عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز: 7
تالیف: مرتضی سرہنگی
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2022-11-29
"۔۔۔ہمیں دیکھ کر یہ دیہاتی بیچارے بہت وحشت زدہ ہوگئے تھے۔ چونکہ سب نہتے تھے اس لئے ہم بے فکر تھے کہ اور اسلحہ تان کے رکھنا لازمی نہ تھا۔ لیکن جس دن وہ ملعون آفیسر وہاں پہونچا اور جو ستم اس نے ڈھایا وہ بہت تکلیف دہ ہے جسے میں کبھی بھلا نہ سکوں گا۔ اس کے بارے میں، میں نے سن رکھا تھا کہ یہ کسی کو قید نہیں کرتا بلکہ قتل کر دیتا ہے۔ اس دن اس نے میری آنکھوں کے سامنے یہ سب کر دکھایا اور وہ بھی اس گاوں کے نہتے بوڑھے اور کمزور رہائشیوں کے ساتھ۔
اس نے سب کو گھروں سے نکل کر باہر میدان میں جمع ہونے کا اعلان کیا۔ سب آگئے حتی کچھ مائیں اپنے شیرخوار بچوں کے ساتھ آگئیں۔ سب سہمے ہوئے تھے۔ مجھے لگا کہ اب شاید یہ ملعون ان سے خطاب کرئے گا۔ لیکن اس نے بس اتنا کہا کہ "سب ایک دوسرے کے نزدیک بیٹھو"، سب نے ویسا ہی کیا اور کچھ نے تو ایک دوسرے کی گردن میں باہیں بھی ڈال لیں۔ میں سادہ لوح انسان ابھی بھی سوچ رہا تھا کہ یہ آفیسر کرنا کیا چاہ رہا ہے؟ لیکن اگلے ہی لمحے اس نے پاس کھڑے ٹینک کو گولہ باری کا حکم دیا اور پھر۔۔۔ مٹی کے گرد و غبار کے ساتھ ان بے گناہ نہتوں اور بیچاروں کے بدن کے ٹکڑے ہوا میں بکھر گئے۔۔۔
وہ نہایت وحشتناک اور غمگین دن تھا۔ ان کے بدن کے ٹکڑوں کو یاد کر کے آج بھی دل کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس دن میں تمام سپاہیوں سے دور کہیں چھپ کر بہت رویا۔ خدا لعنت کرے اس آفیسر پر۔
سات فروری 1982 کو صدام نے بستان شہر واپس لینے کے لئے ایک بہت بڑے حملے کا منصوبہ بنایا جس میں زیادہ سے زیادہ ٹینک اور پیدل فوج کو تیار کیا اور دو تازہ دم بریگیڈز ثورہ شہر سے بلوائی گئیں اور ایک بریگیڈ خصوصی دستے، سینکڑوں توپوں اور بے شمار زمین سے زمین پر مار کرنے میزائلوں کے ساتھ دیوانیہ شہر سے بھی منگوائی گئی۔ حملے سے کچھ دیر پہلے صدام وہاں آیا۔ اسے دیکھ کر بہت سے سپاہی خوش ہو کر ناچنے لگے، بلکہ کئی آفیسرز نے بھی اس کے استقبال میں رقص کیا اور مٹھائی بانٹی اور کہا کہ "انقلاب کی سالگرہ نزدیک ہے، تحفے میں ہم آپ کو اپنی جانوں کے نذرانے کے ساتھ بستان شہر پیش کریں گے" صدا نے بھی خوشی اور تکبر میں جواب میں کہا: ہم سب ایک ساتھ شہر میں داخل ہوں گے"۔
صبح سات بجے حملہ شروع کیا گیا، ہر جانب سے آگ اور بارود کی بارش تھی جس کا رخ آپ کی جانب تھا۔
میں وہاں ڈاکٹر کے حیثیت سے موجود تھا۔ اپنے لشکر مین اسلحے اور لڑنے والوں کی بہتات کے باوجود بہت جلد ہمارا مورال گر گیا۔ زخمیوں کی تعداد میری سوچ سے زیادہ ہو گئی۔ اتنی تیاری کے باوجود پندرہ دنوں میں ہم دو کلومیٹر سے زیادہ پیش قدمی نہ کر پائے تھے۔ ہزار کے قریب ہمارے فوجی مارے گئے اور زخمیوں کی تعداد تین گنا۔ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ ہر ایمبولینس میں چار سے زیادہ لاشوں کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن ہم اٹھارہ سے بیس تک لاشیں ہر ایمبولینس میں ٹھونس رہے تھے۔ اور جو زخمی تھے وہ وحشت سے اور ابتدائی طبی امداد نہ ملنے سے جاں بہ لب تھے۔ اب وہاں میں سمجھا کہ صدام، اسلام کے ساتھ کتنی بڑی خیانت کر رہا ہے اور جلد از جلد اس کو نابود ہونا چاہیے۔۔۔۔"
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 1578
http://oral-history.ir/?page=post&id=10905