استقامت کی روایت

گفت‌وگو و تنظیم: مائده شاه نظری

تلخیص و ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2022-05-13


آٹھ سالہ مقدس دفاع کے جانباز اور مجاہد جناب سرھنگ حاج محمد کریمی جنگ کے زمانے کے زخموں کو سہتے سہتے بالآخر اپنے شہید ساتھیوں سے جا ملے۔ انہیں انکے آبائی علاقے نائین میں سپرد خاک کیا گیا۔ ذیل میں ہم انکی اہلیہ سے ہونے والی گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔

طالبی صاحبہ سب سے پہلے آپ اپنے بارے میں بتائیں کہ آپ حاج محمد کریمی صاحب سے کیسے ملیں؟ اور کیا شادی کے بعد آپ نے انکی نگہداشت کے علاوہ دوسری سرگرمیاں بھی انجام دی ہیں؟

میرا نام فرح طالبی ہے میں مرحوم محمد کریمی مزرعہ شاہ کی اہلیہ ہوں۔ ہمارا ایک بیٹا ہے جس کا نام رسول کریمی ہے۔ ہماری شادی خاندان اور گھر والوں کے صلاح مشورے سے ہوئی، حاج آقا میری پھپھی کے بیٹے ہیں اس لئے ہم پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے لیکن بہت زیادہ آنا جانا نہیں تھا، کیونکہ ہم تہران میں رہتے تھے اور کبھی اس نظر سے حاج آقا کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ ایک مرتبہ جب ہم گاؤں گئے تو وہاں حاج آقا کی بہت زیادہ تعریفیں سنی ہوئی تھیں اور اچانک حاج آقا سفر سے پلٹے تو ان سے مل کر بہت خوشی محسوس ہوئی۔ میں والدہ سے اجازت لئے بغیر غیر ارادی طور پر انکے پاس گئی اور انہیں اپنے ہاتھ سے مارتے ہوئے کہا: سلام محمد مجاہد، لیکن چونکہ حاج آقا اس طرز عمل کے منتظر نہیں تھے تو انہیں بہت برا لگا۔ فورا اپنے بوٹ اتار کر کمرے کے اندر چلے گئے اور دروازہ بند کرلیا۔ ہم بھی انکی والدہ کے کمرے میں چلے گئے اور پھر وہاں سے واپس لوٹ ائے۔ میں بہت ڈری ہوئی تھی کہ  میری والدہ اب مجھ سے ناراضگی کا اظہار کریں گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اسی رات کریمی ساحب کی شادی کا موضوع چھڑا اور انکی بہن نے خاندان کی لڑکیوں کی لسٹ تیار کرکے انہیں دی جس میں سب سے آخر میں میرا نام لکھا ہوا تھا۔ لیکن حاج آقا نے میرا ہی انتکاب کیا۔ رات کے کھانے کے بعد وہ سب لوگ میرے چچا کے گھر آئے اور شادی کی بات چیت شروع ہوئی اور اسی رات تین بجے ہمارا نکاح پڑھا دیا گیا۔ اس وقت تک ھاج آقا نے مجھے صحیح سے دیکھا بھی نہیں تھا۔ میں نے نکاح کے وقت چادر سے منہ ڈھانپا ہوا تھا۔ جیسے ہی نکاح ختم ہوا حاج آقا نے میری چادر سرکاتے ہوئے کہا کم از کم دیکھوں تو سہی کیسی ہو؟ کس سے شادی کرنے جارہا ہوں؟ ۔۔۔ اگلے دن حاجی محاذ پر روانہ ہوگئے اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تہران واپس آگئی اور پھر ایک لمبے عرصے تک ملاقات نہیں ہوسکی۔ حتی میں انکا چہرہ تک بھول گئی تھی۔ اسکے بعد وہ زخمی ہو کر تہران آئے تو رشتے داروں کی مدد سے میں انہیں پہچان پائی تھی۔

جہاں تک کام کا تعلق ہے تو گذشتہ چودہ سالوں سے پولیس کے ایک ذیلی دفتر میں جو ہمارے گھر کی نچلی منزل پر ہی ہے، کام کررہی ہوں، اسی لئے دن میں چند مرتبہ حاج آقا کی دیکھ بھال کے لئے گھر کا چکر لگا لیا کرتی تھی اور ان آخری چند دنوں میں تو مسلسل انکا خیال رکھتی رہی، یعنی کام بھی کرتی رہی اور انکا خیال بھی رکھتی رہی۔ یہ دفتر دراصل حاج آقا کا ہی ہے جس میں وہ ڈائریکٹر تھے اور میں انکی اسسٹنٹ کے طور پر کام کررہے تھے۔ آخری ایام میں جب انکی طبیعت کافی خراب ہوگئی تو مجھ سے کہتے تھے کہ بس میرے پاس ہی رہو تمہارے ہاتھوں کی گرمی سے مجھے درد سے آرام ملتا ہے۔ اسی طرح انکا ہفتے میں تین مرتبہ ڈائلیسسز ہوتا تھا تو انکو لانا لے جانا بھی میں کود ہی کرتی تھی۔ انکو آکیسجن کا سلینڈر لگا ہوا تھا اسے بھی میں ہی تبدیل کرتی تھی، حتی میرے والد کا انتقال ہوا تو میں انکی تجہیز و تکفین و تدفین میں بھی شرکت نہیں کرپائی۔ اور نہ ہی انکے چہلم اور برسی میں جاسکی۔ چونکہ میں کود بھی حاج آقا کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی نہ ہی وہ اس ھالت میں تھے کہ انہیں چھوڑ کر کہیں جایا جائے۔ انکی تدفین کے بعد میں نے انکی بہن کے بیٹے سے کہا کہ مجھے بہت شدید نیند آرہی ہے اور میں وہیں بے ہوش ہوگئی۔ جب ہوش آیا تو ایمرجنسی وارڈ میں داخل تھی۔

انہی آخری تین مہینوں میں جب انکے پیروں کے پٹھے اکڑ گئے تھے تو ہم نے انکے لئے ایک برقی بستر لیا تاکہ انہیں بسترپر لیٹے لیٹے زخم نہ ہوجائیں۔ وہ اتنا بے قرار رہے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ عیش و آرام کی چیز ہے مجبور ہوکر میں نے اسے بستر سے ہٹا دیا۔ جب بہت زیادہ درد بڑھا تو مجھے کہا اسے دوبارہ بچھا دو لیکن اس بات کی اجازت نہیں دی کہ اسے مسلسل روشن رکھا جائے۔ جب وہ سو جاتے تو میں انہیں بتائے بغیر چند منٹ کے لئے روشن کردیتی۔

انکی دوائیں اتنی زیادہ تھیں کہ جو بھی ملنے کے لئے حیرت زدہ رہ جاتا اور پوچھتا کہ یہ دوائیں ٹھیک طرح سے کیسے استعمال کرتے ہیں اتنی زیادہ ہیں تو کہتے اہلیہ کی اس طرف توجہ ہے وہ سنبھال لیتی ہیں۔

وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد میری دوائیں اور ڈائلیسز کا سارا سامان ایسے مریضون کو دے دیا جائے جو دوائیں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اسی طرح وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد شہید فاؤنڈیشن سے امکانات مت لینا۔ خود بھی شہید فاؤنڈیشن کے پاس جانے سے کتراتے تھے ۔

 

اپنے گھر میں موجود امام بارگاہ کے بارے میں کچھ بتائیں؟

یہ امام بارگاہ اور گیلری حاج آقا نے اپنے پیسوں سے بنوائی تھی۔ اس میں لگائے جانے والے کھجور کے درخت ایران کے جنوبی علاقوں سے منگعا کر لگوائے گئے ہیں۔ سردار حاج قاسم سلیمانی اپنی شہادت سے تقریبا ایک سال پہلے اسی جگہ یعنی بیت الزہرا میں ہی آکر ٹہرے تھے۔

 

کچھ حاج آقا کے بارے میں ہمیں بتائیں؟

حاج آقا ۳۰ مہر ۱۳۴۳ کو مزرعہ امام نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان مذہبی اور علمائے کرام کا خاندان تھا۔ ابتدائی تعلیم نائین شہر میں ہی حاصل کی اسکے بعد جنگ کے دوران ہی اپنی تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ کچھ عرصہ تہران کے شمال میں اپنے والد کی روٹی کے تنور پر کام کیا۔ جنگ کے شروع ہوتے ہیں انہیں انکی کم عمری کی وجہ سے جنگ پر جانے کی اجزت نہیں ملی لیکن انکی دلچسپی اور عشق کو دیکھتے ہوئے انہیں سولہ سال کی عمر میں سنندج بھیج دیا گیا جہاں پانچ ماہ خدمات انجام دینے کے بعد انہیں دارخواین کے علاقے بھیج دیا گیا۔ انہیں شہید بہشتی اور مقام معظم رہبری کا ہم رزم ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

جنگ کے دوران پہلو میں بم کے ٹکڑے لگنے سے انکا ایک گردہ ناکارہ ہو گیا جسے نکال دیا گیا اور کیمیکل بم کے اثرات کی وجہ سے تقریبا بیس سال سے کچھ زیادہ کا عرصہ مسلسل علاج چلتا رہا اور ڈائلیسزز ہوتا رہا ۔ انہیں ہڈیوں کی بیماری، آنکھوں کی بیماری، کم سننے کے مسائل، پھیپھڑوں میں انفیکشن سمیت متعدد بیماریوں کا سامنا تھا، وفات سے کچھ عرصہ پہلے انکے کولہے کی ہڈی بھی توٹ گئی تھی۔ اتنی بیماریوں کے باوجود بھی کبھی ناشکری نہیں کی ۔ان بیماریوں اور تکلیفوں کو اہل بیت علیہم السلام خاص طور پر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی اپنے اوپرعنایت سمجھتے تھے۔

محاذ جنگ کے حوالے سے اگر انکے کچھ واقعات ہوں تو بیان کریں؟

شہید خرازی کے حوالے سے ایک واقعہ یاد ہے جو حاج آقا خود سنایا کرتے تھے: کربلائے چار آپریشن میں کچھ دن باقی تھے اور میں ایک رات نہر اروند کے کنارے پہرہ دے رہا تھا۔ ہمارا مورچہ ایک قدیمی قلعے کے سامنے بنا ہوا تھا جس نہر اروند سے ۵۰ میٹر کے فاصلے پر تھا۔ میں نے دیکھا ایک شخص قلعے کے اندر سے باہر نکل کر میری طرف آرہا ہے، مجھے اس کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے پوچھا کون ہو؟ اس نے کہا حسین خرازی اور مورچے کے اندر آگیا۔ عراقی مسلسل روشنی کے فلیئرز چھوڑ رہے تھے۔ شہید خرازی مجھے دیکھ کر پہچان گئے کہ میں نائین کا رہنے والا ہوں۔ میں نے کہا میرے لئے دعا کریں کہنے لگے کریمی ہم تو جانے والے ہیں آپ لوگ رہ جائیں گے، آپ کو روحانی اور جسمانی سختیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لئے دھیان رہے کہ یہ امتحان ہے اور اس پر صبر کرنا ہے۔

ان کے زخمی ہونے کے زمانے سے متعلق کوئی واقعہ ذہن میں ہے؟

جب حاج آقا کو تہران بھیجا گیا اور وہ آزادی اسٹیڈیم میں ایڈمٹ ہوگئے تو میرے گھر والوں نے مجھ سے یہ بات چھپائی اور میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ چلو کالہ کے گھر چلتے ہیں۔ میں اس وقت اسکول سے واپس آئی تھی میں نے کہا کہ میں تھکی ہوئی ہوں اور میں نہیں چل سکتی کیونکہ ابھی کچھ دن پہلے ہی خالہ کے گھر سے واپس آئے ہیں اور جمعے میں دن ہی کتنے گذرے ہیں اور آج پیر کا دن ہے۔ میری والدہ نے کہا کہ نہیں آج کا دن کچھ خاص دن ہے۔ انکے اصرار پر میں تیار ہوگئی۔ آزادی اسٹیڈیم کے نزدیک پہنچے تو میری چھٹی حس نے کہا کہ کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ کیا بات ہے کوئی مسئلہ ہوا ہے تو کہنے لگیں کہ نہیں بس محمد کو تھوڑے بہت زخم آئے ہیں۔ میں گھبرائی ہوئی اسٹیڈیم میں داخل ہوئی بہت پریشان تھی کیونکہ حاج آقا کا چہرہ بھی مجھے یاد نہیں تھا۔ میری خالہ اور چچی حاج آقا کے برابر میں کھڑے تھے تو انکو دیکھ کر میں وہاں پہنچی دیکھا حاج آقا بری طرح زخمی ہیں۔ میں آگے بڑھ کر انکو اپنی آغوش میں لینا چاہتی تھی لیکن وہاں موجود نرسوں نے منع کردیا کیونکہ وہ کیمیکل بمباری کے متاثرین میں سے تھے اور ممکن تھا کہ میں بھی متاثر ہوجاتی۔ میں انکے سامنے بیٹھ گئی اور انہیں تکنے لگی۔ انکی آنکھیں ورم کرچکی تھیں اور چہرے پر بری طرح چھالے بھرے ہوئے تھے۔ جب وہ متوجہ ہوئے کہ میں بھی وہیں موجود ہوں تو مجھے آواز دے کر بلایا اور کہا نزدیک آؤ میں تمہیں کچھ کہنا چاہتا ہوں، میں اپنے کان انکے ہونٹوں کے پاس لے گئی تو بولے: بیگم روئی تو نہیں نا؟ میں نے جواب دیا: نہیں میں کیوں روؤں گی؟ کہنے لگے: میرا دل چاہتا ہے کہ تم حضرت زینب س کی طرح صابر بنو اور استقامت دکھاؤ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں۔

میں حاج آقا سے ملاقات کے لئے اتنا زیادہ اسٹیڈیم جایا کرتی تھی کہ نرسیں میری شکایت کرنے لگ گئی تھیں وہ حاج آقا سے پوچھا کرتی تھیں کہ یہ لڑکی کون ہے جو روزانہ ملاقات کے لئے آجاتی ہے؟ حاج آقا نے پہلے پہل تو انکار کردیا کہ ایک خدا کی بندی ہے آُ لوگوں کو اس سے کیا کام ہے، لیکن بعد میں جب نرسوں نے کہا کہ نہیں اسکا یہاں آنا جانا عادی نہیں ہے تو انہوں نے بتا دیا کہ یہ میری اہلیہ ہے اور ہم نے تازہ تازہ ہی نکاح کیا ہے۔

مجھے یاد ہے ایک دن انہوں نے مجھ سے تقاضہ کیا کہ میرے فوجی لباس کو یادگار کے طور پر رکھ لو۔ میں نے انکے یونیفارم کو وہاں سے تحویل لیا اور وہ میرے ہاتھوں پر ہی لٹکا ہوا تھا کہ اچانک مجھے شدید کارش شروع ہوگئی۔ مجھے بھی احساس نہیں ہوا کہ یہ ان کپڑوں کی وجہ سے۔ وہاں موجود نرس متوجہ ہوئیں کہ یہ کیمیکل بمباری سے متاثرہ لباس ہے تو انہوں نے وہ کپڑے مجھ سے لے کر میری مرہم پٹی کی اور ان کپڑوں کو تھیلی میں ڈال کر مجھے واپس کیا۔ گھر آکر میں نے ان کپڑوں کو سات مرتبہ دھویا اور سات مرتبہ دھوپ میں سکھایا تاکہ اس میں موجود کیمیکل کے اثرات ختم ہوجائیں۔ وہ کپڑے آج بھی یادگار کے طور پر ہمارے پاس موجود ہیں۔

 


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 2189



http://oral-history.ir/?page=post&id=10532