ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، انتییسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-04-19


ہفتہ دفاع مقدس کے آغاز سے چند دن پہلے علی بالکل ہی غائب ہو گیا تھا میری اس سے ٹھیک سے ملاقات نہ ہوپاتی تھی۔ وہ رات کو دیر سے گھر آتا اور صبح نماز سے پہلے ہی پھر نکل کھڑا ہوتا ہفتہ دفاعِ مقدس کے اختتام تک یہی صورت حال رہی۔ آخری روز جب کرسیاں سمٹ گئیں اور تصاویر لپیٹ دیں گئیں تب بھی علی اور اس کے سپوت دوسروں لوگوں کے ساتھ کام میں مصروف تھے اور رات گئے تھکن سے چور گھر لوٹے۔

ہم جب  سے ملتان آئے تھے ایک دن بھی باہر سیر کے لئے نہ گئے تھے گو کہ علی تھکا ہوا تھا مگر باہر جانے کی منصوبہ بندی ہوگئی۔ میں نے کھانا بنایا کہ پارک جاکر کھائیں گے۔ علی نے پتیلی اور چادر اٹھائی اور ہم پارک کی طرف چل پڑے۔ ایک چھوٹی سی جگہ پر گھاس اور چند درخت لگا دیئے گئے تھے بچے اسی کو پارک گردان کر دوڑ بھاگ رہے تھے۔ میں چادر بچھا کر علی کے ساتھ بیٹھ گئی، بچے کھیل کود میں مشغول تھے۔ علی ایک ہاتھ پر ٹیک لگائے  کہہ رہا تھا لوگوں نے جس طرح سے  ہفتہ دفاعِ مقدس  کو سراہا ہے وہ اس سے بہت مطمئن ہے اس کے بعد علی نے اپنے آئندہ کے منصوبو ں کا ذکر کیا۔ میں اس کو دیکھتی تھی اور دل ہی دل میں کہتی تھی اس آدمی کے کام کبھی ختم ہونے والے  نہیں۔ اس نے کاغذ قلم نکالا اور اپنے خیالات و تاثرات کو قلم بند کرنے لگااتنے میں شہر کی بجلی منقطع ہو گئی اور تمام شہر تاریکی میں ڈوب گیابچے بھنّاتے ہوئے ہمارے پاس آگئے کیوں کہ ان کا کھیل کود خراب ہو گیا تھا میں کھانا لگا دیا اندھیرے میں جیسے تیسے کھانا کھایا  اور واپسی کی راہ لی۔

اب مجھے خانہ فرہنگ کے شور شرابے اور وقت بے وقت کی ملاقاتوں کی عادت ہو گئی تھی ۔ علی کے لئے گھر اور کام میں کوئی فرق پہلے ہی نہ تھا مگر اس کا احساس اب مجھے اور زیادہ ہونے لگا تھا۔  یا علی کا کوئی مہمان ہوتا یا  مجھ سے ملنے کوئی خاتون آئی ہوتیں یا کسی آنے والی تقریب کے سلسلے میں بھاگ دوڑ ہوتی غرض ہر وقت کچھ نہ کچھ ہلچل رہتی تھی اور لوگوں سے ہمارا میل ملاپ روز بروز بڑھتا ہی جاتا تھا۔

خواتین جب اپنے گھروں میں محفل یا مجلس کا انتظام کرتیں تو مجھے بھی مدعو کرتیں ، وقت اور حفاظتی انتظامات اگر اجازت دیتے تو میں بھی ان کی محافل و مجالس میں شرکت کرتی۔ معمولا ً ان محافل کے بعد لوگ مجھ سے ایران میں شیعوں کے بارے میں اور بالخصوص ایرانی حجاب کے بارے میں سوالات کرتے تھے۔ خانہ فرہنگ ملتان سے آزادانہ باہر جانا صرف ابتدائی چند ماہ میں ممکن رہا اس کے بعد  میرا کام فلموں کی ڈبنگ، ترجمہ، کمپیوٹر کی کلاسیں اور بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کے کام کاج تک  یعنی خانہ فرہنگ کی چاردیواری کے اندر ہی محدود ہوگیا تھا۔ مہدی کے لئے ٹیوشن کا انتظام بھی کیا تھا تاکہ استاد اس کو اردو میں درس پڑھا دیں۔ مہدی کے ایک استاد نے ایک اخبار میں کوئی کالم پڑھا  جس کا موضوع'' ایران کا مقام بمقابلہ فلسطین '' تھا۔ پورا کالم تو مجھے یاد نہیں مگر وہ استاد اس کالم کو پڑھ کر ایران پر معترض تھا میں نے علی کے دفتر سے اخبار لیا تاکہ کالم پڑھ سکوں یوں علی بھی مہدی کے استاد کے سوال کی جانب متوجہ ہو گیا اور اس نے ایک گھنٹہ کے لئے اپنا کام کاج معطل کیا اور علی کے استاد کو وضاحت دینے لگا اس کی انگریزی ، اردو سے زیادہ اچھی تھی سو ان دونوں نے انگریزی میں گفتگو شروع کردی اس لئے میں پوری طرح سمجھ نہ پائی مگر اتنا ضرور سمجھ میں آیا کہ علی نے اپنے باتوں سےمہدی کے استاد کو قانع کر لیا تھا اور وہ شرمندہ ہو رہا تھا کہ اس کے ایک سوال کا جوب دینے کے لئے خانہ فرہنگ کے انچارج کو اپنا کام چھوڑ کر آنا پڑا۔  اس نے میری جانب دیکھ کر کہا:

-یہ مسئلہ اتنا مہم بھی نہ تھا کہ آپ نے انچارج صاحب کو زحمت دی۔

علی نے خود ہی جواب دیا۔

-ہم یہاں آئے ہی اس لئے ہیں کہ آپ کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات مبہم نہ رہیں اور ہم ان کا جواب دیں۔

علی نے اس کو تاکید کی کہ اگر آئندہ بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو ، کوئی سوال کوئی مشکل ، کوئی ابہام ہو تو ہم آپ کی خدمت میں موجود ہیں۔ علی کے اس کام نے معلم پر گہرا تاثر ڈالا  اور وہ علی کا گرویدہ ہوگیا۔ علی اپنے ملازمین کے ساتھ  بھی دوستانہ رویہ رکھتا تھا جس کی وجہ سے اس نے سب کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔

رات کے دس بجے تھے اور علی ابھی تک گھر نہ آیا تھا تو میں اس کے دفتر جاپہنچی کہ دیکھوں ہو کیا رہا ہے۔ وہاں پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں خانہ فرہنگ میں دن نکلا ہوا ہے ہر ایک سر جھکائے اپنے کام میں مشغول ہے اور تمام ملازمین صبح اول وقت کی مانند کام کر رہے ہیں ۔   کمپیوٹر انچارج سے لے کر محرر زہیر تک سب کام میں جتے ہوئے ہیں ۔

۔ خدا آپ کو سلامت رکھے ۔ معاف کیجئے گا  محترم انچارج صاحب آپ لوگوں سے کتنا کام لیتے ہیں آپ لوگ تھک جاتے ہونگے؟؟؟

یہ جملہ میں جس کسی کو بھی کہتی وہ سر اٹھا کر جواب دیتا

-نہیں محترمہ ہم نہیں تھکتے۔

پہلے میں سمجھتی وہ یہ بات بنا رہے ہیِں اور نہ تھکنے کا صرف دل رکھنے کو کہہ رہے ہیں مگر کچھ عرصہ بعد مجھے احساس ہوا کہ وہ صحیح کہتے تھے اور سب کو یہ بات پسند تھی کہ جب تک علی کام کر رہا ہے وہ اس کے ہمراہ کام کرتے رہیں۔ حبیب راتوں کو انفارمیشن کی کھڑکی میں بیٹھا اونگھتا رہتا تھا اور جب  تک علی گھر نہ آجاتا وہ بھی  گھر نہ جاتا۔

۔محترمہ اتنی رات تک جب انچارج صاحب کام کرکے نہیں تھکتے تو ہم کیا تھکیں گے؟

وہ یہ کہتا تو میں سمجھ جاتی کہ اب اصرار کرنا بے سود ہےاور میاں حبیب کا گھر جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔  سارے ملازمین علی کے کام کرنے سے توانائی حاصل کرتے تھے علی سب کی آنکھ کا تارا تھا تو علی کو سب کے سب پیارے تھے خصوصاً زہیر سے علی کا خاص لگاو تھا۔ علی کو خبر تھی کہ زہیر کو ایرانی کھانے پسند ہیں اس لئے وہ ہمیشہ تاکید کرتا تھا کہ گھر کے لئے جو بھی پکاو اس میں سے ایک رکابی زہیر کو بھجوا دیا کرو۔ بعض اوقات زہیر کی زوجہ ہمارے گھر آجاتی اور مجھے کھانا پکاتے دیکھتی تو کھانے کی ترکیب لکھ لیتی تاکہ مستقبل میں خود پکا سکے۔

اس کی زوجہ کا کہنا تھا رحیمی صاحب نے زہیر پر جادو کر دیا ہے جو کام رحیمی صاحب کرتے ہیں زہیر بھی ویسا ہی کرتا ہے۔  اگر رحیمی صاحب روزہ سے ہوں تو زہیر کا بھی  روزہ ہوگا، اگر رحیمی صاحب دیر سے روزہ کھولیں تو زہیر بھی ان کی اتباع کرتا ہے۔ اگر رحیمی صاحب دیر سے گھر آئیں تو زہیر بھی ان کی تقلید کرتا ہے۔ خانہ فرہنگ کا چوکیدار رحیم داد بھی علی کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ وہ ادھیڑ عمر تھا اور کھلتے ہوئے رنگ اور رنگین آنکھوں والا تھا ۔پاکستانیوں سے بالکل  شباہت نہ رکھتا تھا۔

محترمہ دعا کیجئے کہ مرنے سے پہلے ایک بار امام رضا علیہ السلام کی قدم بوسی کر لوں۔

جب بھی میری اس سے ملاقات ہوتی وہ اس بات کی تکرار کرتا اور مارے حسرت کے رو پڑتا۔



 
صارفین کی تعداد: 1322



http://oral-history.ir/?page=post&id=11152