شہید عراقی سے غیر متوقع ملاقات

ترجمہ: ابو زہرا علوی

2022-03-13


۱۹٦۴ کی  بات  ہے کہ میری آیت اللہ قاضی طباطبائی کے توسط سے امام خُمینی سے ملاقات ہوئی، یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب بازاروں میں ہرتالیں چل رہی تھیں اورقم کے بازار بھی بند تھے ۔ میں آیت اللہ قاضی کا خط لیکر امام خُمینی کے محضر میں حاضر ہوا تھاان کے گھر کے باہر بہت رش تھا مرحوم مصطفیٰ نے جیسے ہی مجھے دیکھا کہ میں آیت اللہ قاضی کی جانب سے آیا ہو انھوں نے مجھے پہچان کراشارہ کیا کہ گلی کو کر اس کرنے کے بعد پہلے ہی گھر پر پہنچ کردروازہ کھول کر اندرآجاؤں۔ میں اسی دروازے میں داخل ہوگیا ایک بوڑھے خادم رہنما نے رہنمائی کی،میں بیسمنٹ میں چلاگیا۔ایک چھوٹا ساگدا،عینک، چندخطوط اورایک مہراورمیں کہ جودیوار سے لگ کر کھڑا تھا ۔جناب مصطفیٰ نے امام خُمینی کو پیغام دیا کہ تبریزسے کوئی ملنے ایا ہے،آپ  تشریف لائے۔میں نے سلام کیا،آپ کے ہاتھوں کابوسہ دیااورخط دیا،آپ نےاشارے پرمیں بیٹھ گیا۔ان دنوں امام خمینی حاج روح اللہ کے نام وسے مشہورتھے۔انھوں نے خط پڑھا اور جواب لکھنا شروع کیا اورجیسے ہی جواب ختم ہوا،مصطفیٰ خمینی آئےاورکہا کہ عالی جنابان اپ سےملنےآئیں ہیں اگراپکی اجازت ہو توآجائیں!آپکی اجازت پروہ اندر آگئے۔ان      میں سے بعض تہران کی تحریک کے فعال افراد بھی تھے جن میں سے میں مرحوم مھدی عراقی کو پہچان لیا اورشاشنہ چی کو پہنچانا جو تہران کے بازارکےایک معروف آدمی تھے ۔جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے مجھے دیکھا تو ایک لمحے کوٹھٹک گئے لیکن امام خُمینی نے کہا اپنا ہے؛سب اپنی بات کریں!انھوں نے کہا"جناب عالی!تہران کے اکثر بازار ہڑتال کی وجہ سے بند ہیں اب ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں تاکہ دوسرا مرحلہ شروع کیا جاسکے"امام خُمینی نے فرمایا"میں اس بات  پر راضی نہیں ہوں اورابھی شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کس ایک سے بھی خون کا ایک قطرہ بہے"لوگوں نے کہاں "پس پھر ہم کیا کریں؟"امام خُمینی نے کہا"آپ لوگوں کی اور ہماری ذمہداریوں کوحدیث نبوی نے روشن کردیاہے؛ "اذا ظهرت البدأ فللعالم ان یظهر علمه و الا فعلیه لعنت الله و الملائکه و الناس اجمعین"۔اسکے بعدفرمایا "اس حدیث کے منعیٰ سے آپ لوگ آگاہ ہیں؟"یہ حدیث روسول نے فرمائی ہے ناکہ میرے جیسے ایک عمامہ پوش عالم نےساری دنیا کے مسلمان اس حدیث کا مخاطب ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے دین سے آگاہ ہونا چاہیے۔ حدیث    کا معنیٰ یہی ہے لیکن میں کیوںکہ عمامہ پہناہوں میں اس حدیث میں صف اول میں      کھڑاہوں۔ورگرنہ سارے مسلمان اپنےدین کے عالم اورآگاہ ہیں۔ جب وہ دین میں بدعت کو ایجاد کریں گے اورمسلمان دیکھے  گاکہ دین میں کسی نئی چیز کوجوڑا جارہا ہے۔ کیونکہ اپنے دین سے  آگاہ ہے،توسمجھ جاتاہےکہ یہ اس کے دین کا حسہ نہیں۔یہ موضوع بدعت ہے اور مسلمان اس بات کا باپند ہے کہ اس بدعت سے آگاہ کرے اگروہ اس کوبیان نہیں  کرے گا تواس پر خدا کی تمام فرشتوں کی اور لوگوں کی لعنت ہوگی اور یہ یقینی ہے۔ جب تک وہ بدعت جاری رہے گی تاقیامت۔ وہ کہ جو جانتا ہے اور اس نے بیان نہیں کیا اس  پربھی لعنت ہوگی۔آئندہ آنے والوں نےاگر اس بدعت پرعمل کریں گے،اس عمل کی لعنت اسی شخص پرہوگی۔ ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اصل حقیقت بیان کی کریں۔

اس سال کی اصل بدعت و حقیقت وہ بل ہے کہ جس  میں چھ شرائط کہ وہ نو شرائط کردی گئیں بعد میں بارہ شرائط کردی گئیں اور اسی طرح سے تسلیم نامہ کی گفتگو ہے ۔حضرت امام خُمینی کی  اسی گفتگو کی بنیاد پرمیں اس بات پر متوجہ ہوا کہ تہران میں دوسرا مرحلہ ، سخت ترین فعالیت درکار ہے جیسا کہ امام خُمینی نے فرمایا تھا:"میں اس بات پر راضی نہیں ہوں اورابھی شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کس ایک سے بھی خون کا ایک قطرہ بہے"  لہذا ذمہداری صرف کہنے کی ہے۔ آپ حقیقت کو پہنچائیں، لوگوں  کےدرمیان  رہ  کران کوبتائیں۔ پچاس  ہزار  لوگوں  کوبتائیں۔  یہی  حضرت  امام خُمینی  کاپیغام تھاکہ جومیرےذھن  میں بس چکاتھا۔  اگرمیں یہ کہوں کہ پچاس ہزارلوگوں کویہ بات بتانے نہیں دےرہے، توپانچ ہزارافرادتک اپناپیغام پہنچائیں۔اگریہ بھی نہیں ہوسکتاتواس میں بھی وہ لوگ پریشان کررہے ہیں اور ہماری جان کوخطرہ لاحق ہے،  تواس سےبھی کم لوگوں تک پیغام پہنچائیں،  مثال کے طور پر چائے خانوں میں ماتمی انجمنوں میں جاکریہ پیغام پہنچائیں اگروہ  لوگ اس میں بھی رکاوٹ ڈالیں؛  اگراپنےخاندان میں بیان کرتےہیں،  توکیامیں بھی کوئی رکاوٹ آتی ہے!؟  ہرکوئی اپنی ذمہ داری کے مطابق اپنی توان کےمطابق اپنےخاندان والوں کوبتائےکہ بدعت ہےاوریہ کام دین میں نہیں اورخلاف دین ہے،تب بھی مسئلہ حل ہے۔  کیونکہ یہ لاکھوں کی آبادی خاندانوں پرمشتمل ہے اورسب یہ بات سمجھ جائیں گےمعاملہ کیاہے۔  ابھی ہماری ذمہ داری یہی ہےکہ ہم لوگوں تک یہ بات پہنچائیں۔

امام خُمینی کی بات ختم ہوئی،  سب نے اجازت طلب کی اور چلےگئے۔  امام خُمینی نےخط کو بند کیا اور مجھے تھما دیا۔ کیوںکہ میرا کام عطرفروشی تھا،  میری جیب میں بہترین قسم کاتھامیں نےگھبراتےہوئےاسےباہرنکالااوراضطراب کےساتھ کہا:  "حضرت آیت اللہ !اگرممکن ہےتونمازکےوقت یہ عطرآپ کےساتھ رہے!"انھوں نے عطرمجھ سےلیااسےسونگھاگویاکہ انھیں پسندآگیا، اسےاپنی جیب میں رکھااورمیراشکریہ ادا کیا۔ اگر عطر اچھا نا بھی ہوتاتب بھی وہ میرادل رکھنےکےلئےاس رکھ لیتے،کیونکہ میں خوف زدہ تھاکہ کہیں یہ میرا یہ کام گستاخی شمارنہ ہولیکن انھوں نےمیری تشویق کےلئےمجھ سے لےلیا۔  میری یہ حیثیت نہیں تھی میں نے ان سےاجازت چاہی اورباہرنکل آیا۔

خط میں حضرت امام خُمینی کادیاہوادستورعمل تھا۔  یہ بات مجھے تبریزجاکرمعلوم ہوئی،  کیونکہ کسی کو بھی اس بات  کی اجازت ناتھی کہ اس خط کو کھولے۔یہ بات ہمیں آیت اللہ قاضی طباطبائی کی زبان سے سنا۔

جناب قاضی نےہم سےکہاکہ اس پیغام کولوگوں تک پہنچادو۔  میں نےحضرت امام خُمینی سے ملاقات اور انکی گفتگوکاساراماجرا آیت اللہ قاضی کی خدمت میں بیان کردیاجس پرانھوں نے مجھے شاباشی دی اور کہا کہ یہی دستور ہےکہ ہمیں کیاکرناہے۔آیت اللہ قاضی نےسالوں اسی دستور پرعمل کیااوراپنی جدوجہدکواسی روش پرجاری رکھااورکوئی نیادستورنہیں دیا۔

 

منبع: نعلبندی، مهدی، اعدامم کنید (خاطرات محمدحسن عبدیزدانی)، تهران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1388، ص 59 – 63


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 1483



http://oral-history.ir/?page=post&id=10447