ملتان کا مصلح، تیسواں حصہ
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2023-04-19
علی کو تمام ہی ملازمین عزیز تھے وہ سب کی باتوں کو سنتا ان کے دکھ سکھ میں ان کا ساتھ دیتا یہی سبب تھا کہ سب کے دل جیت چکا تھا اسی لئے جس وقت تک کام ہوتا کوئی گھر نہ جاتا اور خانہ فرہنگ کے برقی قمقمے جگماگاتے رہتے۔
ہرخانہ فرہنگ میں میزبان ملک کی شرائط اور اور امکانات و وسائل کے مطابق تعلیمی کلاسوں کا اہتمام ہوتا ہے ہم نے بھی کمپیوٹر ، فارسی اور مصوری کی کلاسوں کا اہتمام کیا تھا۔ علی کو جب بھی اپنے کام سے فرصت ملتی وہ کلاسوں کو دیکھنے چلا آتا، اس طرح وہ اساتذہ کا جائزہ بھی لے لیتا تھا اور طلاب سے بھی ملاقات کر لیتا تھا۔ وہ عموماً کلاس ختم ہونے کے وقت آتا اور ایران و امام خمینی کے بارے میں گفتگو کرتا۔ اس کا خود کلاسوں میں آنا شرکت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنا۔
ان تمام کاموں اور انتھک محنتوں کے بعد تہران سے موصول ہونے والے پیغامات کمر توڑ کر رکھ دیتے۔ تہران والے چاہتے تھے کسی اور کو انچارج بنا دیں اور علی اس کے ماتحت کے طور پر کام کرے۔ علی کے بقول ایسا کبھی ہونے والا نہیں تھا۔ علی نے تقریباً دو سال پاکستان اور بالخصوص ملتان کے سیاسی اور مذہبی ڈھانچے کے بارےمیں تحقیق کی تھی اور وہ جانتا تھا کہ اس کو یہاں کیا کرنا ہے، کون سا منصوبہ کب جاری کرنا ہے اور کیسے جاری کرنا ہے اس کو تمام لوازمات کی آگاہی تھی۔ اس نے تہران والوں کو منطقی دلائل بھی دیئےجن میں سے بعض کے بارے میں ، میں جانتی ہوں۔ اس مختصر عرصہ میں ہی ملتان کی اکثریت علی کو خانہ فرہنگ کے انچارج کے طور پر جان چکی تھی۔ اخبارات، رسائل، اشتہارات اور محافل و تقریبات میں علی کا تعارف اسی عنوان سے ہوتا تھا۔ دوسرا یہ کہ مدتوں بعد خانہ فرہنگ ملتان نے منظم طریقہ سے کام شروع کیا تھا اور علی کے مطابق اب ہر مہرہ اپنی جگہ پر تھا۔ خانہ فرہنگ کے روابط شہر کی سیاسی شخصیات اور اخبارات کے ساتھ مضبوط ہو چکے تھے ۔ باہر سے آنے والے لوگ ہوں یا خانہ فرہنگ کے عملہ کے کل چودہ افراد علی کے پاس ہر ایک لئے کچھ نہ کچھ منصوبہ بندی تھی اور اس نے ہر ایک کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام بانٹ رکھے تھے۔ ان سب باتوں سے اہم وہ منصوبے تھے جو علی نے مستقبل کے لئے اٹھا رکھے تھے وہ اپنے ہر منصوبہ کو عمیق سیاسی ، ثقافتی اور مذہبی امور کا مقدمہ جانتا تھا ۔ خانہ فرہنگ نے ابھی اپنے قدم جمائے ہی تھے ایسے میں ایک نئے اور ناتجربہ کار افسر کا آنا وہ بھِی ایسا افسر جو برصغیر کی زبان و ثقافت سے نا آشنا ہو انتہائی نامعقول کام تھا جو تمام محنتوں کو نقش پر آب کردینے کے مترادف تھا۔ ان سب کے علاوہ ایک اور اہم بات خانہ فرہنگ کے اخراجات میں اضافہ ہوجانا بھی تھا اگر نیا انچارج آتا تو اس کو یقیناً خانہ فرہنگ سے باہر گھر لینا پڑتا کیونکہ خانہ فرہنگ کے یہ دو رہائشی کمرے ایک گھرانے کے لئے کم پڑتے تھے چہ جائیکہ دو گھرانے دو کمروں میں زندگی گذارتے، لہٰذا ایک تو خانہ فرہنگ سے باہر گھر کرایہ پر لینا پڑتا جو خانہ فرہنگ پر فضول بوجھ ہوتا کیونکہ خانہ فرہنگ کے وسائل انتہائی کم تھے اور دوسری طرف امن و امان کی صورتحال کے لحاظ سے بھی یہ ایک بہت خطرناک کام تھا۔ ملتان میں ایک بھی ایرانی کا گھر نہ ہونا غربت کی سختیوں کو اور بڑھائے دیتا تھا اس لئے علی کا کہنا تھا کہ جو شخص بھِی یہاں کی زبان نہیں جانتا اور یہاں کی ثقافت سے بے خبر ہے وہ یہاں آکر نفسیاتی مشکلات کا شکار ہوجائے گا اور یہ کام ، حالات کو بہت خراب کر دے گا اور اس انتہائی فحش غلطی کا خمیازہ مدتوں بھگتنا پڑے گا۔
علی نے تہران والوں کو اطلاع دی۔
-فدوی نے یہ ذمہ داری تعمیل حکم میں قبول کی تھی سو میرے اور میرے گھر والوں کے لئے یہ ایک بڑی خوشخبری ہوگی کہ میں تعمیل حکم میں اس جگہ کو ترک کردوں۔
پچھلے چند سالوں کی طاقت فرسا مشکلات کے بعد اب مجھ میں پہلے جیسا حوصلہ نہیں تھااور میں جلد گھبرا جاتی تھی۔ بچے بھی تعلیمی اعتبار سے کافی نقصان اٹھا چکے تھے، علی بھی روزانہ تقریباً ۱۸ گھنٹہ کام کرنے کی وجہ سے شدید تھکن اور قلبی پریشانیوں کا شکار تھا اس لئے اس نے تہران والوں کو لکھ بھیجا
-اگر کوئی اور آدمی انچارج کے طور پر بھیجنا بہت ضروری ہے تو میں خود کو اس ذمہ داری سے بری الذمہ سمجھوں گا اور کسی اور شہر کام کرنے چلا جاوں گا یا ایران واپس پلٹ آوں گا۔
علی نے تہران والوں سے دو ٹوک بات کی
-ان صاحب کو بھی بھیج دیں اور ان کے ماتحت کو بھی بھیج دیں میں واپس آ رہا ہوں ایران۔
نہ وہ بحث و مباحثہ والا آدمی تھا نہ ہی اس کے پاس ان تمام کاموں میں پھنسنے کا وقت تھا۔ یہ تمام حواشی کی گفتگو پورے ڈیڑھ سال یعنی جب تک ہم ملتان میں رہے ، چلتی رہی اور مختلف اوقات میں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی رہی۔ ان سب پریشانیوں کے باوجود علی اپنے کاموں میں پہلے سے زیادہ جانفشانی سے جتا ہوا تھا۔
آدھی رات کا گذر چکی تھی اور علی ابھی تک گھر کو نہ پلٹا تھابچے سو رہے تھے اور میں اردو اخبارات کی رپورٹس کا علی کے لئے ترجمہ کر رہی تھی ساتھ ساتھ راہداری میں خانہ فرہنگ کے عملے کا شور بھی سن رہی تھی۔ دہہ فجر[1] کی آمد آمد تھی لہٰذا علی کے لئے دن رات ایک تھے۔ ایک بار پھر صحن میں تصویری نمائش کا انتظام تھا اس کے لئے تنبو لگا دیئے گئے تھے اور اب ہر روز تقاریر ، نغمے ، مقابلے اور تھیٹر تھا۔
[1] امام خمینی کے جلا وطنی ختم کرکے واپس ایران آنے اور شاہ کے تختہ الٹنے تک کے ایام کو دہہ فجر کہا جاتا ہے جن کا عرصہ ۱۲ بہمن سے ۲۲ بہمن تک کا ہے۔
صارفین کی تعداد: 1246
http://oral-history.ir/?page=post&id=11153