خرم شہر کی آزادی کی خبروں کی کوریج میں آبادان ریڈیو اور رپورٹرز کا کردار


انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ

تلخیص و ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2022-06-05


آبادان ریڈیو میں کم و بیش سرگرمیاں جاری تھیں۔ شہر کے حالات بھی کچھ اس طرح کے تھے کہ ہمیں روزانہ عراقیوں کی جانب سے اپنے حصے کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور دیگر مشکلات بھی سر پر دھری ہوئی تھیں۔ لیکن ہم کشادہ دلی سے اپنی سرگرمیاں انجام دے رہے تھے۔ ریڈیو میں بھی ہمارے ایک دو ساتھیوں نے شادی کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔

مارچ ۱۹۸۲ میں فتح المبین آپریشن کے دوران میں غلام رضا رہبر اور دو تین ساتھیوں کے ساتھ اہواز کے مرکز میں کام کررہا تھا اور اس دوران طریق القدس اور بستان کی آزادی جیسے آپریشنز کا تجربہ بھی مجھے حاصل ہوا تھا جس کی وجہ سے آبادان اور اہواز کے مراکز سے تعاون کا زمینہ ہموار ہوچکا تھا۔

درحقیقت فتح المبین آپریشن نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ حاصل کریں، بیت المقدس آپریشن اور خرم شہر کی آزادی کے آپریشن کے دوران لرستان اور بوشہر سمیت دیگر ریڈیو اسٹیشنز بھی ہم سے ہماہنگ ہوچکے تھے اور اس مقدس دفاع کی تبلیغ میں انہیں خاطر خواہ کامیابی ھاصل ہوئی تھی۔

اگلے آپریشن سے پہلے میں کچھ دنوں کی چھٹی لے کر گھر چلا گیا اور اور میری اجازت اور حوصلہ افزائی کے نتیجے میں طے پایا کہ میری اہلیہ اپنی کچھ سرگرم دوستوں کے ہمراہ سپاہ کے رضاکاروں کے عنوان سے مجاہدین کی دیکھ بھال اور اگلے آپریشن کی تیاری میں مدد کرنے کے لئے اہواز آ۴یں گی اور یہ بھی طے پایا کہ اہواز کے تختی اسٹیڈیم میں پہنچنے کے بعد ٹیلیفون پر مجھے تفصیلات سے آگاہ کریں گی۔

بیت المقدس آپریشن پوری ملت ایران اور ریڈیو میں کام کرنے والے تمام ساتھیوں کے لئے بہت اہم اور عزت کا مسئلہ تھا اور ہمارے گذشتہ دو سال کے تجربات اسوقت ہمارے کام آرہے تھے۔ خرمشہر کے بعض ایسے علاقے جہاں آپریشن جاری تھا وہ ہم سے بہت زیادہ نزدیک تھے اور بعض علاقے جو اہواز سے نزدیک تھے اہواز اسٹیشن انکی کوریج کررہا تھا اور اس سلسلے میں انکے ہاتھ بہت کھلے ہوے تھے۔ اسی لئے ہمیں مختلف میدانوں میں ہماہنگ ہونے کی ضرورت تھی تاکہ ہمارے کارکنان صحیح اور موقع پر اپنا کام انجام دیں۔ اہواز اسٹیشن میں کارکنوں کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں یہ طے پایا کہ اپنی سرگرمیوں کا مرکز اہواز اسٹیشن کو بنایا جائے اور ہم آبادان میں اہواز ریڈیو کو تقویت پہنچانے کے سلسلے میں سرگرمیاں انجام دیں۔

آپریشن کے دوران یعنی ۰ اپریل ۱۹۸۲ سے ۲۵ مئی ۱۹۸۲ تک ہماری اسپیشل ٹرانسمیشن اٹھارہ سے انیس گھنٹے نشر ہورہی تھی جس کی وجہ سے ہمارے کارکنوں پر بہت زیادہ دباؤ تھا۔ پچیس دن مسلسل اور وہ بھی ہر روز ۱۹ گھنٹے کا پروگرام تیار کرنا اور اسے نشر کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ حتی اہواز کی لائبریریوں کی چھٹی کر کے اس کے ملازمیں کو رپورٹنگ، انٹرویو اور یادداشتیں جمع کرنے پر مامور کردیا گیا تھا اور الحمدللہ سب نے ہی بہت اچھی طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کی تھیں۔

دوسرے شہروں سے بھی ریڈیو اور ٹی وی کے رپورٹرز یہاں آئے ہوئے تھے تاکہ بیت المقدس آپریشن اور کرم شہر کی آزادی کے لئے کئے جانے والے آپریشن کی کوریج کرسکیں۔ مجھے یاد ہے چونکہ یہ ایک قومی سطح کا کام تھا، ان چند ہفتوں کے دوران رپورٹرز اور ریڈیو ٹی وی کے دیگر کارکنان مجاہدین کے شانہ بشانہ چلتے تھے اور کسی بھی قسم کی پیشرفت کی صورت میں فورا اس علاقے میں داخل ہوتے اور رپورٹ تیار کرکے ریڈیو اسٹیشن لاتے تاکہ اسکی اصلاح اور ایڈیٹنگ کے بعد اسے نشر کیا جاسکے۔

ان رپورٹرز کو علاقے کی صورتحال اور فورسز کے مراکز اور قیام کی جگہوں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرتے انہیں خالی کیسیٹیں دیتے، ٹیپ ریکارڈرز انکے حوالے کرتے اور اگر انکے ریکارڈرز میں کوئی فنی مشکل پیدا ہوجاتی تو اسے برطرف کرتے اور کسی بھی کسی کے کام میں کوتاہی نہیں کرتے تھےچونکہ خرم شہر اسی ملک کا ایک خطہ تھا جس کا تعلق پورے ایران سے تھا اور یہ ہر صوبے کا حق تھا کہ وہ اس کی آزادی کی لمحہ بہ لمحہ خبروں سے آگاہ رہتے۔

ریڈیو اسٹیشن اور گیریزن کے افسروں کے درمیان ھماھنگی کی وجہ سے ہر آپریشن سے پہلے ہم اسکے بارے میں سیکیورٹی کے مسائل سے آگاہ ہوجاتے تھے اور گیریزن کے اس سلسلے میں ہونے والے جلسے بہت موثر قرار پائے۔ اس لئے کسی بھی آپریشن میں ہمیں پہلے سے معلوم ہوتا تھا ہمیں کس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوجاتا تھا کہ ہم کس مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اور اسکے بعد اب کیا کرنے والے ہیں یا یہ کہ کس وقت ہمیں عام انداز سے پروگرام بنا کر چلانا ہے اور کب ہمیں اپنا انداز تبدیل کرنا ہے اور دو آپریشنز کے درمیان ہمیں کیا سیاست اپنانی چاہئیے۔

میری اہلیہ جیسا کہ میں نے ذکر کیا سپاہ سے ہماہنگ ہوکر اہواز آچکی تھیں اور یہاں انکی ذمہ داری تختی اسٹیڈیم میں بنائے گئے عارضی اسپتال میں صوتی دھماکوں کے متاثرین کی دیکھ بھال کرنا تھا جو خود ایک طاقت فرسا کام تھا کیونکہ صوتی دھماکوں کے متاثرین اپنے اعصاب پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے۔ میں بیت المقدس آپریشن کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے فاصلے میں تختی اسٹیڈیم گیا تو دیکھا کہ میری اہلیہ اپنی ایک ساتھی کے شوہر کی شہادت پر بہت زیادہ رنجیدہ ہیں، میں نے انہیں تسلی دی اور خداحاٖط کرکے واپس آگیا۔

غلام رضا رہبر ہمارے مجاہدین کے خرم شہر میں داخل ہونے دوران بم کے ٹکڑے لگنے سے زخمی ہوگئے تھے اور انہیں بھی تختی اسٹیڈئیم میں لے جایا گیا تھا میں نے انہیں وہاں بھی ریکارڈر پہنچا دیا تھا تاکہ وہ ہمارے لئے اسپیشل رپورٹیں بنا کر بھیجتے رہیں وہ یہ آرزو کررہے تھے کہ ایک رپورٹر اور صاحفی کے عنوان سے وہ خرم شہر کی آزادی تک اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔

چونکہ رہبر صاحب زخمی ہونے کہ وجہ سے اپنا کام جاری نہیں رکھ پائے تو ہم نے جناب غلام رضا کوچک کو جو اہواز ریڈیو کے ملازم تھے یہ کام سونپ دیا۔ اسی طرح مجتبی عالمشاہ ہمارے وہ بہادر ساتھی تھے جنہوں نے آپریشن کی نہایت بہترین ویڈیوز ریکارڈ کی تھیں۔

ان میں سے ایک ویڈیو میں ایک عراقی ہیلی کاپٹر جو خرم شہر کے ریلوے اسٹیشن سے عراقی اعلی فوجی افسروں کو نکال کر لے جانا چاہ رہا تھا نشانہ بنا اور خوب بخود گھومتا ہوا زمین پر گر گیا۔ یہ ویڈیو ایک لمبے عرصے تک ملک بھر کے ٹی وی چینلز پر خبروں کا ٹیزر بنا کر چلائی جاتی رہی۔ اسی ویڈیو کے ایک اور سین میں دشمن کے بے تحاشہ فوجی بوٹ اور ہیلمٹ دکھائی دے رہے تھے جو زمین پر گرے ہوئے تھے اور عراقی جنگی قیدیوں نے امام خمینی رح کی تصویریں ہاتھوں میں اٹھا رکھی تھیں اور مسلسل کہے جارہے تھے:

دخیلک یا خمینی دخیلک یا خمینی

یہ معلوم نہیں تھا کہ ایسے حالات میں انہیں یہ تصویریں کہاں سے ملی تھیں اور کس نے انہیں یہ تصویریں دی تھیں۔

خرم شہر ۲۴ مئی ۱۹۸۲ کو مکمل طور پر آزاد ہوگیا۔ صبح کے تقریبا گیارہ بجے کا وقت تھا جب جعفر طالبی نے وائرلیس پر آکر اعلان کیا: "خرم شہر آزاد ہوگیا"۔

میں اس لمحے کتنا خوش تھا اور میرے احساسات کیا تھے میں انہیں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں اور ریڈیو اہواز میں میرے دوسرے ساتھی پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ تہران اسٹیشن میں ہمارے ساتھیوں کو بھی اس خبر کا علم ہوچکا ہے لیکن مجاہدین کی جانب سے خرم شہر میں مکمل تسلط کے بعد خرم شہر کی آزادی کو نشر کیا جانا تھا۔

ساڑھے دس بجے سے پہلے تک ہم مجاہدین کے حوصلے بڑھانے والے حماسی، رزمی اور معروف فوجی ترانے نشر کرکے تھے تاکہ کرم شہر کو فٹھ کرنے اور اسکی آزادی میں شریک مجاہدین کی ھوصلہ افزائی کرسکیں۔ لیکن جیسے ہی ہم نے خرم شہر کی آزادی کی خبر سنی ہم نے ریڈیو سے فوجی ترانے چلانے شروع کردیئے۔

ابھی یہ ترانے چل ہی رہے تھے مجھے احساس ہوا کہ میں اب خرم شہر کی آزادی کی خبر کو مزید روکے نہیں رکھ سکتا۔ جب بھی موقع ملتا کسی بھی دوسرے شہر کا کوڈ ملا کر نمبر ڈائیل کرتا اور جو بھی فون اٹھاتا اسے کہتا: میں جنگ کے محاذ سے بات کررہا ہوں کچھ دیر بعد آُ کو ایک بہترین اور بہت اچھی خبر سننے کو ملے گی۔ کسی سے یہ سوال ہی نہیں کرتا کہ اسکا تعلق کہاں سے ہے بس کوڈ ملاتا نمبر ملاتا اور یہی جملہ دہراتا رہتا۔ اسی دوران اصفہان میں موجود اپنے پھپھی زاد بھائی کا خیال آیا  بڑی مشکل سے اس کا نمبر ملایا اور اسے یہ خبر سنا دی۔ دو بجے میں دس منٹ پہلے میرے ضبط کا یارا نہ رہا اور جناب صد ہاشمی نے ریڈیو آبادن سے خرم شہر کی آزادی کی خبر کچھ اسطرح نشر کی: " خرم شہر! بیت المقدس کی خون آلود آنکھیں اس رنگین کمان کے انتظار میں ہیں جو تیرے آسمان سے خون کا رنگ لے کر گذر رہا ہے۔ اب ہم تیرے جانب آئیں گے تاکہ اس انتظار کی گھڑیاں ختم ہوسکیں۔

خرم شہر! تو شہر استقمات، شہر حماسہ، شہر شجاعت اور خون اور ایثار کا شہر ہے۔

خرم شہر! تو اب آزادی کا پیام بر ہے، تاریخ تیرے نام کو بڑے تقدس کے ساتھ لکھے گی اور آئندہ آنے والی نسلیں اسے پڑھ کر ایمان اور شجاعت کا درس لیں گی۔ خرم شہر! ہم تیری طرف آئیں گے ، قدس کی جانب ہمارے رستے کھول دے۔"

 


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 2103



http://oral-history.ir/?page=post&id=10574