چاکلیٹ نہ کھانے کی سزا

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2022-03-08


چار آبان کا دن تھا، عضائی نے نگہبان کو مجھے(زہرا رحیمی سال ۱۳۵۴)  لانے کو کہا۔ مجھے معلوم تھا کہ آج شاہ کی سالگرہ ہے۔ میں نگہبان کے ساتھ اسکے کمرے میں گئی۔ منوچہری بھی وہیں تھا۔ رضائی نے چاکلیٹس کی پلیٹ میری طرف بڑھائی۔ کہنے لگا: اٹھاؤ۔ میں نے ڈر کر ایک چاکلیٹ اٹھا لی۔ کہنے لگا: کھاؤ۔ میں نے کہا نہیں بعد میں کھاؤں گی۔ اس نے چلا کر کہا۔ میں کہہ رہا ہوں کھاؤ۔ میں نے کہا ابھی نہیں کھا سکتی۔ کہنے لگا اچھا۔ چونکہ شاہ کی سالگرہ کا دن ہے اس لئے نہیں کھا رہی۔ میں نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے۔ مجھے تو معلوم بھی نہیں ہے کہ آج کون سا دن ہے۔ لیکن اس وقت دل نہیں چاہ رہا۔ رضائی غصے میں آگیا اور میری طرف بڑھا۔ میں ڈر کر پیچھے ہٹ گئی اور پیچھے لگی ہوئی بخاری سے جا لگی۔ اچانک میرا ہاتھ بخاری کے گرم پائپ پر لگ گیا اور پائپ باہر نکل آیا جس سے خاک اور گندگی نکل کر رضائی کے کپڑوں پر لگ گئی۔ منوچہری بھی کمرے میں کھڑا یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ رضائی کو تو کاٹو تو بدن میں خون نہیں تھا۔ مجھے گالیاں دیتے ہوئے کہنے لگا: یہ تم نے کیا کردیا، میرے کپڑے بھی خراب کردیئے۔ مجھے ابھی یہاں سے کام پر جانا تھا۔ اس نے تازیانہ اٹھایا اور غصے سے مجھے مارنا شروع کردیا۔ تھوڑا غصہ کم ہوا تو میرے سامنے ہی کھڑے کھڑے جیب سے کچھ گولیاں نکال کر کھا گیا۔ اس کے ہاتھ بری طرح لرز رہے تھے۔ اسکے بعد اس نے نگہبان کو کہا: اسے حسینی کے کمرے میں لے جاؤ۔

حسینی نے بھی معمول کے مطابق گالیاں دے دے کرکوڑے مارے۔ مجھ میں اب بالکل بھی رمق باقی نہیں تھی۔ جیل میں میری ساتھیوں نے جب میرے نیلے اور کون سے بھرے ہوئے چہرے اور بدن کو دیکھا تو بہت پریشان ہوئے۔ رضائی دیوانہ وار میرے سر اور چہرے پر مارتا جارہا تھا اسی لئے میرا پورا چہرہ نیلا پڑگیا تھا۔ جیل میں ہر کوئی اپنے انداز سے مجھے دلاسہ دے رہا تھا۔ میں نے بھی ساتھیوں کو اس پریشانی سے نکالنے کے لئے ہنسنا اور ان سے مذاق کرنا شروع کردیا۔

 

منبع: آن روزهای نامهربان (یاد از رنج‌هایی که برده‌ایم...)، فاطمه جلالوند، تهران، موزه عبرت ایران، 1385، ص 161 تا 162.


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 1652



http://oral-history.ir/?page=post&id=10441