محترمہ اشرف السادات سیستانی کی کچھ یادیں

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ

تلخیص و ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2022-06-18


ایک کونے میں بیٹھی ہوئی نماز جمعہ کا خطبہ سن رہی تھی کہ ایک جرمن رپورٹر ایک ایرانی مترجم طالبعلم کے ہمراہ میرے سامنے آگئی۔ اس رپورٹر نے مجھ سے سوال کیا: "کیا آپ شہید کی والدہ ہیں؟"

          ۔ جی ہاں

          ۔ شہید کی کوئی تصیر آپ کے پاس ہے؟

          ۔ اس کا ایک پوسٹر میرے پاس ہے۔

جب میں نے وہ پوسٹر اسے دکھایا تو اس نے مجھ سے اجازت لئے بغیر اس کی تصویر لینی شروع کردی۔ مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن میں نے اسے کچھ نہیں کہا۔

پوچھنے لگی: " اپنے بیٹے کی شہادت پر آپ کو کوئی افسوس نہیں ہے؟"

          ۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ جو کام انجام پایا ہے اس عظیم کام میں میرا بھی حصہ شامل ہے؛ چونکہ بڑے کاموں کے لئے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ہم اپنے دین، عزت اور شرف کو لوٹ مار کرنے والوں کے ہاتھوں سے نجات دلوانا چاہتے ہیں اور یہ بغیر قربانی دیئے انجام نہیں پاسکتا۔

          ۔ آپ کے اور بھی بچے ہیں؟

          ۔ چھ بچے ہیں، میں بھی انکے ساتھ قربانی دینے کے لئے تیار ہوں۔

          ۔ کوئی اور بچہ بھی ہے جو اس وقت محاذ جنگ پر ہو؟

          ۔ جی ہاں میرا بیٹا ہے۔ وہ اسٹوڈنٹ بھی ہے اور پاسدار بھی۔ شریف یونیورسٹی میں الیکٹریکل انجینئرنگ پڑھ رہا ہے۔ بعض اوقات محاذ جنگ پر ہے بعض اوقات یونیورسٹی میں۔

          ۔ اگر وہ بھی شہید ہوگیا تو؟

          ۔ میں اس سوال کا جواب دے چکی ہوں۔

میں نے مترجم سے کہا:

          ۔ میرے بھائی آسٹریا میں رہتے ہیں۔ وہیں مقیم ہیں اور گھر بار بھی وہیں ہے۔ پچھلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں ایران آئے تھے۔ ان کا طرز تفکر مجھ سے بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا: " میں دعوت نامہ بھیجوں گا تم اپنے بچوں کو ایک ایک کرکے میرے پاس بھیجو اور مجھ سے ڈاکٹرز اور انجینئرز واپس لے لو۔"

میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا: " میں اپنے سینے پر لگے "مہدی عج" کے اس بیج کو کسی صورت تبدیل نہیں کروں گی۔ یہاں پر بھی تعلیم حاصؒ کی جاسکتی ہے، لیکن آپ کود ہی بچوں سے بات کرلیں اگر وہ جانے پر تیار ہوئے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔"

افسانہ نے کہا: "ماموں جان، ہم یہاں پیدا ہوئے ہیں، یہیں پلے بڑھے ہیں، یہیں تعلیم حاصل کی ہے اور یہیں پر ہی جان دیں گی۔"

جب میری گفتگو ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ مترجم روتے ہوئے میری باتوں کا ترجمہ کررہی ہے۔

کافی عرصے بعد، ایک انٹرنیشنل میگیزن کی جلد پر میری تصویر شائع کی گئی اور وہ میگیزن آسٹریا میں میرے بھائی کے بیٹے ۔بابک۔ کو کہیں سے مل گیا۔

 

مساوات (سیستانی)، اشرف‌السادات، کنار رود خیّن، یادداشت‌های روزانه یک مادر، تهران، انتشارات حوزه هنری، چ، 1373، ص 96.

 


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 1377



http://oral-history.ir/?page=post&id=10596