تم اشارہ کرتے کہ زیادہ نہ ماریں

تالیف: غلامعلی مهربان جهرمی
ترجمہ: سید محب رضا

2022-11-29


ایک  روز وہ  میرے لیے آئے اور کہنے لگے: " ہم چاہتے ہیں کہ تمہیں عدالت لے جائیں تاکہ  تفتیشی افسر تم سے پوچھ گچھ کر سکے"  ہم بہائی مخالف انجمن کے تحت منعقدکیے گئے جلسوں کی بدولت شہرت  حاصل کر چکے تھے۔ اس زمانے میں جہرم )علاقے کا نام( میں کافی تعداد میں بہائی موجود تھےاور مختلف پیشوں میں مشغول تھے  ؛  ان میں استواری نامی شخص بھی تھا جو تھانے میں اکثر اوقات محافظ افسرکے بجائےڈیوٹی دیتا تھا اور بجلی کے تار سے جو آوَ بھگت  کرتا تھا ، اس میں میرے اور حاجی کوہمال پر خصوصی توجہ دیتا تھا۔جب ہمیں عدالت لیجانے کے لیے  قیدخانے سے باہر لے کر چلے ،تو ہم پہلے محافظ افسر کے کمرے میں داخل ہوئے ۔ قیدیوں پر تشدد  کرنے کے لیے کچھ افسر شیراز سے بھی آئے تھے اور ان میں سے کچھ افراد اہلسنت بھی تھے۔ان کو جان بوجھ کر لایا گیا تھا تاکہ اعتقادی اختلاف ہونے کے باعث اہل تشیع کی زیادہ مار پیٹ کریں۔محافظ کےکمرے میں موجود افسربہائی تھا اور استوار اسے  بتا بھی چکا تھا کہ یہ لوگ  بہائی مخالف انجمن  کے افراد ہیں۔چنانچہ انہوں نے  ہمیں خوب مارا پیٹا۔اس روز ، انہوں نے ہمیں ہتھکڑی لگانے کا حکم بھی دیا ہوا تھا، ہم بہت خوش تھے ، کیونکہ اگر ہمیں ہتھکڑی لگا کر پیدل ، پولیس اسٹیشن  سےشہداء چوک )جس کا سابقہ نام چھ بہمن چوک تھا( پر موجود، عدالت تک لیجاتے تو ہمیں اس حالت میں دیکھ کر لوگوں پر بہت انقلابی اثر ہوتا۔لیکن  معلومات کا انچارج ،انسپکٹر دہقانی  بولا:" تھانے دار صاحب  نے حکم فرمایا ہے کہ انہیں ہتھکڑی مت لگاوَ اورہاتھ کھول کر لے جاوَ۔اس کے علاوہ گاڑی میں لے جاتے ، کھڑکیوں کے پردے بھی کھینچ دینا تاکہ باہر سے کوئی انہیں نہ دیکھ سکے" ۔

اس سے قبل، ۱۵ فروردین کے اسی دن ، جس روز اکیڈمی کا افتتاح  ہوا تھا ،اکیڈمی کے طلاب نے، جنہیں معلوم ہوگیاتھا  کہ مجھے پکڑ لیا گیا ہے، ہڑتال کر دی۔ وہ چاہتے تھے کہ اکیڈمی سے باہر نکلیں اور جہرم کے تھانے کے سامنے اکھٹے ہوں۔انہیں دلاسے دے کر خاموش کر دیا  گیااور واپس اکیڈمی کے اندر بھیج دیا۔ یہ صورتحال بھانپ کر  تھانے کے افرادنے اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر مجھے سیاسی قیدی کے طور پر ہتھکڑی لگا کر لیجائیں گے تو ممکن  ہے کہ مظاہرے یا احتجاج شروع ہو جائے۔

ہمارے تفتیشی افسر کا نام رحیم خانی تھا، جو بہت عجیب، عمدہ اور ماہرانہ طریقے سے کام کرتا تھا۔ہم میں سے جس سے بھی پوچھ گچھ کرتا ، کہتا تھا،" میں نے سنا ہے کہ تمہیں قید میں مارتے ہیں؟اگر کوئی شکایت  ہے تو بتاوَتاکہ اسکی خبر لگاوَں"۔

جب حاجی کوہمال کی باری آئی ، تو انہوں نے جواباً کہا:" فرض کروں ہم شکایت کریں، تو کون اسکی خبر لگائے گا؟"

"میں خود  ادھر آکر دیکھوں گا۔"

"تمہیں تھانے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملے گی۔"

"کیسے ممکن ہے؟ میں تفتیشی افسر ہوں۔"

"تم جو چاہو ہو، تھانے کے دروازے سے ہی مارنا شروع کر دیتے ہیں۔"

"یعنی مجھے بھی ماریں گے؟"

"بالکل! ماریں گے۔ادھر اس طرح کی چیزوں سے سروکا رنہیں ہے؛ کہو گے خدا، ماریں گے! کہو گے پیغمبر، ماریں گے! کہو گے شاہ، ماریں گے! وہ صرف مارتے ہیں"

تفتیشی افسر کی حاجی کوہمال کے سامنے ہنسی نکل گئی، وہ سمجھ گیا کہ حالات اس سے کہیں  زیادہ خراب ہیں جواسے بتائے جاتے ہیں۔

اس کے بعد میری باری تھی، اس نے میرا نام پوچھا، میں بولا: " غلام علی مہربان جہرمی"

"مہربان جہرمی صاحب جو عدالت میں ہیں، ان کا تم سے کیا تعلق ہے ؟"

" میرے بھائی ہیں"

" اس نے مجھے کچھ کیوں نہیں بتایا ؟"

"اب کچھ بتائیں یا نہ ، کیا فرق پڑتا ہے؟ یہاں قوم اور برادری کا کوئی کام نہیں۔یہاں سیاسی قیدی کے نام سےجو بھی  داخل ہوتا ہے، اس کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کوئی فرق نہیں رکھتے"

جب اس نے کہا: " اگر کوئی شکایت ہے تو بتاوَ"

"ظالم کے سامنے،ظالم کی شکایت کا کیا فائدہ؟"

"یعنی کہ میں ظالم ہوں!"

"تم حکومت کے کارندے ہو، تم جانتے ہو  کہ اولین روز جب رسومات)شہداء تبریز کا چہلم( ہونے جا رہیں تھیں، تو میں حجت تمام کرنے  پراسیکیوٹر افسر کے پاس آیا تھا ۔ تمہارے  پراسیکیوٹر افسر نے کہا تھا کہ "ہمیں خفیہ مراسلہ بھیجا گیا ہے کہ تھانیدار کے حکم کی اطاعت کریں" اور تم بھی انہی کے تفتیشی افسر ہو، ہمارے لیے بھلا کیا کر سکتے ہو؟"

 

منبع: آقای مهربان: خاطرات غلامعلی مهربان جهرمی، تدوین وحید کارگر جهرمی، شیراز، آسمان هشتم، 1392، ص 141 - 146.

 

 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 1152



http://oral-history.ir/?page=post&id=10907