زندان میں حجاب کی ممانعت

تالیف: فائزہ توکلی
ترجمہ: سید محب رضا

2022-11-29


ایک رات ،جب ہم کمیٹی کے دفتر کی ساتھ والی کوٹھڑی میں تھے [یہ ۱۹۷۹  کا واقعہ ہے]،تو ایک گروہ پکڑا گیا اور تشدد کرنے والے، انہیں مسلسل زدوکوب کرتے رہے۔ اُس رات کسی کو نیند نہیں آئی کیونکہ  ان پکڑے جانے والوں کی چیخ و پکار اور فریادوں کی تمام آوازیں  ہماری کوٹھڑی میں آتی رہیں۔اس رات، میری  چالاکی [سوسن حداد عادل] ، ساتھی قیدیوں  کو اوپر نیچے کھڑا کرکے، انکے اوپر چڑھنے  اور ایک سوراخ سے یہ مناظر دیکھنے کا باعث بنی۔اُدھر میں نے ،بالوں پر مہندی لگائے  ایک بزرگ شخص کو دیکھا جن کا سر ، منوچہر  نامی ظالم، مسلسل دیوار پر مارے جا رہا تھا، اس ٹکرائے جانے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ دھپ دھپ کی آوازیں آ رہی تھیں   ۔

اس واقعے کے چند روز بعد، زندان کا ایک محافظ ہمارے سیل میں آیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولا کہ تمہارے ملاقاتی آئے ہیں ،لیکن اس شرط پر ملاقات کرواؤں گا کہ اس کو اپنے سر سے اتار دو۔ اس کی مراد قیدیوں کا وہ لباس تھا جس کے بڑا ہونے کی وجہ سے، میں نے اپنا سر ڈھانپنے کے لیے، اسے  اپنے بالوں  کے اوپر ڈال کر اسکا پہلا بٹن اپنی تھوڑی کے نیچے بند کیا ہوا تھا۔ اس طرح یہ قیدیوں کی یہ قمیص، ایک کھلے برقعےکی مانند ہوگئی تھی،  جو میں نے پہنی ہوئی تھی۔ میں نے جواب دیا کہ مجھے ملاقات ہی نہیں کرنا اور  اسی وقت دروازہ  بند کرکے سیل کے اندر بیٹھ گئی۔محافظ نے، جو مجھے لے جانے پر مامور تھا، دوبارہ  سیل کا دروازہ دھڑدھڑایا اور بولا:ٹھیک ہے، اب نہیں کہتا کہ اسے اتارو، لیکن کم از کم اسکا بٹن ہی کھول دو، بہت ہی بھدالگ رہا ہے۔میں نے بھی ثابت قدمی سے جواب دیا کہ اگر مجھے اسی حلیے اور صورت میں لیجانا  ہے  تو ملاقات کے لیے جاوَں گی ورنہ مجھے ملاقات کا کوئی شوق نہیں، کسی نے تم سے مطالبہ نہیں کیا کہ میری ملاقات کراوَ۔  آخر کار بے بس افسر کو مجبوراً مجھے ہتھکڑی لگا کر لے جانا پڑا ۔جیل کی راہداری اورصحن   میں،جہاں سے ہم گزر رہے تھے، کچھ دیر کے لیے، میں ایک بینچ پر بیٹھی۔ اس وقت ،میں نے  اسی ضعیف شخص کو دیکھا جس پراس رات تشدد کیا جا رہاتھا۔ وہ سامنے والے بینچ پر بیٹھا پوچھ گچھ کا منتظر تھا ۔ جب اسکی نگاہ مجھ پر پڑی تو اس نے سر ہلا کر مجھے داد دی ، در حقیقت وہ مجھے کہنا چاہتا تھا کہ تم پر آفرین ہو کہ اپنا حجاب محفوظ رکھا ہواہے ۔مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ آیت اللہ ربانی شیرازی تھے۔

اس دن، اپنے والدین سے پہلی ملاقات  کے دوران، جو تیس روز گزرنے کے بعد کافی مشکل سے یہاں آنے میں کامیاب ہوئے تھے،  میں نے محسوس کیا کہ وہ ،جوائنٹ کمیٹی  کے افسران کی جانب سے دباوَ کا شکار ہیں  کہ مجھ سے سوال کریں اور بقول انکے، معلومات اگلوائیں۔ اس چیز کا اندازہ لگاکر، میں بات چیت کے دوران  گفتگو کومسلسل خاندان اور دوستوں کی جانب موڑتی رہی تاکہ جواب دینے سے بچتی رہوں۔ میرے والدین جذباتی طور پر اس بات کے خواہش مند تھے کہ انکی چودہ سالہ بیٹی جلد از جلد رہا ہوجائے، جبکہ میں کسی اور دنیا میں تھی اور ہوشیاری اور جیل میں رہنے والے ساتھیوں کی تربیت  کی بدولت رازوں کی بیشتر حفاظت کرنا سیکھ چکی تھی۔ میرے والدین  نے بعدمیں بتایا کہ انٹیلی جنس  افسران، ان پر ناراض ہوئے کہ ہم نے تمہیں سوالات پوچھنے کو کہا تھا اورتم ایک بچی سے بے وقوف بن گئے، اور اس سے کچھ بھی نہیں اگلوا سکے۔

 

منبع: خاطرات زنان مبارز، به کوشش فائزه توکلی، تهران، عروج، 1399، ص 94 - 95.


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 1031



http://oral-history.ir/?page=post&id=10906