بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-4
ترتیب: محترمہ سپیدہ خلوصیان
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2022-10-26
21اپریل 2022 بروز جمعرات کو "بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے "سورہ آرٹ کلب" میں تین سو چونتیسواں پروگرام منعقد ہوا جس میں شہداء کی کثیر تعداد فیملیز نے شرکت کی۔ سٹیج سیکرٹری آقاے حسین بہزادی فر تھے۔ مہمانوں میں آقاے رضا عباسی، امیر محمود نجف پور اور کرنل احمد حیدری شامل تھے۔
پروگرام کو جاری رکھتے ہوئے سٹیج سیکرٹری نے کتاب متعارف کروائی جس کا موضوع تھا: "تکریت کی جہنم"۔ اس کتاب میں رہائی پانے والے غیرتمند فرد جناب مجتبی جعفری کے وہ واقعات درج ہیں جو چھاؤنی میں قید کے دوران انہیں پیش آئے۔ اس کتاب کو ناشر "سورہ مہر" نے دو سو دس جلدوں میں شائع کیا ھے۔
کتاب کے مصنف نے بیان کیا کہ: "یہاں ابھی ایسے دوست موجود ہیں جو دس سال تک دشمن کی قید میں تھے اور سب کے پاس منوں کاغذ پہ تحریر کی جانے والی داستانیں ہیں۔ لیکن کہاں ہم اور کہاں وہ شہداء جنہوں نے جان کے نذرانے پیش کر دئیے اور اور ہم اس سعادت کو نہ پا سکے۔ اللہ تعالی سے کوئی گلہ یا شکوہ نہیں ہے لیکن ہمارا زندہ رہ جانا ہمارے لئے سخت ہے۔ خصوصا اس کا درد وہ حضرات بخوبی جانتے ہیں جو محاذ جنگ میں بھی لڑے اور پھر دشمن کی قید و بند کی صعوبتیں بھی دیکھیں اور اس دوران کئی جوان دوستوں کی کربناک شہادتوں کے گواہ ہیں اور آج تک وہ شہداء ہمارے دلوں میں موجود ہیں، مین کوئی واقعہ بیان نہیں کرنا چاہوں گا، بس اتنا کہوں گا کہ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ہی قیدخانہ میں دو بھائی قیدی ہوں۔ لیکن ہماری چھاؤنی میں دو بھائی تھے، یاری اور جعفری۔ دل سے دعا ہے کہ اللہ ان ماؤں کو پہاڑ جیسا صبر دے جنہوں نے اپنے ایسے جگرگوشوں کی جدائی برداشت کی۔"
اس کے بعد جناب محسن جعفری، جو تکریت چھاؤنی سے آزاد ہوئے تھے، نے کتاب " تکریت کی جھنم" کی آخری فصل کو یوں بیان کیا:
"دس ستمبر 1990 کو عراقی فوجی ایک لسٹ لے کر آئے اور چار چار اور پانچ پانچ افراد کے اکٹھے نام بولے۔ اور کہا کہ یہ افراد تبادلے کے لئے تیار ہوجائیں۔ انہیں بس میں بٹھا کر ایرانی سرحد کی طرف روانہ کیا جائے گا۔ جب انہوں نے میرے بھائی کا نام دوسرے گروپ کے ساتھ پکارا تو اس نے انکار کردیا اور کہا کہ: "میں اپنے بھائی کے بغیر نہیں جاونگا"۔ آخر کار اسے آقائے نگارستانی، جو وہاں ہمارے کیمپ کمانڈر تھے، نے اکیلے جانے پر راضی کیا۔ دو دن بعد اگلی لسٹ میں میرا نام بھی آگیا اور ہم بھی وہاں سے آزاد ہوگئے اور بعقوبہ چھاؤنی لائے گئے، وہاں دوبارہ بھائی کو دیکھا اور ساتھ رہنے کی کوشش کی جو پھر ناکام ہوئی۔ دراصل عراقی جان گئے تھے کہ ہم بھائی ہیں اور دو بھائیوں کو قید اور رہائی میں ایک ساتھ رہنے یا ساتھ جانے کی اجازت نہیں دینا چاہتے تھے، اور یہ ان کی دشمنی کا آخری حربہ تھا۔ ہم بارہ ستمبر کو بعقوبہ میں تھے۔ ہمارے بعد تبادلے کے لئے دو گروپ مزید لائے گئے۔ ہم چودہ ستمبر کو ایران میں داخل ہوئے۔ قیدیوں کے اس تبادلے کو ستائیس یا اٹھائیس دن لگ گئے۔ بعقوبہ میں آخری ایام میں انفرادی قید خانوں سے بھی آوازیں آنے لگیں کہ: ہمیں نہ بھلانا، ہم یہاں قید میں ہیں، کوئی پائلٹ ہے تو کوئی اعلی آفیسر۔۔۔، یہ ساٹھ لوگ تھے جو ہماری رہائی پر خوشی اور امید کی سی کیفیت میں تھے۔
آقاے نگارستانی نے بتایا کہ لگتا یوں ہے کہ ہمارے کئی جوان جو پائلٹ اور افسر ہیں وہ یہاں قید میں ہیں اور عراق ان کو تبادلے کی لسٹ میں نہیں لانا چارہا۔ یہ سن کر ہم نے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا، در اصل تمام وہ افراد جو آخری دنوں میں بعقوبہ لاے گئے تھے یہی لاپتہ افراد تھے۔ قیدیوں کی لسٹ میں ان کا نام نہیں تھا۔ گویا اس طرح سے عراق انہیں اپنی قید میں رکھنا چاہ رہا تھا، جیسے برگیڈیر جنرل جناب حسین لشکری جو اٹھارہ سال بعد ایران واپس آے۔ ہم پہلے سے کیمپ کمانڈر جناب نگارستانی صاحب سے ہم آہنگی کر چکے تھے۔ وہاں سے بیس افسران کو صلیب سرخ کے افراد کے حوالے کرنا تھا۔ وہاں لسٹ میں نام لکھوا کر ان کو بسوں میں بٹھانا تھا اور باقی نو سو اسی افراد جو سپاہی تھے، کو ایرانی سرحد کی طرف روانہ کیئے جانا تھا۔
جب ہمارا نام پکارا گیا تو ہم میں سے بیس لوگوں نے جا کر فارم پر کیے۔ فارم پہ پہلا سوال یہ تھا کہ: " کیا آپ ایران واپس جانا چاہتے ہیں؟ ہماری طرف سے اس کا یقینی جواب "جی ہاں" کی صورت میں تھا۔ خیر ہم نے فارم پر کر صلیب سرخ والوں کو دیئے۔ اور ان کی اجازت سے بسوں مین بیٹھنے لگے۔ لیکن ہم بیس افراد نے طے کیا ہوا تھا کہ ہم کہیں گے کہ ہم ایران نہیں جائیں گے۔ اور ہم نے ایسا ہی کیا۔ عراقیوں کے استفسار پہ ہم نے کہا کہ: "جب تک ہمارے پائلٹ اور دیگر افسران بالا اور قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے ہم نہیں جارہے۔ کیونکہ وہ بھت عرصے سے قید میں ہین۔" یہ سن کر عراقی افسر بھی آگئے۔ جب انہیں ہمارا مطالبہ سمجھ آیا تو کہنے لگے: "انہیں جیل لے جاؤ اور دوسرے بیس افراد کو لے آو"۔
جیل کے راستے میں ہمارے ساتھ ایک عراقی افسر تھا جو کافی بد اخلاق تھا۔ مرحوم جناب شیروانی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے صدام اور حزب بعثی خائن ہیں۔ یہ سن کر افسر نے کہا: انہیں جیل لے جا کر انکی "پذیرائی" کرو۔
آقاے احمد حیدری اس وقت ہمارے ساتھ تھے۔ ہمیں جیل میں بند کر دیا گیا۔ قید کے ان آخری لمحات میں آقاے حیدری نے قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دی۔ ان حالات میں اس بڑے ہال میں اس تلاوت کی چاشنی ہی کچھ الگ تھی۔ گویا ہمیں مشکل آسان ہونے کا اطمینان ملنے لگا۔ گھنٹے بھر کے بعد ایک عراقی آیا اور بولا: چلو جاو،۔
خیر، ان پائلٹ حضرات اور دس سالہ قیدیوں کے انہوں نے نام لکھے۔ ہم نے کہا: "ہمیں آپ پہ اعتماد نہیں،"۔
آقاے موچانی کو ہمارے جیل بھیجا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ آقاے نگارستانی نے کہا ہے کہ: صلیب سرخ کے مطابق تمام مطلوبہ اور مفقود افراد کے نام لکھ دیئے گئے ہیں۔ یہ سن کر ہم بھی آقاے موچانی کے ساتھ آگئے اور بسوں میں سوار ہوگئے اور نو سو اسی افراد کے ساتھ ایرانی سرحد پر پہونچ گئے۔
میرے بھائیو! ایک قیدی، پردیس میں قید میں رہتے ہوے خالی ہاتھ بھی اپنے ہم شہریوں کے لئے بہت کچھ کر سکتا ہے۔ ابھی آج ہم اپنے وطن میں ہیں اور اختیارات بھی حاصل ہیں، یقینا کئی گنا زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ آئیے سب مل کر اپنے وطن اور ہم وطنوں کے لیئے کچھ کریں۔"
یہ پروگرام چھاؤنی 19 سے رہائی یافتہ افراد اور شہدا کی کچھ فیملیز کی موجودگی میں منعقد ہوا۔ ان میں سے کچھ کے نام ذیل میں ہیں:
رضا ابراهیمی»، «سعید احراری»، «پرویز احسانی»، «منصور استکی»، «فرشید اسکندری»، «رضا اسکویی»، «علی افشاری»، «قربانعلی اکبری»، جانباز «عطاءالله امینی»، امیر «مرسل آهنگری»، امیر «جمشید اوشال»، امیر «محمد ابراهیم باباجانی» ، «رضا بیات»، «صادق پرندوش»، «داود پورعراقی»، «عباس جابری»، «مسعود جعفریه»، «سید محمدعلی جلادتی»، «احمد حیدری»، «سیاوش خبازپور»، «مسعود خزایی»، «علی خیری»، «حمید درساره»، «مرتضی دلاور»، «بهروز رحمانی»، «شمسالله رضایی»، امیر «محمد زارع»، «حسن زارعی»، «نظام سراغی»، امیر«حمید سلمانی»، «عبدالحسین شجاعی»، «عباس شیبانی»، «علیرضا عاشوری»، «صارم عباسی»، «محمود عبداللهی»، «ارسلان عبدی»، «علیرضا عبدی»، «خلیل عروج زاده»، «احمد علینژاد»، «حمید فلاحدوست»، امیر «عبدالمجید فنودی»، «قربانعلی کاظمی»، «علاءالدین کاوه»، «جلال کریمی»، «مصطفی کشاورز»، «حبیبالله کلانتری»، «کامبیز کمالوند»، «علی گوهری»، «حسین مبارکی»، «رضا مرادی»، «محمدحسن ملکی»، «جمشید موسوی»، «اصغر میرزایی»، «عیسی میرزایی»، «حمید میرمولایی»، «سعید نادعلی»، «محمود نجفپور»، «حبیب نصرالهی»، «مراد نوروزیفر»، «محمد نوری اصل»، «منوچهر نوید مقدم»، «شهاب وحیدی»، «قاسم ورزدار»، «محمد یاراحمدی» و «خواجهامیری"۔
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 1837
http://oral-history.ir/?page=post&id=10839