مجلس برپا کرنے کے جرم میں گرفتاری

ترجمہ: ابو زہرا علوی

2022-02-21


1968کی بات ہےہم ایک مجلس پرپاکرناچاہتےتھےاورجناب اسلامی(تربتی)سےمجلس پڑھوانی تھی۔  تھانے یاوزارت داخلہ کی جانب سےقدغن تھی۔

جناب شیخ محمودخادمی خُمین میں میرےپاس آئےاورکہا:  "مجلس پرپابندی لگادی گئی ہے،  آپ قم اجائیے"۔  جناب خادمی کےکہنے پرمیں قم آگیا۔  میں نےکہامجلس توہوگی۔  میں نے حکم مجلس پڑھی جائے۔  انھوں نے بھی بےاحتیاطی کری اورایک  اسپیکرچھت پرلگادیا۔

خبر تھانیدار تک پہنچ گئی اور وہ لوگ گھر کے دروازے پر آگئے اورکہامجلس نہیں ہونی چاہیے۔  تقریباً ۱۵۰افرادگھرمیں تھے۔  انھوں نےجناب اشراقی سےکہا:  "ممبر پرمت جانا"۔  وہ بھی ممبرپرنہیں گئے۔  انھوں نے جناب خادمی سےکہا:  "مجلس کیوں  کی؟"  انھوں نے کہاکہ میں توکچھ بھی نہیں ہوں جوکچھ ہےپسندیدہ ہے۔  اسکےبعد کارندوں نے کہاواپس چلےجاؤ،  خُمین جاو۔  میں نے کہا:  "میراارادہ تھاکہ میں کل خُمین چلاجاؤں کیونکہ اپکاحکم ہے،  نہیں جاؤں گا۔  مگریہ کہ مجھےزبردستی بھیجاجائے۔  انھوں نےکہا:  "اس سے ہمیں کوئی سرکارنہیں"۔

دو دن کے بعد جمعرات کےدن وہ لوگ آئے،  مجھ سے کہا گیا کہ سپاہی آئے ہیں اور آپکو لیے جانا چاہتے ہیں۔  میں اٹھا اور دیکھا کہ ایک بلند قد قوی ھیکل انسان کو اپنے ساتھ لائے ہیں کہ اگر میں جانے پر تیار نا ہوں تو مجھے اُٹھا کرلے جائے۔  مجھے ایسالگا۔ اس  وقت انھوں  نے کہا کہ ہم  آپکو لیجانے آئیں ہیں۔

میں نےکہا:  "میں نمازپڑھ لوں۔"  انھوں نےکہا: "آپ کو جہاں  لے جارہےہیں وہاں نماز کی جگہ ہے،  وہاں جتنی چاہے نمازپڑھ لینا۔  اب یہاں سے چلو"

میں  نے ڈاکٹر مصدق کا مشہور شعر پڑھا جو انھوں نے شاہ کی تصویر کے لئے پڑھا تھا:

ای زبر دست زیر دست آزار                                   گرم تا کی بماند این بازار؟

اےظلم کرنےوالےیہ  ظلم  کابازارکب تک گرم رہےگا؟

میں نےکہا:  "ٹھیک ہےمیں چلتاہوں مگر تمہارےیہ کام زیادہ دن تک نہیں چلیں گے۔"  انھوں  نے کہا:  "کچھ بھی ہو تمہیں  لے جائیں گے اور اب تم یہاں واپس نہیں آؤ گے۔  اپنےکپڑے اور سامان بھی اٹھالو۔  اپنےگھر والوں کو بتادو۔"

میرے موجودہ گھر کے پاس ایک عمارت تھی جسے گھر والوں کے لئے آقا نے کرایے پر لیا ہوا تھا وہاں پر ہم خصوصی میٹینگیز کیا کرتے تھے۔ ایک دروازہ ہم  نے وہاں کھول رکھا تھا جس سے آنا جانا ہوا کرتا تھا۔ وہاں حضرت امام خُمینی اور انکے دوسرے بچے اور خانم اعرابی رہتے تھے۔ میں گھر میں گیا اور دیکھا کہ وہ سو رہے ہیں، میں  نے انہیں نہیں اٹھایا۔ میں نے مشھدی میرزا جعفر کہ جو خادم تھے ان سے کہا:  "سپاہی مجھے لے جارہے ہیں میں واپس نہیں آؤنگا۔ میری زوجہ اور دیگر گھر والوں سے کہدینا کہ مجھے لے گئے ہیں پر نہیں معلوم کہاں؟ میرے لیجانے کی خبر مراجع اکرام،  آیت اللہ گلپائے گانی، مرعشی، شریعتمداری اور دیگر کو مت دینا اور کوئی بھی اقدام  نہ کرنا"۔

میں نے اپنا صندوقچہ اٹھایا اور ضروری سامان اس میں ڈالا۔ انھوں نے کہا سامنے والے دروازے سے نہیں لے جاؤ بلکہ پچھلے دروازے سے لے چلو مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور ڈرائیور سے کہا کہ آقا شریعتمداری کے گھر کے سامنے سے مت جانا، ایک بلڈنگ کے سامنےگاڑی رکی، دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھلا اور اندر داخل ہوئے مجھے بتایا گیا کہ یہ انٹیلیجنس کا ادارہ ہے۔ مجھے ایک کمرےمیں بند کر کے چلے گئے۔  ایک اخبار میرے پاس موجود تھا میں اسے پڑھنے لگا۔  تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگ واپس آئے اور کہا: "صحن نماز کے لئے تیار ہے"۔  میں حوض پر گیا اور وضو کیا۔

عصرکی نماز پڑھی لیکن تعقیبات ابھی ختم نہیں  ہوئے تھے کہ مجھے لینے آگئے۔ باہر نکلے گاڑی میں بیٹھے۔دو سپاہی آگے اور دو میرے دائیں بائیں بیٹھ  گئے۔  میں اس بات سے ہراساں تھا کہ مجھے  لے کر کہاں جاتے ہیں۔ جب  قم  سے باہر نکلے تو دیکھا کہ تہران جارہے ہیں۔ راستے بھر ان لوگوں کی مجھ سےگفتگو مودبانہ رہی۔

اس وقت تہران میں بادشاہی کا جشن ہو رہا تھا۔ جب ہم تہران میں داخل ہوئے تو میں  نے دیکھا کہ ناشناس راستے سے جارہے ہیں۔ بعد میں میدان فردوسی پر پہنچے۔ وہاں جشن کا سامان اتنا پڑا ہوا تھا جو بیان سے باہر ہے۔ بعد میں شمیران روڈ پر انٹیلیجنس کے دفتر لے گئے۔  برف بھی گررہی تھی۔  وہاں ایک کمرے میں بیٹھنے کو کہا دو سپاہی آ کر کھڑے ہو گئے میرے کاغذات لائے گئے ایک موٹی فائل تھی، میری فائل ناصر مقدم کے پاس تھی جویہاں کا رئیس تھا۔  بعد میں مجھ  سے کہا گیا:  "اوپر کی منزل میں چلیئے"  وہاں لفٹ تھی اس کے باوجود مجھے  سیڑھیوں سے  لے کر گئے۔

ناصر مقدم کرسی پر بیٹھا تھا اور مجھے دیکھ کر کھڑا ہوگیا میرا بڑا احترام کیا۔  پھرمیرے لئےکرسی منگوائی چائے کا پوچھا، میں نے کہا:  "جی" وہاں جو کھڑا تھا اس سے اچھی سی چائے لانے کو کہا۔

میں نےچائےپی لی توکہا:  "قم میں رہنا آپکےلئےدرست نہیں۔ آپ خُمین واپس چلے جائیں اور اب آپ قم ناجائیں۔" میں نےکہا: "جی بہتر" اس  کے بعد اس  نے آواز دے کر گاڑی لانے کو کہا اور کہا کہ جناب جہاں بولیں انہیں پہنچادو۔ میں سمجھ گیا کہ مجھے قید میں نہیں ڈالا جائے گا۔ میں نےکہا: "میرا گھر یہیں نزدیک میں ہے۔"  گاڑی لائی گئی اور مجھے میرے داماد کے گھر چھوڑ دیا گیا۔

 

منبع: خاطرات آیت‌الله پسندیده برادر امام خمینی(ره)، خاندان امام خمینی، گوشه‌هایی از تاریخ معاصر ایران، به کوشش محمدجواد مرادی‌نیا، تهران، سازمان تبلیغات اسلامی، حوزه هنری، شرکت انتشارات سوره مهر، 1381، ص 158- 153


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 1503



http://oral-history.ir/?page=post&id=10409