ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، اکیسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2022-07-03


فصل چہارم

ایران واپسی

 

ہم ایران واپس آ گئےجو رقم ہمارے پاس تھی اس میں گھر کا انتظام نہ ہو سکا مجبوراً  ایک بار پھر علی کی والدہ کے گھر میں قیام پذیر ہو گئے۔ انہوں نے اپنے گھر میں مزید کمرے تو بنا لئے تھے لیکن اب ہماری تعداد بھی زیادہ ہو چکی تھی جس کی وجہ سے ہم ان کے لئے زحمت بن گئے تھے۔ علی کی بہن نچلی منزل میں رہ رہی تھیں اور ان کے بھی تین بچے ہمارے بچوں کے ہم عمر تھے ۔ بالائی منزل پر دو کمرے ہمارے اور علی کے امی ابو کے درمیان تقسیم ہو گئے۔ صبح ہوتے ہی بچے ۶،۶ شریر بچے ادھم چوکڑی مچانا شروع کردیتے۔  چیخ و پکار سے گھر سر پر اٹھا لیتے۔ دوپہر سے پہلے ہی  گھر کی کوئی چیز اپنی جگہ پر نہ ہوتی، قالین پر بچھی چادریں گٹھل بن جاتیں، گاو تکیے کمرے کے درمیان میں پڑے ہوتے اور ان پر پڑے سفید کشن کمروں کے کونوں کی زینت ہوتے۔ بچے سارا دن کمروں میں ناچتے پھرتے ۔ بیٹھ کر وہ صرف ایک ہی کھیل کھیلتے تھے اور وہ تھا دھوپ سے جھلسے ہوئے چہرے لے کر پنکھے کے سامنے بیٹھ جانا اور پنکھے سے ٹکرا کر نکلنے والی اپنی بھرائی ہوئی آواز سننا۔علی کی والدہ بہت ہمت والی خاتون تھیں وہ مسکراتی ہوئی بچوں پر نثار ہوتی تھیں اور کمر کسے کمروں کی صفائی کرتی رہتیں مگر لاحاصل کیونکہ کچھ دیر بعد بچے دوڑ بھاگ کر گھر کی حالت پھر بگاڑ دیتے تھے۔

ماہ اسفند[1] کی بے رمق دھوپ  کھڑکی سے قالین پر بنے پھولوں پر پڑ رہی تھی ۔ کمرہ بھینی بھینی خوشبو سے معطر تھا علی کھڑکی میں کھڑا اس کا شیشہ صاف کر رہا تھا بچوں نے اس کے پائنچوں کو اپنی مٹھیوں میں بوچ رکھا تھا کہ بابا گر نہ جائیں۔ وہ پورے قد کے ساتھ کھڑکی میں کھڑا تھا اور اچک اچک کر اوپر کا شیشہ صاف کررہا تھا اچانک اس کا جسم پیچھے کی جانب جھکا اور بچوں کی چیخ نکل گئی۔ اس نے اپنا سر کمرے کے اندر کیا اور کہا:

ڈر گئے؟ بے فکر رہو بابا گرنے والے نہیں۔

بچے سمجھ گئے کہ علی مذاق کر رہا ہے تو انہوں نے بھی بدلا لینے کو اس کے پائنچوں کو چھوڑ دیا اور ہنسنے لگے۔ علی کو افریقہ جانا تھا اس لئے عید کی تیاریوں کے لئے  گھر کی صفائیاں جانے سے ایک ماہ قبل ہی شروع کر دیں تھیں۔  وہ ابھی گیا نہیں تھا مگر دل بھرا آنے لگا تھا۔ نائجیریا، گانا، اور ساحل عاج میں دینی مدارس قائم ہوئے تھے اور یہ طے پایا تھا کہ یہ مدارس ادارہ تبلیغات کے زیر نگرانی ہونگے۔ علی کو اس کام کا مالی تخمینہ لگانے اور ضروری منصوبہ بندیوں کا کام سونپا گیا گیا تھا۔ ادارہ کل آموزش اسلامی[2] گانا میں پہلے سے موجود تھا اور اپنی ثقافتی سرگرمیوں کے سبب انقلاب اسلامی ایران کی راہوں کو وہاں ہموار کر چکا تھا جس کی وجہ سے گانا مغربی ایشیا میں ایک تبلیغی مرکز کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ علی کے کاموں کی تفصیلات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے میرا یہ گمان تھا کہ ہماری اگلی منزل افریقہ ہوگی مگر کتاب تقدیر میں کچھ اور ہی درج تھا۔ علی کوئی ایک ماہ افریقہ میں رہا اور ایک ماہ کے بعد عید کے دن واپس گھر آیا۔ اتفاقاً فہیمہ کا جشنِ تکلیف[3] بھی عید کے دن ہی تھا اس لئے دونوں مناسبتوں کے اعتبار سے میں نے ہفت سین کا انتظام کیا تھا۔

فہیمہ کے لئے تحفہ میں نے علی کے افریقہ جانے سے پہلے ہی خرید لیا تھا میں اس کو گلو بند دینا چاہتی تھی تاکہ وہ یادگار کے طور پر اس کو سنبھال کر رکھے ۔ جب میں نے یہ دیکھا کہ علی کو اس کام کے لئے اپنے والد سے پیسے ادھار لینے پڑیں گے تو میں نے اس کو اپنا سونے کا کڑا دکھایا جو گھر کا سامان جابجا کرنے کے دوران ٹوٹ گیا تھا اور میں اب اس کو پہن نہ سکتی تھی، مجھے یہ بات کسی قیمت پر منظور نہ تھی کہ جب تک میرے پاس چند ٹکڑے ہی سہی سونے کی کوئی چیز بھی موجود ہے ہم کسی سے بھی قرض لیں مگر شروع میں میری بات نہ مانتا تھا اور کہتا تھا مجھے تمہیں سونے کے زیورات دینے چاہئیں نہ کہ تمہارے زیور بھی بیچ دوں مگر میں نے بھی اس قدر اصرار کیا کہ وہ راضی ہو ہی گیا۔

 


[1] فروری مارچ

[2] اسلامی تعلیماتی مرکز

[3] ایرانی شیعہ مسلمان بچے کے بالغ ہونے پر تقریب کا ہتمام کرتے ہیں اور اس پر خدا کے احکامات واجب ہوجانے کے دن جشن مناتے ہیں اور اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں



 
صارفین کی تعداد: 1885



http://oral-history.ir/?page=post&id=10630