عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز: ۱۴

مرتضی سرہنگی

2023-01-29


میں کبھی نہیں چاہتا کہ صدام کا موازنہ ہٹلر، ڈوس یا شاہ سے کیا جائے۔ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ان آمروں (ڈکٹیٹروں) کی پوری شرمناک زندگی میں تھوڑی سی چھان بین سے شاید کوئی روشن نکتہ مل جائے، چاہے وہ بہت ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔

لیکن اس شخص (صدام) میں تمام انسانی پہلوؤں کی شدید کمی ہے۔ وہ ایک بدبودار لیکن اچھا نظر آنے والا، فریب دینے والا اور کاٹنے والا عنصر ہے۔

میں بھول نہیں سکتا کہ ایک دن جب ہم محاذ پر تھے، انہوں نے ہمارے توپ خانے کو ایک ہدف کے نقاط دیے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ مطلوبہ ہدف پر بھاری فائرنگ کی جائے۔ یہ کام انجام دیا گیا۔  پہلے تو ہم نے سوچا کہ ٹارگٹ آپکی کوئی اجتماع کی جگہ ہے یا آپ کا کوئی گولہ بارود کا اہم گودام، لیکن کچھ دنوں بعد ہمیں پتہ چلا کہ نشانہ سوسنگرد کی جامع مسجد تھی، یعنی خدا کا گھر۔ ہمارے سوال کے جواب میں اعلیٰ ترین کمانڈروں نے کہا کہ خمینی نے کہا تھا کہ "مسجد ایک قلعہ ہے۔" اور دشمن کے قلعہ کو کچلنا و تباہ کرنا ہوگا۔ 

مجھے صدام کو اس کی حیوانیت اور خدا و یارانِ خدا کے خلاف جنگ میں منفرد اور بے نظیر، اور ہٹلر یا شاہ سے زیادہ مجرم سمجھنے کا حق دے۔

میں سولہ سال کی عمر سے نماز پڑھ رہا ہوں، لیکن میں نے نماز کے عظیم مفہوم کو جمہوری اسلامی میں سمجھا۔ یہ میرے لیے بہت دلچسپ ہے۔ جانتے ہیں! بہت ہی دلچسپ، یہاں تک کہ میری بیوی اور دو سالہ بیٹے کے دیدار سے بھی زیادہ دلچسپ۔

ہم خالص اسلامی حکومت چاہتے ہیں۔ ہم اسلامی جمہوریہ چاہتے ہیں۔ عراق ہمارا ہے۔ مشرق و مغرب ہماری تقدیر کو صدام کے بعد کسی اور جانور کے حوالے کرنے اور ہمارے ملک پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کے بجائے سوشلسٹ یا سرمایہ دارانہ نظام جو کہ ہوس کا قانون ہے مسلط کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ ہم شیعہ ہیں۔ ہمارے پاس عاشورہ ہے۔ اگر عراق کی مسلم قوم نے صرف ایک بار جنگی شعار بلند کیا تو صدام کے ساتھ وہی ہوگا جو تاریخ کے آمروں کے ساتھ ہوا ہے۔ آپ بہتر جانتے ہیں کہ اسلام کا سورج آپ کے ملک سے طلوع ہو رہا ہے۔ اس کی روشنی اور اسکی گرمی یہاں قابل محسوس ہے، یہ اور زیادہ چمکدار ہوگی۔ اب استکبار چاہے یا نہ چاہے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے اسلامی ملک سے اپنی بیوی اور دو سالہ بیٹے کے لیے جو سب پہلا تحفہ لے جاؤں گا وہ اسلام ہے۔ اسلام جو میں نے اس سادہ کیمپ میں سیکھا۔ یقیناً اس دن صدام اور خونخوار بعث پارٹی کی پھر کوئی خبر نہیں ہوگی۔

جس دن میں سوسنگرد کے تپتے اور جلتے ہوئے صحراؤں میں پکڑا گیا، میں نے آپکے ایک نوجوان گارڈ کے تھرمس   سے اسلام کی روشنی و شفافیت پی لی جو مجھے لائن کے پیچھے لے جا رہا تھا۔ اسکی کیا صلابت و وجاہت تھی۔ کاش آپنے اسے دیکھ ہوتا۔ اس کی نظر نے مجھے سکون بخشا۔ اس کی طرف سے میری اسیری ایک نئی زندگی تھی۔ ان میں سے کچھ پاسداران نے قیدیوں کے ایک گروہ کے ساتھ یادگار تصاویر لی تھی، جن میں میں بھی تھا۔ میں ان لوگوں سے پھر ملنا چاہتا ہوں- حتیٰ کہ بغداد میں۔ لیکن وہ کربلا کے عاشق ہیں، حتیٰ عراقی مسلمانوں سے زیادہ کربلا سے عشق کرتے ہیں۔ میں مشکور ہوں، پانی سے لے کر نماز تک ہر چیز کے لیے آپ کا شکرگزار ہوں۔

20 مارچ 1981 کو شوش میں عراقی افواج کے ناکام حملے کے ایک دن بعد صدام حسین کے صدارتی محل سے منسلک ایک فلمی عملہ انفنٹری (لشکرِ پیاده) ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر میں آیا۔ کل کے حملے کی نام نہاد پیش رفت کے بارے میں فلم بنانے کے لیے، جسے عراقی ریڈیو نے متنازعہ نشر کیا، اس صورت میں کہ ہمیں اس حملے میں اسلامی جنگجوؤں کی طرف سے زبردست دھچکا لگا اور شکست ہوئی تھی۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کیمرہ مینوں (ویڈیو گرافر) نے کیا تلاش کیا، انہیں مسلح افواج کے جنرل کمانڈر کی طرف سے اعلان کردہ خبر کے ثبوت نہیں ملے. آپکو ایک دلچسپ بات بتاتا ہوں کہ ہمارے کتنے ہی کمانڈر نیوز ٹیم کی کمان بھی لینا چاہتے تھے۔  انہیں حکم دیا گیا کہ ہماری بکتر بند گاڑیوں کی ویڈیو بنائیں جنہیں آپ کے جنگجوؤں نے آگ لگا کر تباہ کر دیا تھا، اور کچھ فاصلے سے ایسے ویڈیو بنائیں کہ تصویر میں یہ واضح نہ ہو کہ جنگی مشینیں خود عراق کی ہی ہیں۔ کیمرہ مینوں نے کام کرنا شروع کر دیا اور کمانڈروں نے مسلسل تنبیہ کی کہ مکمل طور پر جلے ہوئے اور تباہ شدہ آلات کی فلم بندی کریں تاکہ یہ واضح نہ ہو کہ فلم جعلی ہے۔


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 2180



http://oral-history.ir/?page=post&id=11021