مجھے ہاتھوں پر اٹھا لیا گیا

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2022-10-21


عید نوروز اور نیا سال شروع ہورہا تھا۔ مراجع عظام نے اپنی میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ حکومت نے جو مذہب کے خلاف اقدامات شروع کئے ہوئے ہیں اس کے خلاف اس سال عید کی تقریبات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اسی فیصلے کے پیش نظر عید کی تقریبات کے بائیکاٹ کا بیانیہ جاری کیا گیا۔ پورے ملک میں عید کی تقریبات کے منعقد نہ کرنے کا اعلان کیا گیا اور یہ بات حکومت کے لئے بہت مہنگی پڑ گئی۔ دوسری طرف اُس سال عید نوروز ۲۴ شوال کے دن پڑ رہی تھی اور ۲۵ شوال عید کا دوسرا دن تھا۔

میں پہلی فروردین(ایرانی کلینڈر کے پہلے مہینے کا پہلا دن) ظہر کے وقت قم کے علاقے گذر خان سے بازار کی طرف پیدل چل رہا تھا۔ جب میں شہری حکومت کی عمارت کے پاس پہنچا، تو دیکھا کہ ساؤنڈ سسٹم اور اسپیکر نصب کئے جاچکے ہیں جن کی آواز قم شہر کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کررہی ہے۔ میں نے جب یہ دیکھا کہ شاہی حکومت کے کارندے اس طرح علمائے کرام کے خلاف بکواس کررہے ہیں تو مجھے بہت غصہ آیا۔ میں گھر پہنچا، کھانا کھایا اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد امام خمینی رح کے گھر کی جانب نکل گیا۔ ابھی میں یخچال قاضی کے علاقے میں پہنچا ہی تھا کہ دیکھا لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہے جن کے درمیان سے ہو کر گذرنا محال تھا۔ تھوڑا اور آگے بڑھا تو دیکھا کہ امام کے گھر کی اندرونی اور بیرونی عوام سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے۔

جیسے ہی گھر کے دروازے پر پہنچا، لوگوں کی آواز سنی جو نعرے لگا رہے تھے: آل طہ آگئے آل طہ آگئے!

ایسا لگ رہا تھا جیسے سب لوگ ہی کسی کے منتظر تھے۔ گویا منتظر تھے کہ کوئی آئے گا جو ان سے گفتگو کرے گا۔ البتہ صوبائی اور غیر ملکی انجمنوں کے سلسلے میں امام خمینی رح کی مجھ پر خاص عنایات تھیں اور امام خمینی رح سے میرے نزدیکی تعلقات قابل توجہ تھے، اسی لئے اس دن میں جیسے ہی پہنچا امام خمینی رح نے مجھے حکم دیا: آل طہ صاحب جائیں جا کر لوگوں سے تھوڑی گفتگو کریں۔

لوگوں نے مجھے سیڑھیاں چڑھنے بھی نہیں دیں اور مجھے ہاتھوں پر اٹھا کر اوپر لے گئے۔ امام خمینی رح کے گھر میں ایک عجیب سا سماں تھا۔

میں نے وہاں کھڑے ہو کر تھوڑی دیر گفتگو کی اور پھر عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: حاضرین کرام یہ مت سوچیں کہ روحانیت نے بھونڈے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر آپ کو عید کی تقریبات منعقد نہ کرنے اور عید کی تقریبات کی جانب توجہ نہ کرنے کا کہا ہے تو یہ بھونڈا پن نہیں ہے، بعض اوقات صورتحال اس طرح کے فیصلوں کا تقاضہ کرتی ہے۔ آپ دیکھیں جب امام سجاد علیہ السلام شام کے داخلی دروازے پر پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ وہ کوفی جنہوں نے پیغمبر کے بیٹے کو قتل کیا اب ناچ گانے میں مشغول ہیں تو ان کو مخاطب کرکے فرمایا: فیا لیت أمّی لم تلدنی۔۔۔۔۔۔اے کاش میری ماں نے مجھے پیدا نہ کیا ہوتا۔

پھر میں نے کہا: جب امام صادق علیہ السلام کی شہادت کی شب، امام سادق علیہ السلام کے گھر یعنی قم المقدسہ میں شہری حکومت کی عمارتوں سے ساز و طرب کی آوازیں آرہی ہوں، تو مراجع عظام نے ہمیں یہ کہا کہ اس سال ہم عید نہیں منائیں گے، یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومت رقص و سرور کی دلدادہ ہے۔

میری گفتگو ختم ہونے کے بعد کچھ لوگ شہری حکومت کے آفس کی جانب بڑھے جہاں سیکیورٹی اہلکاروں سے ان کی جھڑپیں ہوئیں اور شاید کوئی مارا بھی گیا۔ اس کے اگلے دن ہی مدرسہ فیضیہ کا واقعہ رونما ہوا تھا۔

 

 

منبع: آل طه: سرگذشت و خاطرات، تدوین غلامرضا شریعتی‌مهر «کرباسچی»، تهران، چاپ و نشر عروج، 1397، ص 44 - 46.

 


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 1816



http://oral-history.ir/?page=post&id=10823