مشترکہ کمیٹی کے زندان میں تبدیلی، سال ۱۳۵۷، پچاس کی دہائی

سیدهادی خامنه‌ای
ترجمہ: محب رضا

2023-01-16


ہم ابھی تہران سے نہیں نکلے تھے [ماہ شہریور 1357، قم کی جانب]، میرا خیال ہے کہ ہم ابھی قیام یا شوش کے چوک کے نزدیک پہنچے تھے، سڑک پر بہت رش تھا اور ہم بہت آہستہ آہستہ حرکت کر رہے تھے۔ کچھ ڈرائیور مسلسل ہارن بجا رہے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب مارشل لاء لگا ہوا تھا اور اجازت نہیں تھی کہ کچھ لوگ بھی اکٹھے جمع ہوں۔ ہمارا حساب بالکل ہی الگ تھا، ایک گاڑی میں چار لوگ اور وہ بھی سر پر عمامہ پہنے ہوئے۔

ہم ابھی اس چوک اور اس ہجوم میں تھے کہ میں نے دیکھا کسی نے کار کی ڈگی پر زور سے ہاتھ مارا۔ میں نے شیشے میں، پیچھے ایک نگاہ ڈالی؛ یہ سوچ کر، کہ کسی گاڑی کو راستہ چاہیے ہوگا اور اسکا ڈرائیور ڈگی پر ہاتھ مار رہا ہوگا، میں نے زیادہ توجہ نہیں دی اور آگے بڑھتا رہا۔ اس شخص نے دوبارہ گاڑی پر ہاتھ مارا، اور مارتا ہی رہا۔ اس وقت، گاڑی میں موجود دوستوں نے، جو معاملے کو سمجھ چکے تھے، مجھ سے کہا: "جناب، رک جائیں! آپ کو رکنے کا کہہ رہے ہیں۔ مارشل لاء حکومت کے لوگ ہیں" مجھے اس وقت مسئلے کا پتہ چلا۔ میں نے آرام سے گاڑی سڑک کے کنارے روکی اور اس سے پہلے کہ باہر نکلتا، میں نے دیکھا کہ گاڑی کو چاروں طرف سے اہلکاروں نے گھیر لیا ہے۔ ایک افسر نے اپنا پستول میری کنپٹی پر رکھا اور چیخ کر بولا: "رکے کیوں نہیں؟ ایک گولی تمہارے سر پر ماروں؟" میں نے جواب دیا، "میں آپ کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں کر پایا، سمجھا کوئی عام لوگ ہیں"۔

مختصر یہ کہ وہ ہمیں تھانے لے گئے اور گاڑی قبضے میں لے کر ڈگی اور گاڑی کے اندر کے حصے کو الٹ پلٹ کر دیا۔ ہمارے پاس تو کوئی سامان نہیں تھا، جو کچھ تھا، جناب حجتی کا تھا۔ انہوں نے آقا حجتی کے سامان میں سے کچھ اعلانات تلاش کر لئے۔ ہم سب حیران تھے کہ یہ کیا ہے؟! اہلکار اعلانات دیکھتے ہی بولے: "واہ واہ! کیا بات ہے، بہت اچھے! تم میں سے کس کے ہیں؟" اعلانات کا متن شروع سے آخر تک شاہ پر تنقید پر مشتمل تھا۔ اسی اثناء میں، جناب حجتی نے کہا: "اعلانات میرے ہیں۔" ابھی انہوں نے بات ختم بھی نہیں کی تھی کہ وہ سب، ان کی جانب اس طرح بڑھے کہ انکا عمامہ نیچے گر گیا۔ وہ انہیں گرفتار کر کے تھانے کے اندر لے گئے اور ہم سے کہا: "گاڑی لاک کرکے تم لوگ بھی اندر آ جاوَ۔" ہم بھی اندر چلے گئے۔

جب تک پتہ چلے کہ اب کیا ہونا ہے، ہم ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ کچھ وقت گزر گیا، کچھ پتہ نہیں چلا۔ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ ہمارا سفر منسوخ ہو گیا ہے اور اب ہم یہیں پر ہیں۔ ایک دوست نے فون کیا تاکہ کوئی آئے اور کار اس کے مالک کو لوٹا دے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جناب کفاش زادہ خود گاڑی لینے آئے تھے یا کوئی اور، لیکن جو بھی آیا تھا، عبدالمجید معادیخواہ کے بیٹے کو بھی ساتھ لے گیا۔ حسن چھوٹا تھا اور بہت رو رہا تھا۔ بچے کو لے گئے اور ہمیں بھی حوالات بھیج دیا۔ ہم رات 9 بجے تک حوالات میں رہے اور ایک مختصر سوال و جواب کے علاوہ کچھ نہیں ہوا، ہمیں آگے کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ اس کے بعد وہ ہمیں گاڑی میں سوار کرکے مشترکہ کمیٹی کی جیل میں لے گئے۔ اس وقت سڑکوں پر سناٹا طاری تھا۔ فوجی حکومت نے سڑکوں پر یوں دھاک بٹھا رکھی تھی جیسے شہر میں کوئی نہ ہو۔

جلد ہی ہم مشترکہ کمیٹی کے قید خانے پہنچ گئے۔ اندر داخل ہوتے ہی ہماری نظر منوچہری پر پڑی۔ پہلوی حکومت کی جیلوں میں دو منوچہری تھے۔ ایک اوین جیل میں تھا، جو مشہور اذیت دینے والا تھا، اور ایک مشترکہ کمیٹی کا منوچہری تھا۔ اسے پسند تھا کہ اسے ڈاکٹر کہا جائے۔ اس نے خاص حلیہ بھی اختیار کیا ہوا تھا۔ اُس نے، اس دور کے پڑھے لکھے افراد کی مانند صاف ستھرے استری شدہ کپڑے پہنے ہوئے تھے اور بال بنائے ہوئے تھے۔ میں پہلے تو اسے نہیں پہچانا لیکن میں نے دیکھا کہ معادیخواہ اس کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ میں نے اس سے کہا: "اس کا چہرہ کتنا مانوس ہے؟" بولا: "کیا تم نے نہیں پہچانا؟ یہ وہی ڈاکٹر منوچہری ہے!" حالات مختلف ہو چکے تھے۔ اب میرے لیے نہ تو اسکی، نہ مشترکہ کمیٹی کی اور نہ ہی حکومت کی کوئی اہمیت تھی۔ جو بھی تھا، ختم ہو چکا تھا۔ حکومت کی حالت بہت خراب تھی اور اس کا آخر مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور یہی مایوسی جیل میں بھی پھیل چکی تھی۔ اس ملاقات کے بعد ہم جس پہلے کمرے میں گئے، وہاں ہمارے کپڑے اور جو کچھ ہمارے پاس تھا، ہم سے لے لیا۔ اور جیل کے کپڑوں کا ایک جوڑا ہمیں دے دیا اور یوں ہم مشترکہ کمیٹی کے قیدی بن گئے۔

منبع: قبادی، محمدی، یادستان دوران: خاطرات حجت‌الاسلام والمسلمین سیدهادی خامنه‌ای، تهران، سوره مهر، 1399، ص 539 - 544.

 

 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 970



http://oral-history.ir/?page=post&id=10998