عراقی قیدی اور مسلط شدہ کے راز-11
تالیف: مرتضی سرہنگی
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2023-01-16
"چاروں طرف گولہ باری کا شور تھا اور میری پریشانی کی حد نہیں تھی کیونکہ ایک گولہ ہمارے کیمپ کے خیموں اور زخمیوں کو جلانے کے لئے کافی تھا۔ اور بار بار میں یہی سوچ رہا تھا کہ اگر ایسا ہو گیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ اتنے میں چند زخمی میرے پاس آئے اور بولے: "جیسے بھی ہو اس محاصرے سے بھاگ نکلیں ورنہ زندہ جل جائیں گے اور اگر نہ بھی جلے تو ایرانی ہم پر رحم نہیں کریں گے"۔ میں نے ان کو سمجھایا اور کہا اگر خیمے محفوظ رہتے ہیں تو آپ ایرانیوں سے بالکل نہ ڈریں، یہ لوگ آپ کو کچھ نہیں کہیں گے، بس آپ دعا جاری رکھیں۔
لیکن سچ تو یہ تھا کہ گولہ بارود کی آوازیں نزدیک ہو رہی تھیں اور میرا تذبذب بڑھ رہا تھا کہ یا تو اب کیمپ جل جائیں گے یا پھر آپ کے سپاہی آجائیں گے۔ اسی اثنا میں ہمارے نزدیک ایک بم آ کر پھٹا اور میں نے زخمیوں کو زمین پر لیٹنے کا حکم دے دیا۔ کچھ ہی دیر میں اللہ اکبر کی صدائیں سنائی دینے لگیں، شروع میں تو کچھ وہم سا ہوا لیکن اٹھ کر دیکھا تو چند ایک ایرانی جوانوں کو پایا۔ ان میں سے ایک جوان آگے بڑھا تو سب زخمیوں ہاتھ اوپر کر لیے۔ میں بھی ہاتھ اوپر اٹھائے اس جوان کی طرف بڑھا۔ اس جوان نے ہم سب کو پرسکون رہنے اشارہ کیا اور فارسی میں کہا کہ " تم سب امان میں ہو اور اسلام کی پناہ میں ہو۔" یہ سن کر سب کی جان میں جان آگئی، سب خوش ہوگئے۔ وہ جوان دوبارہ بولا: "ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ سب ہمارے بھائی ہیں۔" میں نے بھی جوشیلے انداز سے اس کو بتایا کہ "میں ڈاکٹر ہوں اور ہمارے جوانوں کو دوا اور نگہداشت چاہیے۔ اور اس کے لئے مجھے سٹور سے ادویات اور سامان اٹھانا ہے" اس نے کہا کہ آپ علاج جاری رکھین۔ اور پھر کچھ سپاہیوں کے ساتھ میں سٹور گیا اور تمام ضروری اشیاء اٹھا لیں۔ میں نے اپنا ذاتی سامان اٹھانے کی اجازت مانگی تو اس نے کہا: "آپ بالکل آزاد ہیں، جو چاہیے سٹور سے اٹھا لیں"۔
*جاری ہے۔۔*
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 1440
http://oral-history.ir/?page=post&id=10996