امام خمینی رح کے نام پر پہلی بار صلوات

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2022-06-23


امام خمینی رح کے نام پر صلوات کا سلسلہ سن ۱۳۴۲ میں بیرجند شہر کی ایک عمومی محفل میں ہوا جو ایک اہم تاریخی واقعہ شمار ہوتا ہے۔ کم از کم میں جو مختلف جگہوں پر مجالس پڑھا کرتا تھا، مجھے ایسا کوئی واقعہ سننے کو نہیں ملا۔ ہوا کچھ اس طرح کہ مجھے خبر ملی ایک طالب علم نے امام خمینی رح کی توہین کی ہے اور انکی مرجعیت پر سوال اٹھایا ہے؟ میں یہ خبر سن کر بہت زیادہ رنجیدہ ہوگیا اور اس بات کا انتظار کرنے لگا کہ موقع پا کر مناسب وقت پر ایسی فضول بات کرنے والے کا جواب دوں گا۔ کچھ عرصے کے بعد ایک مناسبت پر مجھے مسجد آیت اللہ آیتی میں مجلس پڑھنے کے لئے بلایا گیا۔ میں نے مرجعیت کے دفاع کے لئے مصمم ارادہ کیا اور جب میں منبر پر جا کر بیٹھا تو اپنے آپ کو اس اہم کام کے لئے تیار کیا۔ خاص طور پر جب میں نے دیکھا کہ مسجد لوگوں سے بھر گئی ہے اور بعض اہم شخصیات من جملہ آیت اللہ شیخ محمد حسین ضیاء آبادی صدر نشین ہیں مجھے بہت زیادہ سکون اور اطمئنان قلب حاصل ہوا۔ سادہ الفاظ میں کہوں تو میری اندر بہت زیادہ جرات پیدا ہوگئی تھی۔ چونکہ بلند مرتبہ شخصیات کی موجودگی کی وجہ سے اس مجلس کا وقار ویسے ی بڑھ گیا تھا اور منبر پر بیٹھنے والے کے اعتماد نفس اور شہامت میں اضافہ ہوگیا تھا کہ وہ سیاسی اور سماجی مسائل کی جانب اشارہ کرسکے۔

صورتحال ہر طرح سے بہترین تھی۔ لہذا میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اس فرد کو مخاطب کرتے ہوئے جس نے امام خمینی رح کی توہین کی تھی کہا: " تم ہوتے کون ہو جو اس طرح کی فضول بات کرو؟ جو کوئی بھی ہو یہ اچھی طرح جان لو کہ تمہاری اوقات نہیں ہے کسی بھی مرجع تقلید کے لئے اظہار نظر کرو چہ برسد ان کی توہین کرو۔ تمہاری تو اتنی اوقات بھی نہیں ہے کہ جانوروں کو تمہارے ہاتھ سے چارہ کھلایا جائے۔" پھر میں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے مراجع تقلید کے نام لینا شروع کئے اور پھر بہت مصمم اور جوشیلے انداز سے کہا: "ان مراجع عظام میں آیت اللہ العظمی خمینی شامل ہیں" اچانک حاضرین مجلس نے نہایت بلند آواز سے صلوات پڑھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مسجد کے ستون ہل رہے ہیں۔ میں نے اس سے پہلے ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی تھی یہ اپنے آپ میں ایک حیرت انگیز اور منحصر بہ فرد واقعہ تھا۔ ظاہرا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ پہلی مرتبہ مغیر کسی منصوبہ بندی کے امام خمینی رح کے نام پر ایسا رد عمل دیکھنے کو ملے گا۔

اگلے دن آقائے صالحی کے اصرار پر میں اپنے گھر سے باہر نکلا۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے میرا پیچھا کرنا شروع کیا اور بالآخر مجھے تھانے بلایا گیا۔ میں بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تھانے پہنچ گیا۔ تھانہ خیابان مطہری پر اور ہمارے گھر کے نزدیک ہی تھا۔ اس وقت اطلاعات کا انچارج سبحانی نام کا ایک افسر تھا جو ساواک کا ایجنٹ تھا اور یہاں سے مسلسل رپورٹیں بنا کر مرکز کو ارسال کیا کرتا تھا۔ میرے تصور کے برخلاف وہ بجائے اسکے کہ مجھ سے سخت برتاؤ کرتا بہت آرام سے مجھ سے پوچھنے لگا: "جناب دیانی ہم بھی مسلمان ہیں لیکن اس جگہ ہم مجبور ہیں، میں آپ کو نصیحت کروں گا کہ دوبارہ یہ بات کریں۔" وہ مجھے ڈرا رہا تھا لیکن میں نے اس کی بات کی پرواہ کئے بغیر اگلے دن مسجد خواجہ ھا میں تقریر کرنے پہنچ گیا۔

 

 

منبع: اسداللهی گازار، احمد،‌ مریم سبحانیان، شیخ اسماعیل، تهران، سوره مهر، 1400، ص 159 - 160.

 


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 1325



http://oral-history.ir/?page=post&id=10610