کتاب  ’’حاج حمزہ‘‘ پر ایک نظر

حاج حمزہ قربانی کے واقعات

جمع و تدوین: فریدون حیدی ملک میان
ترجمہ: صائب جعفری

2022-02-16


کتاب ’’حاج حمزہ‘‘ کے انٹرویو اور تدوین کا کام روح اللہ شیریفی صاحب نے انجام دیا۔ اس کتاب کی پہلی اشاعت ۲۰۱۶ میں ’’بنیاد حفظ آثار و نشر ارزش ہای دفاع مقدس (اسناد و مدارک دفاع مقدس کا ادارہ) کے ہاتھوں انجام پائی۔ یہ کتاب ۳۴۴ صفحات پر مشتمل ہے۔

پہلی چیز جو قاری کو اس کتاب کی جانب متوجہ کرتی ہے وہ اس کی خوبصورت جلد اور بہترین صفحہ بندی اور لکھائی کی خوبصورتی ہے۔ مثال کے طور پر اس کتاب کا انتسابی صفحہ چفیہ (بسیجی رومال) کی تصویر سے مزین ہے اور فصول کے عناوینی صفحات کو فوجیوں کے نام کی تختیوں اور زنجیر وغیرہ سے سجایا گیا ہے۔

فہرست کے بعد ایک صفحہ حاج حمزہ قربانی کی ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر پر مشتمل ہے  کہ جس میں انہوں نے مختصر  طور پر اس بات کی دلیل بیان کی ہے کہ انہوں نے کس وجہ سے دفاع مقدس کے وہ واقعات جو ان کے ذہن میں محفوظ سے بیان کئے۔

ادارہ اسناد و مدارک دفاع مقدس  کا مقدمہ اس تحریر کے بعد ہے جس کے بعد جمع کنندہ  کتاب کی گذارشات ہیں جو سات صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں جس میں انہوں نے انٹرویو سے کتاب کے متن کی تنظیم تک کے مراحل کی کیفیت کے بارے میں بات کی ہے۔

کتاب ’’حاج حمزہ‘‘ کا متن مجموعی طور پر  ۳۰ فصول  میں تقسیم ہوتا ہے جن کی صورت سوال جواب کی ہے۔

پہلی فصل

اس کتاب کے راوی پہلی فصل میں اپنے بچپن اور جوانی کا تذکرہ کرتے ہیں  جس کا عرصہ سن ۱۹۵۵ سے ۱۹۷۶ تک ہے۔ سب سے پہلے وہ اپنا اور اپنے بھرے پرے گھر کا تعارف کراتے ہیں۔ یہ فصل ان کی زندگی کے ابتدائی سال جو انہوں نے قزوین کے جنوب غربی گاؤں میں کی بولتی تصویر ہے۔ وہ اپنے والدین کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بےچارے مظلوم اوردیندار مومن انسان تھے جنہوں نے حاج حمزہ کو اسی دیہاتی مذہبی ماحول میں پروان چڑھایا۔ یہیں ان کو  اسکول اور مدرسہ بھیجا۔ وہ کہتے ہیں کہ  جب میں نے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو مجھے احساس ہوا کہ میرے والدین کی مالی حالت نہایت خراب ہے۔ اس لئے انہوں نے فیصلہ  کیا کہ وہ شام کے اسکول جائیں گے اور دن میں قزوین کے بازار میں کام کریں گے۔ اس فیصلہ کے باوجود کچھ عرصہ بعد وہ تعلیم سے مکمل منصرف ہوجاتے ہیں اور  فوجی تربیت کی عمر آن پہنچتی ہے۔

دوسری فصل

دوسری فصل  اس زمانے سے تعلق رکھتی ہے جب راوی البرز کے ایک تجارتی علاقہ میں کام کاج میں مصروف ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب انقلاب اسلامی کی تحریکیں سر ابھارنا شروع کرتی ہیں اور انقلاب کے نعمہ آہستہ آہستہ  مظاہروں، ریلیوں اور احتجاجات کی شکل اختیار کرتے ہوئے انقلاب کی کامیابی تک پہنچ جاتے ہیں۔

تیسری فصل

تیسری فصل قزوین کی سپاہ کی تشکیل سے شروع ہوتی ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے   جب انقلاب کی ابتدا  میں قزوین میں سپاہ کی بنیاد پڑی تو اس کے اراکین کی تعداد تقریبا ۳۰ افراد تھی۔ یہ لوگ خیابان سعدی میں ایک بوسیدہ عمارت میں کام کرتے تھے۔ حاج حمزہ اسی سال یعنی    اپریل ۱۹۸۰ء میں سپاہ کے دفتر جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ملحق ہوجاتے ہیں۔ کافی عرصہ تک کبھی پیدل اور کبھی گاڑی میں شہر کے گشت پر مامور رہتے ہیں ان کے مطابق تقریبا ۱۹۸۲ء  تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔

چوتھی فصل

اس فصل میں۱۹۸۰ سے ۱۹۸۲  تک منافقین کے ساتھ جھڑپوں اور جھگڑوں کا ذکر ہے۔ اداروں اور ایجنسیوں  کے بہت سے افراد، دوسرے صوبوں سے قزوین آجاتے ہیں اور یہاں رہائش اختیار کر لیتے ہیں۔ لوگوں سے اطلاعات حاصل کرنے کے بعد سپاہ ان کے گھروں کا محاصرہ کر لیتی ہے۔ اچھی خاصی جھڑپ کے بعد سپاہ ان افراد کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس طرح ایجنسیوں کی حرکات و سکنات میں کافی حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے۔

پانچویں سے گیارہویں فصل تک۔

فصل چہارم کے برسوں  کا ہی تذکرہ ان فصول میں بھی ہے ۔ یہاں حاج حمزہ  قزوین سے باہر، انقلاب مخالف عناصر سے مقابلہ کے لئے مامور کئے جاتے ہیں۔ تکاب ، آبیک میں سپاہ کے قیام کی ذمہ داری، قصر شیریں، پل سر ذھاب، میمک، قزلحصار کا زندان، اور مہاباد میں حاج حمزہ مختلف اوقات میں تعینات ہوتے ہیں۔

بارہویں سے سولہویں فصل

ان فصول میں  آپریشن بیت المقدس ، سپاہ منطقہ ۱،  علی ابن ابی طالب بریگیڈ ۱۷،  چھاؤنی زید، رمضان اور محرم کے واقعات کے تفصیلات ہیں۔ یہ سب واقعات ۱۹۸۲ کے ہیں۔ اس فصل میں اپریشن محرم کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں ’’آپریشن کے رات جب ہم نے اپنی فوجوں کو آگے بڑھانا شروع کیا تو طوفانی بارش شروع ہوگئی۔ جوان گھبرا کر پوچھنے لگے اب کیا کریں۔ ہم نے کہا گھبراؤ مت یہ غیبی امداد ہے۔

بارش شروع ہونے سے پہلے تک دشمن پوری طرح مستعد تھا لیکن بارش ہونے کی وجہ سے وہ سمجھا کہ شاید لڑائی نہ ہو۔ اس لئے اس نے مورچوں پر سے فوجیوں کی تعداد کم کر دی  اور وہ آرام کرنے چلے گئے۔ ہمارے جوانوں نے مورچوں پر حملہ کر دیا اور یکے بعد دیگرے  کئی ایک مورچہ فتح کر لئے۔ عراقیوں کو اتنا وقت بھی میسر نہ آیا کہ وہ اپنے لباس ہی زیب تن کر سکتے۔

اس کے بعد ان فصول میں لبنان کی تعیناتی، الہادی بریگیڈ کےقیام،  ابتدائی والفجر آپریشن، لبیک یاخمینی، آپریشن خیبر اور آپریشن والفجر۱۰ کا ذکر کیا جاتا ہے۔

سترہویں سے انتیسویں فصل

یہ فصول حاج حمزہ نے اپنی ذاتی زندگی سے مختص رکھی ہیں۔

تیسویں فصل

یہ فصل جنگ بندی   کی قرار داد اور جنگ کے خاتمہ کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کے بیان کا احاطہ کرتی  ہوئی سال  ۱۳۸۹ کے ساتھ مربوط ہوجاتی ہے۔

’’ جنگ بندی کی قرار داد تسلیم کر لی گئی تھی۔ یونائیٹڈ نیشن کی افواج آچکی تھیں۔ وہ مسلسل مورچوں اور میدانوں  کا جائزہ لینے آتی رہتی تھیں۔  جنگ بندی کا معاملہ پیش آیا اور سب نے امام خمینیؒ کا پیغام سنا تو سب کے سب ہی گریہ کناں تھے اور ہر ایک ناکام تھی کہ خود کو قبولوا سکے کہ جنگ بندی کا اعلان ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اب میدان جنگ ایک دائمی صورت اختیار کر گیا تھا اور ہم لوگ اب ہر ہر ارتفاع پر فوجی چھاؤنی بنا رہے تھے ۔‘‘

 

اس فصل کے بعد  اس کتاب میں ایک فہرست ہے جس میں شخصیتوں کے نام، جگہوں کے نام، اداروں اور ایجنسیوں کے نام  اور دیگر  اہم امور کو فہرست وار بیان کیا  گیا ہے۔

آخر میں منابع و مآخد کے اندراج کے بعد تصاویر اور سندوں کے ذریعہ اس کتاب کے اختتام پر پہنچایا گیا ہے۔

 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2217



http://oral-history.ir/?page=post&id=10398