چھ روزہ جنگ میں غاصب صیہونی حکومت سے مقابلہ

ترجمہ: ابو زہرا علوی

2022-02-26


جب جنگ شروع ہوئی،  تواسرائیلی جنگی طیاروں نے شاہ کی حمایت کی بدولت اسلامی ممالک کے شہروں پر بم باری کرتےتھے۔  ہم اس زمانےمیں امام خُمینی کی جانب سے اسرائیل کےخلاف ایک دوست کے گھرمیں ایک پمفلیٹ بنایا،  اسکا مضمون اسرائیل کےخلاف اورلوگوں کومتنبہ کیاکہ ہمارے ملک کا اقتصاداسرائیل کےہاتھوں میں چلاگیاہے۔  پھریہ طے پایاکہ اس کو ملک کےبڑےافراد اور مراجع اعظام کوبھی بھیجاجائے۔  رات کو ایک  دوست کےگھر گئےاور لفافے اور کاغذقلم لیکرایک فہرست بنانا شروع کردی اور قم،  مشہد،  تہران،  کے سرکردہ افراد کہ جن کو یہ خط بھیجناتھا ان کے نام لکھناشروع  کردئیے،  پوسٹ کوڈ کےذریعے ان خطوں کوبھیجاجاناتھا۔   کیونکہ اس زمانےمیں ہمارے پاس اتنےوسائل نہیں تھے کہ اس خط کوعام کیاجائے۔  صبح ہوئی تومیں اپنی دوکان اگیا جناب محسن جومیرے دوست تھے انکا فون ایا انھوں نے فون پرکہاکہ "تمہارے سارے چیک واپس آگئےہیں"  ان کی اس  بات  سے میں سمجھ گیاکہ ہمارے دوست پکڑے گئے کیونکہ ان خطوط پرکسی کے گھر کا پتہ نہیں لکھاتھا لیکن میری دوکان کا ایدرس تھا۔   میری داڑھی بڑھ چکی تھی جب میں متوجہ ہواتومیں نے اسے کم کرویا۔  پھرمیں گھرآیا،  تمام کاغذات کے جن میں آیت اللہ سیدمحمدتقی خونساری،  آیت اللہ میلانی کے فتاویٰ تحریرتھے،  جن میں لکھاتھاکہ آپس میں بیٹھک کروچاہیے چائے پینے کے بہانے،  حتیٰ انھوں نے کہہ رکھاتھاکہ سب جگہ میرے جاننے والے ہیں کوئی حرکت سے پہلےمجھے معلوم ہوجائےگا۔  ان سب سے بڑھکرمیرانوےدن کاسفرنامہ جوتحریری شکل میں موجودتھاکہ  جس میرےبیرون سفرکی تمام روداد تحریرتھی کہ میں دوسرے ممالک کےکن انقلابی شخصیات رہمناؤں سے ملاہوں،  میں نے سب کوجمع کیااور آنگن کے باغیچے میں دبادیا۔  اس کام کے بعد میں شہیداسلامی کے پاس پہنچا اورساری خبرانہیں دےدی۔  کیونکہ وہ قیدہوچکےتھےان کے پاس قید کاتجربہ تھا۔  میں چاہتاتھا کہ ان سے پوچھوں کہ اگرپکڑاجاؤں توکیاکروں۔  انھوں نےکہا:  "تم ایک کام کرو"  میں نےپوچھا:  "وہ کیا؟"  کہا:  "جب تمہیں ساوک پکڑے توتم بھولےسے بن جانا؛  بس وہ باتیں بتانا جودرست ہیں سچ بولنا،  اپنا نام،  اپنےوالد کانام،  کہاں کام کرتےہو،  گھرکہاں ہے،  یہ ساری باتیں درست بتانا"  اسکےبعد میں دفتر گیا۔  میراپارٹنرآچکاتھااس نے کہا:  "کہاں تھے؟"  میں نے کہا:  "بچوں کےاسکول گیاتھا"۔  اس نےکہا:  " ساوکی آئےتھےپوچھ رہے تھے فلاں کہاں ہے؟  میں نےکہا ابھی آیانہیں ہے،  انھوں فون نمبر دیاہے اور کہاہے کہ جسیے ہی وہ آئے ہمیں اطلاع دینا۔  ہم نےفون کیا اور پوچھا:  "جناب کیاحکم ہے؟"  انھوں نے کہا:  "آپ کون؟"  میں نےاپناتعارف کریاتو انھوں نے کہاکہ وہیں رہناہم ابھی پہنچتے ہیں۔  میں نے کہا:  "جی ٹھیک"  تقریباً دس گیارہ بجے کےدوران ایک جیپ میدان اعدام پرآکررکی اور اس سے چارافراد  میرےپاس آئےاورکہا:  "فلانی"  میں نےکہا:  "جی فرمایئے"  انھوں نے کہا:  "آپ اجائیے آپ سے کام ہے"  میں جیپ کے پاس پہنچا توبولے کہ سوار ہوجاؤ،  وہ مجھے گذرلوطی چھار راہ گوبندک،  جسے چالہ حصار۲کہاجاتاتھا۔  کہاجاتاتھاکہ یہاں ساواک بازار ہے۔  وہ مجھے اندرتونہیں لےگئے،  آدھےگھنٹےتک گاڑی میں  ہی بیٹھائےرکھا آدھے گھنٹے بعد وہ آئے گاڑی چلنے لگی۔  قزل قلعے کےپاس جب ہم پہنچے،  توکہا:  "جانتےہویہ کون سی جگہ ہے؟"  میں نے کہا:  " نہیں مجھے نہیں  معلوم"  انھوں نے کہا:  "یہ قزل قلعہ ہے"  میں نےکہا:  "یعنی آپ لوگ مجھے جیل میں ڈال رہے ہیں؟"  انھوں نےکہا:  "نہیں ابھی توہم یہاں سے جارہے ہیں ابھی  تم سے چندسوالات کرنے ہیں"  پھرمیں نے کہا:  " کم ازکم مجھے گھرفون توکرنےدیتے" 

توانھوں نےکہا:  "ابھی ہم جائیں گے اورکہیں گے کہ فلانی نہیں آیا"۔  میں کہا:  " بہت شکریہ آپکا"۔  جب ہم اندر پہنچے تومیرافوٹولیاگیا اور مجھ سے تفتیش شروع کردی۔

لیکن تفتیش کےدوران وہ مجھے سے کچھ نا  اگلواسکے۔  یہاں تک کہ انھوں نے بتایاکہ "تم پندرہ افراد تھے فلاں کے گھرگئےتھے؟"  میں نےکہا:  "ان پندرہ میں میں نہیں تھا۔  ہمارے ایک دوست نے کہاتھا کہ چلووہاں چلتے ہیں"۔  کہا:  اس لفافے کے پیچھے اس کانام  لکھ  دو۔"  میں نے بھی لکھ دیا۔  کہا:  "تم نہیں جانتے تھے کہ کیوں؟"  میں نےکہا:  " شاید  ان  کی لڑکی  یالڑکےکی شادی تھی میں نے پوچھا نہیں۔"  انھوں نےکہا: "دس پندرہ افرادتھے"۔  میں نے کہا:  "جب میں گیاتھاتواس وقت وہاں  دس پندرہ افراد نہیں تھے شاید میرے جانے کے بعد  یا  پہلے آئے ہوں۔"

"کتاب کون سی پڑھتےہو؟"  میں نے کہہ دیا:  "مفاتح الجنان،  قرآن۔"  پوچھا:  "تمہارے دوست کون ہیں؟"  میں نے بھی میدان اعدام نے سارےوہ لوگ جوانکی اپنی پارٹی کےتھے اورجن سے میراکاروباری معاملہ ہوتاتھا سب ان کےہی نام لےلیئے۔

البتہ انھوں نے پیچیدہ سوالات بھی پوچھے تھے۔  میں جب جواب لکھتا تو صاد کوسین لکھتا،  ز  کو ضاد،  اسی طرح کےکام انجام دیے۔  وہ اپنے سوالات کے دوران گھومانے والے سوال بھی کرتے اور مجھے دھمکیاں بھی دیتے۔

ان کی تفتیش میں تشدد تونہیں تھا  پر دھمکیاں اورطمانچے ضرورتھے۔  مجھے قزل قلعہ میں بندکردیاگیا جب میں بیرک میں پہنچاتواپنے ساتھ کوبیرک  میں بنے سوراخوں سے اپنے انے کی خبرکردی اور بتایادیاکہ میں نے کچھ بھی  نہیں بتایاہے  اور میں  کچھ بھی نہیں جانتاہوں۔  میرےساتھ قیدہونےوالےدوستوں میں:  جناب الہی،  مرآتی،  برقعی اور علی اکبرناطق نوری تھے۔

 

منبع: خاطرات جواد مقصودی، تدوین فاطمه نظری‌کمره، تهران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1392، ص 124 – 128


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 1448



http://oral-history.ir/?page=post&id=10422