اسی لئے علی یہاں شیعہ سنی اتحاد پر بہت زور دیا کرتا تھا لیکن یہ بات اس علاقہ کے وہابیوں کے لئے قابل برداشت نہ تھی انہوں نے خانہ فرہنگ کے ایک ایک کام پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی۔ علی جس قدر شدت سے شیعہ سنی اتحاد کے لئے کام کرتا  قتل کی دھمکیاں بھی اسی قدر شدید ہوجاتیں۔ علی  ان  باتوں کا تذکرہ گھرمیں نہ کرتا تھا مجھے ان باتوں کی بھنک خانہ فرہنگ میں آنے والے ملاقاتیوں کی رفتار و گفتار سے پڑی۔ جو خواتین مجھ سے ملنے آیا کرتی تھیں ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح مجھے قائل کر لیں اور میں اپنے شوہر اور بچوں کو لے کر واپس ایران چلی جاوں۔

۔رحیمی صاحب کو یہاں سے لے جاو۔ ہم ان کے لائق نہیں ہیں۔ رحیمی صاحب اپنی ذات میں اک انقلاب ہیں  لیکن ان کے ساتھ یہاں پر اچھا نہیں ہوگا ۔

میں پاکستان میں شیعوں کے قتل و غارت کے ماحول سے آگاہ تھی اور جو یادیں شہید گنجی کے  واقعہ کی میرے ذہن میں محفوظ تھیں سب کی سب ان  تنبیہات کے ساتھ تازہ ہو جایا کرتی تھیں۔ میں شدید پریشانی اور اضطراب کا شکار ہوجاتی مگر پھر بھی یہی سوچتی کہ آخر ہم ایسا کیوں کریں؟ کیوں سب کچھ  چھوڑ چھاڑ کر واپس لوٹ جائیں؟ میں ان خواتین کو تشفی دلایا کرتی  کہ اس قدر پریشان نہ ہوں مگر میں ان کی باتوں کی اصل سے نا واقف تھی اور اس چیز پر دھیان ہی نہ تھا کہ وہ اس ملک کی مذہبی حالت سے مجھ سے زیادہ با خبر ہیں اور بغیر دلیل کے پریشان نہیں ہیں۔  وہ چاہتی تھیں کہ مجھے مطلع کردیں مگر میں علی کے سکون و اطمینان کو دیکھتی  اور اسے اس کے کاموں میں مگن پاتی تو مجھے خواتین پر حیرت ہوتی کہ بلا وجہ خوف و ہراس میں مبتلاء ہیں۔

یہاں خانہ فرہنگ میں میرے پاس ایک خادمہ بھی موجود تھی جو گھر کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹایا کرتی تھی۔ گھر کے لئے سودا سلف خریدنا ، سبزی دھونا کاٹنا اسی کے ذمہ تھا۔ وہ  روز آیۃ الکرسی پڑھ کر علی پر دم کیا کرتی تھی  اور خود نہ پڑھ سکتی تو دیوارمیں نصب آیۃ الکرسی کی جانب اشارہ کر دیتی کہ پہلے اس کو دیکھو پھر کام پر جاو۔ مجھے بھی تاکید کرتی  کہ اگر وہ کسی دن نہ ہو تو میں اس کی جگہ علی پر دم کروں اور علی کو کسی بھی طرح بغیر دعا کے گھر سے باہر نکلنے نہ دوں۔



 
صارفین کی تعداد: 720



http://oral-history.ir/?page=post&id=11154