بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-1

ترتیب: محترمہ سپیدہ خلوصیان
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ

2022-10-26


21اپریل 2022 بروز جمعرات کو "بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے "سورہ آرٹ کلب" میں تین سو چونتیسواں پروگرام منعقد ہوا جس میں شہداء کی کثیر تعداد فیملیز نے شرکت کی۔ پروگرام کا موضوع تھا "غیرتمند قبیلے کے جوان"۔ اور سٹیج سیکرٹری آقاے حسین بہزادی فر تھے۔ مہمانوں میں آقاے رضا عباسی، امیر محمود نجف پور اور کرنل احمد حیدری، جو تکریت چھاؤنی سے تشریف لائے تھے، نے اہم واقعات کو بیان کیا۔


کرنل احمد حیدری صاحب  نے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا۔


سٹیج سیکرٹری نے امیر کائنات مولا علی علیہ السلام کی شہادت کے حوالے سے تعزیتی کلمات ادا کئے اور یوں گویا ہوئے:


"سالہا سال سے یہ ادارہ دفاع مقدس کے بہادر سپوتوں کی سنہری داستانوں کو نقل کرنے کی ذمہ داری لئے ہوئے ھے تا کہ ہم عبرت حاصل کریں۔ اور اس نشیب و فراز والے راستے سے بھرپور تجربہ حاصل کریں؛ جیسا کہ رہبر معظم انقلاب نے فرمایا ہے: کئی خرمشہر ابھی درپیش ہیں۔ اور اس کٹھن راستے کو طے کرنے کے لئے ہمارے محب وطن جوانوں نے کمر ہمت باندھنی ہے اور ماضی سے بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔" 


سٹیج سیکرٹری نے پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے آقاے عباسی کو دعوت دی تا کہ وہ پہلے راوی کے طور پر اپنے اہم واقعات سنائیں۔


آقاے عباسی سٹیج پہ آئے اور بولے: 33 یا 34 سال کے بعد اپنے ان ساتھیوں سے ملاقات ہوئی جن کے ساتھ جنگ اور قید میں ساتھ وقت گزرا۔ ماضی کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ جب آقاے احمد حیدری قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے تو میں لاشعوری طور پر مارچ 1988 میں کھویا ہوا تھا۔ ہم بیت المقدس نامی آپریشن میں، جو مریوان میں شاخ شمیران کی پہاڑیوں میں تھا، گرفتار ہوگئے۔ قید کے دوسرے یا تیسرے دن جب میں نے انہیں سلیمانیه میں دیکھا اور ان سے گفتگو کی تو پتہ چلا کہ یہ تو میرے ہمشہری ہیں اور بروجرد کے رہنے والے ہیں۔ وہیں سے ہماری قید کا آغاز ہوا۔ چھاؤنی لے جانے سے پہلے ہمیں کچھ عرصہ کے لئے سلیمانیه میں رکھا گیا اور پھر الرشید چھاؤنی بغداد بھیج دیا گیا اور انفرادی جیل میں ہم دونوں کو اکٹھا رکھا گیا۔ ہمیں جب وہاں گھبراہٹ کا احساس ہوتا تو حیدری صاحب قرآن پاک کی تلاوت شروع کر دیتے جس کی آواز جیل کے باقی کمروں تک بھی گونجتی تھی۔ خوبصورت بات یہ تھی کہ ان کی تلاوت اور آواز میں چاشنی اس قدر تھی کہ اس چھاؤنی کے عراقی گارڈ اور نگہبان آتے اور جیل کی دیواروں کے پیچھے کھڑے ہو کر چپکے سے تلاوت سنتے تھے، اس قدر سریلی آواز تھی ان کی۔ اس وقت قید نئی نئی شروع ہوئی تھی اور پتہ بھی نہیں تھا کہ کب رہا ہوں گے تو ایسے حالات میں اس تلاوت کی برکت سے ہماری بے چینی ایک سرور اور سکون میں بدل جاتی تھی اور یوں سختی کا وہ زمانہ گزارنا بہت آسان ہوجاتا تھا۔ اس زمانے میں تمام عزیزوں نے اس قید و بند کی تمام تر صعوبتیں برداشت کیں، ہمیں مارا پیٹا جاتا تھا، اہانت کی جاتی تھی، بھوکا پیاسا رکھا جاتا تھا۔


آج جب ہم روزہ افطار کر رہے تھے تو مجھے قید کے زمانے کی افطاری یاد آگئی، میں نے اپنے آپ سے کہا: اس افطاری میں اور اس افطاری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہمیں قید کر کے شروع میں چھاؤنی نمبر گیارہ تکریت لے گئے، مجھے آج بھی یاد ہے کہ جو کھانا ہمیں وہاں دیا جاتا تھا اسی سے ہم سحری بھی کرتے اور اسی سے کچھ بچا کر ہمیں افطاری کے لئے بھی کچھ رکھنا ہوتا تھا۔ اس افطاری کے بارے میں ان اسیروں کے گھر والے آج بھی ضرور جانتے ہوں گے۔


ایک اور مشکل جس کا ہمیں وہاں سامنا رہتا تھا وہ یہ تھی کہ جیل کا اصلی دروازہ بند ہونے سے پہلے ہمیں بالٹیوں کے ذریعے پانی اندر لانا پڑتا تھا۔ اور پھر وہ ہماری گنتی کر کے اگلی صبح تک دروازہ بند کر دیتے تھے۔ اور کبھی کبھی تو قیدیوں کو تکلیف دینے کے لیے بلکہ ان کے اپنے کہنے کے مطابق قیدیوں کے ایمان کا امتحان لینے کے لیے چھاؤنی کا پانی کم کر دیتے تھے۔ اور پھر ہر جیل کی  چاردیواری میں ایک سو چالیس افراد تھے جن میں بسیجی، فوجی، سپاہی، جوان اور  بوڑھے شامل تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے ایک دن پانی کم تھا۔ پانی لانے والے جوان ایک دو بالٹیوں سے زیادہ نہیں لا پائے تھے۔ تکریت میں اپریل کے مہینے میں شدید گرمی پڑتی ہے۔ اس دن جو پانی لایا گیا وہ گرمی کے باعث رات کے آغاز میں ہی ختم ہوگیا تھا۔ دس گیارہ بجے کے قریب کئی افراد کا گرمی کی شدت سے حال برا تھا۔ بجلی تھی نہیں، اور پنکھے جو تھے وہ خراب تھے۔ سب کے سب پسینے میں شرابور تھے۔ جو عمر میں کم تھے ان کی حالت کچھ زیادہ ہی خراب تھی۔ بڑی عمر والے قدرے بہتر تھے۔ وہاں ایک گارڈ تھا جو باقیوں کی نسبت کچھ رحم دل تھا، اگر غلطی نہ کروں تو اس کا نام سید احمد تھا جو نجفی شیعہ تھا، جب اس نے کھڑکی سے قیدیوں کی یہ حالت دیکھی تو اشارے سے دو بالٹیاں مانگیں۔ بالٹیاں چونکہ پلاسٹک کی اور لچکدار تھیں اس لئے کھڑکی سے گزارنا آسان تھا۔ ہم نے دو بالٹیاں اسے دیں، وہ آدھی پونی بھر کر لے آیا۔ اب آپ سوچیں کہ دو آدھی پونی بالٹیوں میں کتنا پانی ہوگا جو  ایک سو چالیس افراد میں بانٹا جائے اور ان کی پیاس بھی بجھ جائے۔ بس ہر ایک کے حصے میں مشکل سے آدھا آدھا گلاس پانی آیا۔ ہم نے سید احمد سے پوچھا: "چھاؤنی میں تو پانی نہیں تھا، تم کہاں سے لے آئے؟"۔ کہنے لگا: " سچ پوچھو تو ان قیدیوں کی حالت مجھ سے دیکھی نہ گئی۔ یہ پانی میں دفتر کے واٹر کولر سے نکال کر لایا ہوں"۔ آپ یقین کریں وہ آدھا گلاس پانی ہمارے لیے اس قدر با برکت تھا کہ اس نے ہمیں اس گرمی میں نجات دی اور پانی پینے کے بعد سب کی حالت بہتر ہوگئی۔


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 1929



http://oral-history.ir/?page=post&id=10838