325ویں یادوں  بھری رات  (پہلا حصہ)

سرحدی محافظ۔ ۔ ۲

تدوین: ایران کی تاریخ شفاہی کی سائیٹ
ترجمہ: صائب جعفری

2022-02-07


(۳۲۵ ویں یادوں بھری رات کے پہلے راوی  بریگیڈئیر جلال ستارہ کے بیان کا دوسرا حصہ)

دوسرا واقعہ جو میں بیان کروں گا وہ  آپریشن والفجر ۸ کا ہے۔ اب ہم بسیج سے ترقی کر کے  قوامین کی بریگیڈ میں گارڈ تعینات ہوچکے  تھے۔ پھر جنگ کے میدان کی جانب چلے۔ دریائے روند  کو عبور کرنا میرے لئے خصوصی  اہمیت کا حامل تھا۔  پہلی بار جب  ہم اروند سے گذرے تھے تو کشتیوں پر سوار تھے اور صرف آنا جانا ہی ہوا تھا۔ دوبارہ جب ہم فاو کی طرف چلے تو میں تو گاڑی میں سو گیا تھا جب گاڑی رکی اور میں نے جوانوں سے پوچھا کہ ہم کہاں ہے تو انہوں نے بتایا ہم فاو پہنچ گئے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آتا تھا۔ میں نے کہا: کیا ہمیں پر لگ گئے تھے اور ہم اڑ کر یہاں آگئے ہیں؟  ہمیں تو دریا کے کنارے اتر کر کشتی میں یہاں آنا چاہئے تھا۔ جوانوں نے کہا: پل بن چکا ہے۔ مجھے اب بھی یقین نہ آیا۔ جوان رات کو ہی مورچہ کی جانب روانہ ہوگئے لیکن میں فاو کی مسجد میں سو گیا  در اصل میں دیکھنا چاہتا تھا کہ میرے ساتھی سچ کہہ رہے ہیں یا جھوٹ۔ میں دوبارہ واپس پلٹا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ واقعی دریائے اروند پر پل باندھ دیا گیا تھا۔ یہ پل در حقیقت ہماری عظمت کی نشانی ہے۔

ہم کافی عرصہ فاو میں رہے وہاں ہمارےساتھ شاہرود کا ایک نوجوان بھی تھی۔ واقعی بڑا ہی چنچل تھا۔  مجھ سے کہا ہم چاہتے ہیں اڑ جائیں میں سمجھا یہ فرار کرنا چاہتا ہے۔ میں نے کہا میں تمہیں نہیں جانے دونگا۔ تمہیں یہیں رہنا پڑے گا۔ اس نے کہا: اگر تم اڑنا نہیں چاہتے تو نہ اڑو یہاں بیٹھو اور مورچہ صاف کرو۔

اتفاقا میرےذہن میں  بھی یہی تھا کہ ہمارا مورچہ  مارٹر گولوں نے خراب کر دیا  تھا۔ ہم نے اس کی صفائی کی تھی  اور کام مکمل  کرکے جب دوبارہ مورچہ میں  آئے  تو ایک مارٹر ۱۲۰  مورچہ پر آلگا اور اس خاک مٹی سے بھر دیا۔ بوقت ظہر  بٹالین کے سربراہ کو بھی ہمارا مہمان ہونا تھا۔ مورچہ مٹی سے بھرا ہوا تھا  اور ہم یہ بھی بھول چکے تھے کہ کمانڈر صاحب آنے والے ہیں۔ المختصر ہم نے کھانا کھایا کھانا بھی بس ابلے ہوئے آلو اور روٹی تھی۔ پھر وہی ہوا یعنی کمانڈر صاحب آن دھمکے۔ ان آنے پر ہم حیران و پریشان تھے کہ اب کیا کیا جائے۔ یہاں کوئی دکان وغیرہ تو تھی نہیں کہ ان کی مدارات کا سامان مہیا کیا جاسکتا۔لاجسٹک والے بھی اتنی آسانی سے کوئی چیز دینے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ یقین کریں ہم نے بچے کچے آلو (جو درحقیقت کچرے میں ڈال دئیے تھے) نکالے ان کا بھرتا بنایا اور تھوڑا سا مکھن ساتھ رکھ کر کمانڈر صاحب کو پیش کر دیا۔ انہوں نے بھی کھانا کھایا اور ایک لفظ شکایت کا نہ کہا۔  کھانا کھانے کے بعد جس وقت وہ جانے لگے تو انہوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور کہا سب کچھ بہت اچھا تھا ہر چند کھانا کچرے کے ڈبہ سے نکالا گیا تھا  مگر اچھا تھا۔ یہاں ہمارا راز فاش ہوگیا تھا۔ اس سے پہلے بھی ہمارے کئی اک راز فاش ہوچکے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد کمانڈر صاحب نے اپنے مورچہ میں ہماری دعوت کی  اور ہم پوچھا: دوپہر کو کھانے میں کیا کھائے گا؟ ہم نے کہا : خاک آلود آلو کھلا دیں مہربانی ہوگی۔ انہوں نے کہا: اتفاق سے آج ہمارے پاس وہی ہیں۔  اس کے بعد انہوں نے کچرے سے آلو نکالے اور ان کو صاف کیا۔ جب میں نے کھانے کی جانب ہاتھ بڑھایا تو کہنے لگے: رکو پہلے میں خود کھاؤں گا تاکہ تمہیں یہ اطمینان رہے کہ کھانا سڑا ہوا نہیں ہے اس کے بعد تم کھانا۔ میرے لئے یہ بات بڑی دلچسپ تھی۔ ہم لوگ ان دنوں اس عراق کے مسلسل حملوں کے موضوع میں الجھے ہوئے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی  کہ ہماری بٹالین میں  موجود دو تین بسیجی اوپر کی جانب چلے گئے تھے۔  وہ بسیجی بھبھان کے رہائشی تھے۔ ہماری بٹالین کے مشتہر حاجی آقایی تھے جو ابھی کچھ دن پہلے ہی آئے تھے۔  انہوں نے مائیک اٹھا کر عراق کے خلاف جوانوں کو جوش دلانا شروع کیا۔ کام کیا کیا کارستانی ہی کر دی۔ مائیک اٹھا کر عربی زبان میں نصیحتیں شروع کر دیں۔ بیان کیا تھا وعظ تھا۔ آخر میں کہنے لگے کہ   قوامین بریگیڈ  کا عمومی رابطہ گارڈز کمیٹی کے مطابق تشکیل پایا ہے۔

اس کے بعد انہوں نے بھی وہاں ہنگامہ اارائی شروع کردی۔  ایک نوجوان مورچہ کے اوپر چڑھ گیا ہم نے بہت کوشش کی  مگر وہ نیچے نہ آیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ بھائی ابھی فائرنگ شدید ہے نیچے آجاؤ۔ اس نے جواب دیا میں اسلام اور مسلمانوں کے مورچہ کو نہیں چھوڑوں گا۔ کمانڈر نے کہا: آپ نے دیکھ لیا اس کا سارا اسلام یہی مورچہ ہے۔ یہ نیچے نہیں آتا تو تم اوپر چلے جاؤ یا پھر میں جاتا ہوں۔ بہتر یعنی میں جاتا ہوں۔ المختصر میں ہی مورچہ پر چڑھا اور اس سے کہا کہ خدا تمہیں کوئی غم نہ دے، یہ پہلا موقعہ تھا جب مجھے گولی لگی اور میں زخمی ہوا۔  یہ بسیجی ہمارے ساتھ ہی رہا یہاں تک کہ ہم فاو سے پلٹنے لگے۔ دن کا وقت تھا اور گاڑی کے ذریعے  ہمیں پیچھے آنا تھا۔ اس جوان نے کہا میں نہیں جاؤں گا مجھے یہیں رہنا ہے۔ میں کچھ دن یہاں رہوں گا پھر آؤں گا۔ تھا بھی کچھ ایسا ہی کہ جب بٹالین تبدیل ہوتی تھی تو سب لوگ یکدم نہیں آتے تھے کچھ لوگ رک جاتے تھے اور کچھ دن بعد آتے تھے۔  سو یہ بسیجی بھی  تین اور شاہرودی جوانوں کے ہمراہ وہاں رک گیا۔ میں بھی مجبور تھا کہ ان کے ہمراہ وہاں رکوں۔ ہرچند میرا من وہاں رکنے کا نہیں تھا لیکن ان لوگوں کے وہاں ٹھہر جانے کی وجہ سے میں مجبور تھا کہ کچھ دن رکوں اور اس کے بعد فاو کو ترک کروں۔  وہ جوان جنہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ اڑنا چاہتے ہیں اور ہم نے ان کو اجازت نہیں دی تھی میں نے ان کو بھی یہاں دیکھا کہ ایک دوسرے پر پانی ڈال رہے ہیں دراصل وہ غسل شہادت کر رہے تھے۔ میں نے کہا: ہم تو اب واپس جارہے ہیں سو اس غسل کی کیا جلدی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہم آج رات ہی پرواز کریں گے۔ میرا دل ان کی جانب جھک گیا اور یقین ہوگیا کہ آج کوئی واقعہ رونما ہوگا۔ رات کے کوئی ۲ بجے ہونگے میں بیدار ہی تھا اور سوچ رہا تھا کہ سو جاؤں۔ سو اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ ابھی نیند آنکھوں سے دور تھی کہ چند مارٹر گولوں کی آواز آئی میں چونک کر اٹھا اور مورچہ سےباہر آیا  تو دیکھا کہ وہ تینوں جوان جام شہادت  نوش کر چکے تھے۔  یہ مورچہ دراصل اسکاوٹس کا مورچہ تھا مارٹر گولہ ان کے جسموں کے درمیان میں لگا تھا اور وہ یوں اپنی مراد کو پاکر پرواز کر گئے تھے۔ بعد میں جب ہم ان کے گھر والوں سے ملے تو معلوم ہوا کہ   ایک لڑکا آقا سید رضا موسوی  کے تھے اورسادات شاہرود سے ان کا تعلق تھا۔ ان کی  والدہ نے بتایا  کہ جاتے وقت ہی وہ کہہ گیا تھا کہ میں شہید ہونگا۔

بہت سےلوگوں کا خیال ہے کہ اس دور کے جوان آج ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ زمانہ اب لوٹ کر نہیں آسکتا، وہ جوان گئے اب سب ختم ہوچکا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرحدی نگہبانوں میں ہم آج بھی ایسے جوان پاتے ہیں حتی کہ نوجوان بھی  دیکھے ہیں ویسے ہی نوجوان جیسے ۴۰ سال پہلے تھے۔

میں کچھ عرصہ  پہلے  معاہدات  میں ڈپٹی تھا۔ مجھے تحقیقات کے لئے سفر کرنا پڑا۔ اتفاق سے اسی  فکہ کے علاقے میں آیا جہاں پر ہم نے والفجر  کے ابتدائی آپریشن انجام دئیے تھے۔ میں وہاں سرحد پر تھا سرحدی آپریشن تھا۔ بارودی سرنگ میں پھنس گیا تھا۔ علاقہ بے انتہا گرم تھا۔ پیاس سے برا حال تھا۔ نہ آگے جانے کا راستہ تھا نہ پیچھے ہٹنے کا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ جوان ایک دو کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں اور ایمنولینس بھی لے آئے ہیں کہ ہم زخمی ہوجائیں تو ہمیں پیچھے لے جاسکیں۔ مجھے نہیں معلوم کو کس طرح سے یہاں آنا چاہتے تھے۔ کیونکہ یہ بارودی سرنگوں سے پر علاقہ تھا اور کوئی بھی یہاں نہیں آسکتا تھا۔ مجھے تو خود معلوم نہیں تھا کہ بارودی سرنگیں ایسی ہوتی ہیں۔ اتنا تو پتا تھا کہ یہاں بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں مگر اس قدر شدید اور اتنی زیادہ ، یہ مجھے معلوم نہ تھا۔  عراقی بارودی سرنگیں بہت منظم ہوا کرتی تھیں یعنی اگر ایک طرف ایک ڈرم بھر بارودی مواد ہے تو اس کے اطراف میں والمر کی سرنگیں ہونگی اور درمیان میں  ts50 or ts 70  ہوگی۔ مگر یہاں کی بارودی سرنگوں کا عالم ہی عجب تھا۔اوپر سی گرمی کی شدت سے جسم خشک ہوا جاتا تھا۔

میں نے دیکھا کہ ایسے عالم میں ایک جوان شاید ۱۹ سال کا ہوگا، سنبھل  کر قدم اٹھاتا ہوا میری جانب آیا اور پانی کی بوتل مجھے دی۔ میں نے پوچھا: کیوں آئے ہو؟  اس نے کہا: میں بہت سوچا اور اس  نتیجہ پر پہنچا کہ اگر میں آپ کے پاس نہ آیا تو در حقیقت میں ایک ایرانی نہیں ہونگا، ایک مسلمان نہیں ہونگا ، ایک سرحدی محافظ نہیں ہونگا۔

بلا شبہ ایسے ہزاروں نوجوان اب بھی ہیں۔  ہمارے عزیز بھائی محترم کیپٹن رسول طالبی صاحب جن کو آپ ہیڈ کوارٹر والے پہچانتے ہی ہونگے، اسی ہیڈ کوارٹر میں  ہوتے تھے۔ وہ جناب کیپٹن خاتمی کے سپاہی تھے۔ وہ واقعی ایک بہادر سپاہی تھے ہمیشہ کہتے تھے کہ جس جگہ زیادہ مشکل حالات ہوں وہاں مجھے بھیجو میں ضرور جاؤں گا۔ وہ کچھ مدت سیستان میں رہے پھر ہرمزگان گئے، ہرمزگان سے دوبارہ سیستان پلٹے۔  سیستان میں درروتک کے مشکل ترین آپریشن میں حصہ لیا  اور بالآخر درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔ سرحدوں پر ایسے بہت سے جوان موجود ہیں۔

ہم آپریشن مرصاد میں ایک مولانا صاحب  کی خدمت میں تھے۔ گو کہ اس وقت وہ طالب علم نہیں تھے مگر ان کا کو بطور مبلغ بھیجا گیا تھا اور وہ سرحد پر آتے جاتے رہتے تھے۔ وہ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ میں اکثر جنگ کے دوران ملنے والے جوانوں کو یاد کرتا ہوں۔ ایک دن میں نے ان کو فون کیا اور پو چھا کہاں ہوتے ہیں آجکل؟ کہنے لگے: کردستان میں ہوں اور میری خاطر یہاں جھگڑا  کھڑا ہو گیا ہے۔ میں نے کہا: واہ واہ یعنی آپ کی گفتگو اس قدر  بہترین ہے کہ جوان آپ سے مرعوب ہیں اور آپ کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں ۔ بہت خوب خدا آپ  کو محفوظ رکھے۔ آپ نے بہت محنت کی ہے۔ انہوں نے مزاح میں کہا: نہیں بھائی، اس لئے جھگڑا نہیں ہے بلکہ رمضان کا مہینہ ہے اور میں ایک اچھا باورچی بھی ہوں ۔ سو اب مجھے اس  اسٹیشن سے اسٹیشن  اور پھر وہاں سے یہاں آنا جانا پڑتا ہے کھانا پکانے۔ یہ ہے جھگڑا۔

میں نے پوری کوشش کی ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے جو بھی بیان کروں وہ من و عن بیان کروں۔ بغیر کسی کمی زیادتی کے۔ بغیر مصالحہ لگائے۔ جو واقعات میں نے بیان کئے ہیں یقین جانئے  انہی واقعات جیسے واقعات ہر روز سرحدوں پر رونما ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے سرحدی نگہبان ہمارے انہیں فوجی جوانوں کی راہ پر گامزن ہیں جو  ۴۰۔ ۴۲ سال پہلے موجود تھے۔

 

 

 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2772



http://oral-history.ir/?page=post&id=10368