بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-2
ترتیب: محترمہ سپیدہ خلوصیان
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2022-10-26
21اپریل 2022 بروز جمعرات کو "بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے "سورہ آرٹ کلب" میں تین سو چونتیسواں پروگرام منعقد ہوا جس میں شہداء کی کثیر تعداد فیملیز نے شرکت کی۔ سٹیج سیکرٹری آقاے حسین بہزادی فر تھے۔ مہمانوں میں آقاے رضا عباسی، امیر محمود نجف پور اور کرنل احمد حیدری شامل تھے۔
پروگرام کو جاری رکھتے ہوئے سٹیج سیکرٹری نے دوسرے مہمان راوی جناب محمود نجف پور کا تعارف کروایا اور بتایا کہ: "جن حالات میں قیدیوں اور خصوصی طور پہ کم سن اور سن رسیدہ افراد کا مورال بلند رہنا چاہیے تھا تاکہ قید کی مشکلات کو تحمل کرسکیں، ان حالات میں بانشاط اور بلند ہمت افراد کا ہونا بہت ضروری تھا، آقاے نجف پور جو وہاں پہ قیدیوں کے بال بنانے پہ مامور تھے، رہائی پانے والے افراد کے بقول، یہ سب سے زیادہ بلند ہمت انسان تھے۔ نجف پور صاحب نے اپنی گفتگو کا آغاز قید ہونے سے پہلے کے زمانے سے کیا اور بتایا کہ: " آقاے حیدری کا نام گمشدگان (مفقود الاثر افراد) میں شامل تھا اور میں چونکہ انہیں یونیورسٹی کے زمانے سے جانتا تھا اور دوستی بھی تھی تو میں نے ان کے الوداعی تعزیتی پروگرام میں شرکت بھی کی تھی۔ اس کے بعد مجھے ہمیشہ اسی بات پہ رنج ہوتا تھا کہ ایک اور احمد ہم سے جدا ہوگیا۔ اب اپنے قید ہونے کی داستان کیا سناؤں، جب مجھے قید کیا گیا تو اس وقت ایک سو بارہ افراد میری قید میں تھےاور میں اسی یونٹ میں انفنٹری بٹالین کا سربراہ بھی تھا جس کے افراد دو ہزار تھے۔ میں اھواز میں آرمورڈ لشکر92 میں تھا۔ ہمیں قیدی بنا کر بصرہ لے گئے۔ اور قید کی وہ پہلی رات میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ ہم اٹھائیس لوگ جس کمرے میں قید تھے اس کی حالت یہ تھی کہ کھڑکی نام کی کوئی چیز نہیں تھی، روشنی صرف ایک چھوٹے سے ایگزاسٹ فین والی جگہ سے آ رہی تھی، اور کمرے کا حجم کوئی چودہ میٹر کا تھا، باہر لُو چل رہی تھی، حبس اور گرمی کی شدت کے باعث سب کا برا حال تھا، اب اگر کوئی بے ہوش ہوجاتا تو ہم دروازہ پیٹتے تا کہ عراقی فوجی اس کو ہوا کھلانے باہر لے جائیں۔
چھے دن کے بعد ہمیں الرشید چھاؤنی لے گئے۔ وہیں پہ آقا حیدری اور آقاے کامبیز کمال وند بھی آگئے، ان کو دیکھ کر ہماری جان میں جان آگئی۔ در اصل ہماری بچپن کی دوستی اور محلہ داری بھی تھی۔ اور پھر آقا حبیب نصرالهی بھی آگئے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا، سب ایک ایک کر اکٹھے ہوگئے۔ آقایان شمس اللہ رضائی، مجتبی، محسن جعفری،فلاح دوست اور دیگر دوست جو کیڈٹ کالج میں ہمارے ساتھ تھے، سب وہیں اکٹھے ہو گئے۔عراقی، ہمارے چھاؤنی جانے سے ایک دن پہلے الرشید جیل آئے اور عربی میں پوچھا: "وہ بال بنانے والا کہاں ہے؟" کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے دائیں بائیں دیکھ کر کہا: "میں ہوں"۔ اس نے شک بھرے انداز میں پوچھا: " بال بنا لوگے؟" میں نے کہا: ہاں؛۔
سب سے پہلے حبیب نصرالهی صاحب آگے بڑھے اور سامنے آ کر بیٹھ گئے۔ ایک طرف سے میں اناڑی، اوپر سے ان کے بال گھنگھریالے، جن کے کاٹنے میں خاص مہارت چاہیے ہوتی ہے۔ لیکن ان حالات میں کون سی مہارت، قینچی کنگھی لے کر میں بھی شروع ہوگیا۔ آڑے ٹیڑھے سب کاٹ ڈالے۔ شیشہ دیکھ کر کہنے لگے: یہ بال بناے ہیں تم نے میرے! ستیاناس کردیا۔" میں نے بھی کہا: "معاف کیجئے گا، در اصل آج پہلی بار قینچی اس کام کے لئے اٹھائی ہے۔" خیر آخر میں ان کے سر پہ بلیڈ چلانا پڑا، اور اسی طرح مجھے کچھ نا کچھ تجربہ ہو ہی گیا۔ یہاں احمد محمد رضا نامی ایک اور صاحب بھی تھے۔ ایک پاؤں سے لنگڑا کر چلتے تھے۔ یہاں ان کی شہرت "احمد سارق الحجر" مطلب "پتھر چرانے والا" کے نام سے تھی۔ قصہ اصل میں یوں ہے کہ ہمارے جوان زحمت سے پتھر اٹھا کر کے لاتے اور گِھسا گِھسا کر آقا حمید فلاح کو دیتے، وہ قلم سے اس پتھر پہ کچھ لکھتے اور پھر باقی جوان اس کو کندہ کاری کرتے اور ایک خوبصورت چیز بن جاتی، پھر اگلے دن احمد سارق صاحب آتے اور یہ کہہ کر وہ پتھر اٹھا کر لے جاتے کہ اس کی تفتیش ہوگی،۔ اکثر جوانوں کو یہ بندا پسند نہیں تھا، بلکہ ان کا جی کرتا تھا کہ کہیں موقع مل جائے تو اسے اڈا دے کر گرائیں، اور پھر اس کی وہ گت بنائیں کہ ہمیشہ یاد رکھے۔
خیر کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ احمد کو منگنی کے لیے جانا تھا۔ آقا نگارستانی نے اپنے شیرازی لہجے میں کہا: "محمود آقو، یہ احمد آقو ہے نا سارق الحجر"۔ میں نے کہا: جی تو؟ کہنے لگے کہ "اس نے مجھے کہا ہے کہ اس کی منگنی ہونے والی ہے تو محمود سے کہیں کہ میرے بال بنا دے۔" میں نے کہا: نہیں سر، یہ نہیں ہوسکتا، ہم جب بھی ایران واپس گئے، اگر وہاں یہ بات پھیل گئی کہ میں عراقیوں کا نائی تھا تو؟ وہ بولے: نہیں، یہ کیا بات ہوئی۔ چلو بال بنا دو اس کے۔ میں نے پھر انکار کر دیا۔ ان کے دوبارہ کہنے پہ میں نے بھی شرط لگا دی کہ آپ سب کے سامنے مجھے یہ حکم دیں، اور دوسرا یہ کہ اگر بال خراب ہوگئے تو شکایت نہ کریں"۔ کہنے لگے: تم اس کے سر کی سرکس بنا دو۔۔۔جو مرضی ہے کرو۔ بس اس کا بہانہ ختم کر دو۔" خیر ہم چلے گئے۔ وہ آیا مجھے دیکھ کر کہنے لگا: "محمود ٹھیک ہو؟" میں نے بھی مثبت میں جواب دیا اور اسے بیٹھ جانے کو کہا۔ میں نے قینچی کنگھی لی اور کام شروع کردیا۔ اب جب ختم کیا تو دیکھنے کے لائق نہیں تھا۔ اس نے آئینہ لیا اور اپنا سر دیکھ کر بولا: یہ تم نے کیا حال کیا ہے میرا!؟ اور پھر اس نے جو گالیاں دیں وہ سنانے بتانے کی نہیں ہیں۔ اب باقی جیل والوں کے لیے یہ ایک مزاحیہ فلم بن گئی گویا، مطلب جو بھی دیکھتا تھا وہ ہنسی کو روک نہیں پا رہا تھا۔ میں نے کہا: سید احمد معاف کرنا بھائی، آپ کے بال خراب ہوگئے۔ ابھی ٹھیک کرتا ہوں۔ بیٹھو۔" لیکن سچ تو یہ کہ وہ مجھے مار رہا تھا اور میں اس کا سر دیکھ دیکھ کر ہنسے جا رہا تھا۔ باقی قیدیوں کا بھی ہنسی کے مارے برا حال تھا۔"
راوی نے پروگرام جاری رکھتے ہوئے قیدیوں کے بارے میں مزید بتایا: " تمام قیدی کسی نا کسی ہنر پیشے سے آراستہ تھے۔ ہم وہاں کم سہولیات سے زیادہ کام لیتے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ھے آقا مجتبی اور
آقا رجبی نے جوانوں کے سر کے بالوں سے ایک تنور بنایا تھا۔ جوانوں نے وہ سب بال سمیٹے اور گیلی مٹی تیار کی اور باقاعدہ ایک مکمل تنور بنا دیا جس پہ پکی ہوئی تازہ روٹی بھی ہمیں پہلی بار کھانے کو ملی۔ کیونکہ وہاں جو روٹی ہمیں دی جاتی تھی ہمارے دانتوں سے زیادہ سخت تھی۔
اور ساتھ میں آقا علی دارابی پلمبرنگ کے کام میں ماہر تھے۔ انھوں نے نہانے دھونے کی جگہ بنا دی۔ کیونکہ ہم دسمبر جنوری تک وہیں کھلی جگہ میں لگاے گئے شاور تلے نہاتے تھے۔ اور اس میں جو مشقت ہوتی تھی وہ بھی حد سے زیادہ تھی۔ ہر نہانے والے کے لیے ساڑھے تین لیٹر پانی کا صرف ایک گیلن ہوا کرتا تھا جس سے نہانے کے علاوہ کپڑے بھی اسی پانی سے دھونے ہوتے تھے۔ ایک دن عراقی آے اور ریزر دیتے ہوئے بولے: "سب کے سب اپنی داڑھیاں مونڈھو۔" میں نے سب کی باری لگا کر یہ کام بھی شروع کردیا۔ دس افراد کی داڑھی صاف کرنے بعد اب بلیڈ کند ہو چکے تھے جس کی وجہ سے تقریبا سبھی کے چہرے لہو لہان ہوگئے۔"
راوی نے مزید بتایا کہ: "وہ وقت اگرچہ بہت سختی کا وقت تھا لیکن ہم سب کو دوسرے کا آسرا تھا۔ اچھا دوستانہ اور محبت بھرا ماحول تھا۔ سب ایک دوسرے کے مددگار تھے۔ کیونکہ اکثر شروع سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ ٹریننگ میں بھی ساتھ تھے۔ انہی دنوں کا ایک افسوسناک واقعہ بھی ہے اور وہ اس طرح ہے کہ ایک دن میرا دل بہت اداس تھا۔ خواب میں دیکھا کہ میری بیگم ہسپتال میں داخل ہیں۔ اور جب ہسپتال پہونچا تو وہ فوت ہوگئیں اور میں نے چادر ان کے چہرے پہ ڈال دی۔ دراصل ہمیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ہمارا وطن اور اہل وطن کن حالات میں ہین۔ ہمیں خط تک لکھنے کی اجازت نہ تھی۔ صبح اٹھا تو دل و دماغ پہ اداسی چھائی ہوئی تھی۔ کامبیز نے پوچھا: خیریت؟ میں نے کہا کہ رات کو اچھا خواب نہیں دیکھا، دل بہت اداس ہے۔ ایک کونے میں بیٹھ کر اذان پڑھنے لگا وہ بھی محزون آواز میں۔ وہاں ایک احمد محمد رضا جواد چوکیدار تھا جو قم کا باشندہ تھا، دوسروں کی نسبت کافی رحمدل تھا۔ مجھے یاد ہے میرے لئے وہ شب عاشورا کو نیاز میں حلوا لایا تھا، خیر وہ پاس آیا اور بولا: آج بہت اداس لگتے ہو محمود، خیریت؟ میں نے کہا: سید احمد ایک برا خواب دیکھا میں نے۔ وہ بولا: "اللہ خیر کرے گا۔ انشااللہ مشکل آسان ہوجاے گی"۔ میں نے کہا: ہمیں کچھ اطلاع نہیں اور یہی سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے۔"
خواتین و حضرات! یقین کریں جب انسان اپنوں کی خیر خبر لینا چاہے لیکن سب راستے بند ہوں تو خدا جانتا ہے کہ یہ بات کتنی تکلیف دہ ہے۔ اور ہم نے ایسے بے شمار دن کاٹے ہیں۔ اور شادی شدہ افراد کے لیے تو یہ اور بھی زیادہ سخت تھا۔ خدا کرے ہمارے فوجی بھائیوں کا سایہ آپ کے سروں پہ قایم ودایم رہے۔ اور آپ کو خدا ہمارے لیئے سلامت رکھے۔ خدا کرے ہمارا اُن حالات میں اٹھایا ہوا ہر قدم خدا کی رضا کے لیے ہو۔
اس بعد کے ترانہ پیش کیا گیا اور پھر سٹیج سیکرٹری نے آقاے نجف پور کی گفتگو کے بارے میں کہا: انہوں نے اپنے گھر والوں کے بارے اداسی و پریشانی کا ذکر کیا۔ شہداء اور قید سے رہا شدہ افراد نے جنگ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک کتاب کی رونمائی کی تقریب میں ایک عراقی اعلی افسر، جو بعد میں ایران کا حامی ہوگیا تھا، نے ایک اعلی فوجی عہدیدار سے نقل کرتے ہوئے بتایا کہ: "ہم ایرانی افواج کے مقابلے میں جنگ نہیں ہارے بلکہ ان کی ماؤں سمیت دیگر خواتین کے مقابلے میں ہار چکے ہیں"۔ ہمارے شجاع جنگی سپوتوں کی پشت پہ ان بہادر خواتین کا ہاتھ تھا جو آٹھ سال وطن عزیز سے دفاع کرتے رہے اور پھر اس کے بعد مختلف ملکی شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 3163
http://oral-history.ir/?page=post&id=10840