شکست میرے لیے رہنے دو

مترجم: محب رضا

2023-04-19


امام  خمینی کی آمد کے لیے استقبالیہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کی طرف سے بنائے گئے پروگرام کے مطابق ہر مرجع تقلید کو دو دعوتی کارڈ بھیجے گئے تاکہ ایئرپورٹ پر امام کے استقبال کے لیے تشریف لا سکیں۔

آیت اللہ گلپائیگانی نے مجھے کا ل کی اور فرمایا: "میرے دفتر آئیں"۔

جب میں ان کے دفتر پہنچا تو انہوں نے کہا: "ہمارے لیے دو کارڈ آئے ہیں۔ آپ، میرے بیٹے آغا جواد کے ساتھ امام کے استقبال کے لیے تہران جائیں۔ہم نے حکم کی تعمیل کی اور تہران روانہ ہو گئے۔ ہم ہوائی اڈے کے ویٹنگ لاوَنج میں منتظر تھے جب امام طیارے کی سیڑھیوں سے نیچے اترے، پھر "خمینی اے امام" والا ترانہ پڑھا گیا اور امام خمینی نے خطاب کیا۔ ہم گاڑی میں بیٹھ کر آزادی اسکوائر پر پہنچے اور وہاں امام خمینی کا انتظار کیا جو وہاں گاڑی میں تشریف  آئے، پھر وہ بہشت زہرا (س) قبرستان  گئے اور ادھر اپنی مشہور تقریر کی۔

امام کے استقبال کی تقریب میں شرکت کے بعد میں قم واپس آیا اور آیت اللہ گلپائیگانی کی خدمت میں حاضر ہوا اور روداد کو بیان کیا۔ اگلے روز انہوں نے مجھے بلایا اور مجھے، مبارکباد کا وہ پیغام دیا جو انہوں نے امام خمینی کی واپسی کے متعلق لکھا تھا اور کہا: "میں نے استخارہ کیا ہے کہ یہ پیغام آپ لیکر جائیں، اچھا آیا ہے"۔

ان کے حکم کے مطابق ہم گلپائیگانی اسپتال کے ایک ڈرائیور کے ساتھ علوی اسکول کی جانب چلے، جہاں امام مستقر تھے۔ امام بالائی منزل پر موجود تھے اور بغیر اجازت کسی کو ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب ہم داخل ہوئے تو حجۃ الاسلام والمسلمین حسن صانعی نے بندے کو دیکھا اور کہا: "جناب آل طہٰ؟ اوپر تشریف لے جائیے"۔

میں امام کی خدمت میں پہنچا۔ حجۃ الاسلام والمسلمین جناب شیخ محمود انصاری امام کے ساتھ تھے، انہوں نے میرا تعارف کرایا اور فرمایا:"یہ  جناب آل طہٰ ہیں"۔

امام نے ایک بار میری طرف دیکھا اور فرمایا: عجیب! جناب آل طہ؟ آپکی داڑھی اتنی سفید کیوں ہو گئی ہے؟

میں نے کہا: "جناب، آپ نے کل ائیرپورٹ پر فرمایا تھا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں  کہ جب میں گیا تو جوان تھے مگر اب بزرگ ہو چکے ہیں، بس میں بھی ان میں سے ایک ہوں!"

انہوں نے کہا: "ادھر آؤ"۔

حجۃ الاسلام ہاشمی رفسنجانی امام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ اٹھ گئے اور میں امام کے پاس بیٹھ گیا۔

انہوں نے وہیں اعلان کیا: "میں ایرانی عوام کی جانب سے دی گئی وکالت اور شرعی ولایت کے مطابق، جناب بازرگان کو وزیر اعظم مقرر کرتا ہوں"۔

اسی دن سابق پارلیمنٹ کے دو تین ممبر استعفیٰ دینے کے لیے ان کے سامنے پیش ہوئے۔

اس ملاقات میں، میں نے امام سے عرض کیا: "یہ آیت اللہ گلپایگانی کا خط ہے جو انہوں نے آپ کو مبارکباد دینے کے لیے بھیجا ہے۔ اسی طرح آیت اللہ صافی نے یہ کہلوایا ہے کہ  قم کے افراد، علماء اور مراجع پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ تہران میں امام کے پاس مبارکباد پیش کرنے کے لیے حاضر ہوں۔"

جب انہوں نے یہ سنا تو کہا: "نہیں! نہیں! نہیں! ہم ابھی حالت جنگ میں ہیں۔ اگر ایسا ہوا کہ ناکامی ہوئی تو مجھے ناکامی ہوگی۔ مگر، اگر وہ بھی آگئے اور ناکام ہوئے تو حوزہ علمیہ شکست کھا جائے گا۔"

میں نے کہا: "اس مسئلے کو آپ جس طرح مناسب سمجھیں، بیان کریں۔"

انہوں نے کہا: "تم میری طرف سے مامور ہو کہ اس بات کو مراجع تک پہنچاوَ"۔

اس طرح میں قم واپس پہنچا تو اسی وقت قم میں ایک مظاہرہ ہو رہا تھا، میں نے بازار کے کچھ لوگوں کو دیکھا اور انہیں بتایا کہ امام نے فرمایا ہے کہ تمہیں علماء اور مراجع پر دباؤ ڈالنے کا کوئی حق نہیں ہے، اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس وقت صرف میں صف اول میں ہوں، اگر میں ناکام ہو گیا تو میں ایک شخص ہوں، لیکن اگر علماء اور مراجع  آگئے اور ہم ناکام ہو گئے تو اس وقت حوزہ برباد ہو جائے گا۔

منبع: آل طه: سرگذشت و خاطرات، تدوین غلامرضا شریعتی‌مهر «کرباسچی»، تهران، چاپ و نشر عروج، 1397، ص 77 - 80.


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 746



http://oral-history.ir/?page=post&id=11151