عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز: 2

تالیف: مرتضی سرہنگی
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ

2022-11-29


رفتہ رفتہ عراقی فوج کے سٹاف کے افراد یہ سوچنے پہ مجبور ہوگئے کہ یہ جنگ عادلانہ نہیں۔ اب تو صدام کی میڈیا مشینری بھی ناکام ہوتی نظر آ رہی تھی۔ جنگ کے آغاز میں جھوٹ کی بنیاد پر فوج اور بہت سارے عوام میں حاصل کی گئی شہرت اب صدام کے لئے نفرت کا پیغام لا رہی تھی۔ محاذ جنگ سے مسلسل شکست اور جنگی مقتولین، گمشدگان اور قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی خبریں اس بات کے لئے کافی تھیں کہ عوامی طبقے اور فوجیوں کے دلوں میں صدام حسین کے بارے میں کینہ اور نفرت جنم لے۔ بعثی گروپ اب  عراقی فوج اور عوام کو ایرانی حملوں کے مد مقابل اپنی جانب سے مطمئن نہیں کر پا رہا تھا۔ حکومت کے قول و فعل کا تضاد برملا ہوچکا تھا، انہی وجوہات کی بنا پر اب عام جوانوں اور بوڑھے افراد کو ڈرا دھمکا کر محاذ پر بھیجا جانے لگا۔


ایک دن موسم سرما میں میری ڈیوٹی ایک کلینک پہ تھی۔ بخار میں لرزتا ایک بوڑھا شخص ڈاکٹر کے پاس آیا۔۔ڈاکٹر نے دوا دی اور مکمل آرام کرنے کا کہا۔ اس کے جانے کے بعد میں نے کہا: سر یہ تو بہت نحیف ہے! ڈاکٹر بولا: یہ بعثی گروپ کا بندہ ھے، فوجی سٹاف کا نہیں۔ میں نے پوچھا: تو پھر یہ رضا کارانہ طور پہ محاذ پہ آیا ہوگا۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا: "ایسا کچھ نہیں، وہ اپنے بیٹے کی جگہ پر آیا ہے۔یعنی سپاہی ایک دن اس کے گھر گئے اور کہا کہ اپنے جوان بیٹے کو محاذ پر بھیجو۔۔ تو بوڑھے نے کہا، اسے گھر پہ رہنے دو، میں خود چلتا ہوں۔"

ایک اور بات جس کی وجہ سے یہ عراقی فوجی انٹرویو دینے پر مصر تھے، وہ حقانیت کا وہ نور تھا جو اسلامی جمہوریہ ایران کے چہرے پر درخشاں تھا اور صرف عراقی فوجی ہی نہیں بلکہ بہت سے عراقی کمانڈر بھی اس کے معترف تھے۔ اور جو کمانڈر بعثی گروپ میں نہیں تھے ان کے لئے صدام کے ساتھ نہ صرف اپنی وفاداری ثابت کرنا ایک مشکل کام تھا بلکہ یہ بات انکی پروموشن میں بھی رکاوٹ تھی۔ خرم شہر کے حوالے سے عراقی فوج کے اعلی عہدیداران نے ایک گول میز کانفرنس رکھی جو بعد میں ایرانی ٹی وی سے نشر ہوئی اور اس تفصیل یہاں بیان نہیں کر سکتا۔


خلاصہ یہ کہ صدام اور عراقی فوج کے سب جھوٹے بھرم کھلتے چلے گئے اور انقلاب اسلامی کی جان بخش کرنیں جہاں بھی پڑیں وہاں حقایق کی کلیاں چٹکنے لگیں۔ اسی بنیاد پہ بے شمار قیدیوں کا انٹرویو صرف انٹرویو نہیں تھا بلکہ "شرعی وظیفہ" کی ادائیگی کا عکاس تھا، ان کا یہ کہنا تھا کہ "شاید اس انٹرویو کی برکت سے ہمارے گناہ کم ہو جائین۔۔۔"
ہمارے انٹرویو کا سلسلہ ہر روز صبح دس بجے شروع ہوتا اور رات آٹھ بجے تک جاری رہتا۔ بھائی چارے کی فضا میں انٹرویو کے لئے صف میں  لگے ان عراقی اسرا نے دل میں چھپے تمام درد و راز کہہ ڈالے، کئی ایک نے تو مجھے تحفوں سے بھی نوازا۔ خیر، میرے لیے یہ انٹرویوز "ثقافتی غنیمت" کا درجہ رکھتے ہیں کہ جن کو دیگر بین الاقوامی زبانوں میں شایع کرنے سے حقیقی ظالم اور مظلوم کو واضح طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان اسرا نے ایسے حقایق سے پردہ اٹھایا ہے جو ہم ایرانیوں کی تاریخ کا حصہ ہیں اور ان حقایق کو انہی اسرا کی زبانی سننے میں جو بات ہے کسی اور کی زبان سے سننے میں نہیں۔


ان کی شناخت کے حوالے سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیوں انٹرویو میں سب کی تصویر نہیں چھاپی گئی؟


تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ان کی جان کو خطرہ تھا، ماضی میں اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں اس قیدی کو سولی پہ لٹکا دیا گیا۔ اور پھر صدام نے خود بھی میڈیا پہ یہ کہا تھا کہ "جو قیدی ایران میں انٹرویو دیتے ہیں انہیں اس کی قیمت دینی پڑے گی۔"


اب آپ یہ دیکھیں کہ جان کا خطرہ ہونے کے باوجود بہت سے قیدیوں کو تصویر چھپنے پر کوئی اعتراض نہ تھا، لیکن ہم نے ایسا نہ کیا۔  بلکہ تمام اطلاعات کو انشااللہ تب شایع کریں گے جب عراق میں کسی سپاہی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔


آخر میں تمام مسئولان کا اور کمانڈر صاحبان کا تہ دل سے شکریہ ادا کروں گا جنہوں نے اس مشن میں تعاون کیا اور مزید تعاون کا بھی میں منتظر ہوں۔"


مرتضی سرہنگی۔
ستمبر 1984۔


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 903



http://oral-history.ir/?page=post&id=10900