عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز: 4
تالیف: مرتضی سرہنگی
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2022-11-29
"حملے کی رات ہمارے ٹینک اور پیادہ دستے آپ کی جانب روانہ ہوئے۔ اب کچھ ہی دیر بعد جو میں نے وائرلیس پہ اطراف کے ٹینکوں سے رابطہ کرنا چاہا تو گویا سگنل نہیں تھے۔
اور حیرانگی کی بات یہ تھی کہ اس رات چاند مغرب سے نکل رہا تھا۔ میں گزشتہ کئی ماہ سے یہاں پر تعینات تھا، آج چاند کی تین تاریخ تھی اور آج تک ایسا عجیب و غریب منظر میں نہیں دیکھا تھا۔ میں اپنے آپ سے بار بار پوچھ رہا تھا کہ کیا ایسا ممکن ہے۔۔۔!
دوبارہ وائرلیس سے رابطہ کیا تو اب بھی ناکامی ہوئی۔
مجھے لگا شاید میں گم ہو گیا ہوں۔ حیرت اور خوف کی کیفیت میں میں نے سورہ فیل کی تلاوت شروع کر دی۔ پیدل دستے بھی کہیں ٹھہر گئے تھے۔ میں اپنے ٹینک سے باہر نکلا تا کہ باقی ٹینکوں کا جائزہ لوں۔ وہاں ایک ٹینک اور ایک سوار کو پایا اور دور سے چلایا: "تم کون ہو؟"
اس نے کہا 'میں فلاں افسر ہوں"۔
میں نے دوبارہ باقی افراد کا پوچھا تو اس نے لا علمی ظاہر کی۔ اور ساتھ گروہ کے تمام افراد کی گمشدگی کا بھی اظہار کر دیا۔ اور ہکلاتے ہوئے بولا: "یار آج رات چاند کیوں اس طرح ہے؟" وہ بھی بہت گھبرایا ہوا تھا اور اس کا سوال بھی یہی تھا کہ چاند مغرب سے کیسے نکل سکتا ہے۔ تھکن سے ہمارا بدن ٹوٹ رہا تھا۔ ہم وہیں مٹی پہ بیٹھ کر دل کو سکون دینے کے لئے گفتگو کرنے لگے۔ اسی اثنا میں فجر کی سرخی ظاہر ہونے لگی۔ لیکن تعجب سے اب آنکھیں پھٹی جا رہی تھیں کیونکہ اب سورج کو بھی ہم مغرب سے طلوع کرتا دیکھ رہے تھے۔ اب ضمیر کی آواز سنائی دے رہی تھی کہ ہم باطل پر ہیں۔
اسی کشمکش کے عالم میں ہماری یہی تمنا تھی کہ جان بخشی ہوجائے بس۔ آگ کے گولے چاروں طرف سے برس رہے تھے۔ کسی کی کوئی خبر نہ تھی کہ کہاں ہے۔
اب آگے سنیئے، سامنے سے بلند و بالا قد و قامت کے چند سپاہی اپنی جانب آتے ہوئے دیکھے۔ انہوں نے ہمارے دونوں ٹینکوں کو فورا تباہ کیا اور ہمیں قیدی بنا لیا۔ اب قریب سے انکو دیکھا تو وہ اٹھارہ بیس سال کے پھرتیلے جوان تھے۔
اس سانحہ کی یاد آج بھی میرے لیے کربناک ہے۔ بلکہ جنگ میں ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے دکھائی دیتے ہیں جو عام طور پر ممکن نہیں ہوتے۔
خیر، جب مجھے بتایا گیا کہ انٹرویو میں ہم نے اپنی معلومات اور مشاہدات بتانے ہیں تا کہ آئندہ نسلوں کے کام آئیں تو یہ جان کر بہت خوشی ہوئی۔"
جاری ہے
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 1504
http://oral-history.ir/?page=post&id=10902