عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز: 6

تالیف: مرتضی سرہنگی
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ

2022-11-29


"میری عمر تقریبا پچیس سال ہے لیکن مظالم و مشکلات سے بھری اس جنگ سے جو تجربہ مجھے حاصل ہوا وہ یقینا کئی گنا زیادہ ہے،  اس جنگ میں ناروا مظالم ڈھائے گئے جو ہمیں آپ پر شاید ایک بار رلائیں لیکن سچ یہ ہے کہ جن سپاہیوں کا ضمیر زندہ ہے وہ ہزار بار اپنے اوپر روئیں گے۔ ایک سپاہی کے بدن پر لگے جنگی زخم، بے شمار تمغوں سے زیاد قیمتی ہیں اور اللہ کے نزدیک شفاعت کا باعث ہین، بس شرط یہ ہے وہ سپاہی حقیقی اسلام کے لیے لڑا ہو۔ اسی لیے مجھے افسوس ہے کہ حقیقی اسلام کے محاذ میں مجھے لڑنے کی سعادت نہیں ملی۔ اس جنگ میں، میں اس قدر دباؤ میں تھا کہ میری آرزو یہی ہوتی تھی کہ آپ کی ایماندار فوج کے ہاتھوں قید ہوجاوں اور فخر کروں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کا قیدی ہوں۔ لیکن اس فخر کے ساتھ مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ میں اس ناخواستہ جنگ میں آپ کے مد مقابل آ کھڑا ہوا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا یہ رسوائی میرا مقدر بنے گی اور صدام حسین کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں شراکت کو میری زندگی اور موت کے ساتھ لکھا جائے گا۔ 


یہ زندگی اللہ کی امانت ہے جس کو صرف اللہ کی راہ میں خرچ ہونا چاہیے نہ کہ کسی شیطانی جنگ میں۔


محاذ پہ گزرے ہوئے وقت کی تلخیاں آج بھی میں کام میں باقی ہیں اور کچھ ناگوار واقعات ہمیشہ کے لئے ناقابل فراموش ہیں۔


آفیسر طالع دودی عراق کا ایک ظالم جنگی آفیسر ہے جسے شاید آپ جانتے ہوں۔ یہ شخص، صدام کے قریبی ساتھیوں میں سے تھا جس کے ہاتھ ایران کے اندر کئی جنایات سے رنگے ہوئے تھے۔ میں چونکہ اس کے ماتحت ٹینک بریگیڈ میں تھا تو اس لئے اس کے بہت سارے مظالم کا عینی شاہد ہوں۔ ایک اور آفیسر بھی تھا جو قدرے مہربان تھا اور ابھی آپ کی قید میں ہے۔


 جنگ کے اوائل میں سوسنگرد کے کئی دیہات آفیسر طالع دودی نے قبضے میں لے لئے۔ ایک دیہات کا کافی حصہ کھنڈر بن چکا تھا اور جو گھر بچ گئے تھے وہاں زیادہ تر بوڑھے مرد و خواتین تھے جو کثیر العیال تھے اور ان گھروں میں جوان نہ تھے۔۔۔"


جاری ہے


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 1606



http://oral-history.ir/?page=post&id=10904