عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز: ۱۶

مرتضی سرہنگی

2023-01-29


جب میں نے یہ مناظر دیکھے تو سب سے پہلے جو چیز میرے ذہن میں آئی وہ عراقی مسلم قوم کی لاچاری اور مظلومی تھی اور پھر صدام کی پستی اور گستاخی تھی۔  ان جھوٹے پروپیگنڈوں سے صدام حسین لوگوں کو یہ یقین کرانے میں کامیاب ہو سکتا ہے کہ اس کی فوج اور قادسیہ کی جنگ جیت کے نزدیک ہے۔ وہ خطے کے ممالک سے تاوان  لیتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ وہ ان کی طرف سے اس جنگ میں شامل ہوا ہے۔ وہ سب صدام حسین کی نظامی فوج اور غیر نظامی قادسیہ فوج کی ضروریات کو بلا روک ٹوک فراہم کرتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ نام نہاد مسلم ممالک کے حکمران عالمی استکبار اور اس کی ناجائز جنم لینے والی صیہونیت کے آلہ کار پر ناچ رہے ہیں اور صدام حسین کے ساتھ جرم میں شریک ہیں۔  میرے پاس صدام حسین کے کی قادسیه‌ کی صورت حال اور مقصد کا تجزیہ ہے اور میں نے جو کچھ کہا ہے اس کا بیشتر حصہ اسی تجزیہ کا حصہ ہے۔ میں آپ کو ایک اور مختصر پیغام دینا چاہوں گا۔

آپ دیکھیں کہ صیہونیت دنیا میں خوفناک حد تک پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا کے اکثر حکمران اور سلاطین صیہونیت کے قبضے میں ہیں اور حتیٰ وہ صیہونیت کی اجازت کے بغیر پانی بھی نہیں پیتے۔

صیہونیت کا پہلا ہدف اسلام کو مٹانا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کسی بھی جرم یا خیانت سے نہیں ہچکچاتا یعنی فوجی جنگ سے لے کر نفسیاتی جنگ تک۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا مکمل طور پر صیہونیت کے قابو میں رہے۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی فوجی قوتوں کو براہ راست بھی استعمال کرتا ہے اور فرعی قوتوں سے بھی استفادہ کرتا ہے، جن کی طاقت بعض اوقات اصل صیہونی فوجی قوت سے زیادہ ہوتی ہے- عراق ان فرعی(ذیلی) قوتوں میں سے ایک ہے جو اپنے دوستوں و مددگاروں کے ساتھ جنگ   کی طرف کھینچی گئی ہے اور اس کی مأموریت خطے میں اسلام کے پھیلاؤ کو سنجیدگی سے روکنا ہے۔ صیہونیت کا اصل دشمن اسلام اور اسلامی ایران ہے۔ اس بات کا امکان ضعیف نہیں ہے کہ صدام کے بعد امریکہ اور صیہونیت کے نوکروں میں سے کوئی نوکر آپ کے ملک پر فوجی حملہ کرے۔ آپ جانتے ہیں کیوں؟ میرے پاس دلیل ہے۔ جب دنیا کے نیوز چینلز آپ کے جنگجوؤں کی ایک بھی فتح کا اعلان نہیں کرتے لیکن عراقی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی جھوٹی خبریں بڑے دھوم دھام سے دنیا میں پھیلاتے ہیں تو یہ ایک طرح کی نفسیاتی جنگ ہے جو وہ تمہارے ساتھ، یعنی اسلام کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ میری رائے میں نفسیاتی جنگ فوجی جنگ کا پیش خیمہ ہے۔ اس طرح کے پروگراموں کے لیے گولہ بارود کی بڑی فیکٹریوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ میں بالکل واضح طور پر کہہ دوں: دنیا کے افکار اور ان کے سوچنے کا طریقہ اور فیصلہ سازی سب صہیونیت اور سامراجیت کے پریس اور ذرائع ابلاغ کے قابو میں ہے۔ ان کے ذریعے مسلمانوں کی انسانی طاقت کے ساتھ ساتھ ان کی سوچنے کی طاقت بھی ضائع ہو رہی ہے، اس لیے آپ دیکھیں کہ ہم خطرے میں ہیں اور صدام کے پروپیگنڈا کا طریقہ بالکل صہیونی طریقہ ہے۔چونکہ صیہونیت اپنے اہداف کو آگے بڑھانے میں کسی حد تک کامیاب ہوئی ہے، صدام بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ بھی  جھوٹے پروپیگنڈے سے کامیاب ہو سکتا ہے اور اس بڑے بھنور سے ، جس میں وہ حیوان کی طرح ہاتھ پیر رہا ہے، چھٹکارا پا لے گا- لیکن خدا سب سے بڑا منصوبہ ساز ہے اور صدام کو بھی غرق ہونا ہے اور ہم اس کے ڈوبنے کے دن بغداد میں ایک ساتھ جشن منائیں گے۔ ان شاء اللہ

میں ایک محتاط سپاہی ہوں۔ بعث کی فوج نے جنگ کے آغاز سے ہی مجھے جبری طور پر بھرتی کیا۔ اس فوج کا کمانڈر کرنل ہشام فخری تھا۔ وہ بہت ہی ظالم اور جابر انسان تھا۔ اور وہ آپ کی سرزمین پر تباہی اور قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں لایا - بالکل اسی طرح جیسے - دوسرے بعثی فوجی اور صدام حسین خود۔ جنگ کے پہلے دنوں میں جب عراقی فوج کے ہاتھوں آپ کے بے دفاع سرحدی دیہات ایک کے بعد ایک قبضے میں لیے گئے اور بہت سے دیہات کے مکین میدانوں اور صحراؤں میں بے گھر ہو گئے، کرنل ہشام فخری نے ایک کے بعد ایک دیہات کو تباہ کرنے کا حکم دیا۔ میں شیخ حسن کے گاؤں میں تھا جب اس کرنل نے بلڈوزر استعمال کرنے اور پورے گاؤں کو زمین بوس کرنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ اس گاؤں کا بڑا حسینیہ اور اس کا سامان لوٹ لیا گیا۔ میں کچھ مدّت تک ایک بعثت افسر کا ڈرائیور تھا۔ اس کا نام طحہٰ عبداللہ تھا۔ وہ ابھی تک زندہ ہے۔ فتح المبین آپریشن سے ایک ہفتہ قبل انہیں بغداد بلایا گیا تھا تاکہ وہ آپ کے آنے والے حملے میں ہلاک یا پکڑا نہ جائے ، کیونکہ وہ بعثیوں کی نظر میں ایک بہت ہی لائق اور کارآمد افسر تھا، اور عراقی فوج کو ایسے افسروں کی ضرورت ہے۔ بعد میں اسے ایک درجے کی ترقی بھی حاسل ہوئی۔


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 1445



http://oral-history.ir/?page=post&id=11023