325ویں یادوں  بھری رات  (پہلا حصہ)

سرحدی محافظ۔۱


تدوین: ایران کی تاریخ شفاہی کی سائیٹ
ترجمہ: صائب جعفری

2021-12-16


یادوں بھری رات کا ۳۲۵واں  پروگرام  مورخہ ۲۴ جون ۲۰۲۱ کو حوزہ ہنری میں منعقد ہوا جس کی میزبانی داؤد صالحی نے کی۔ اس پروگرام کا موضوع ’’ سرحدی محافظ‘‘ تھا۔ اس پروگرام میں بریگیڈئیر جنرل جلال ستارہ صاحب، کرنل ابوالقاسم خاتمی اور ناجا کے ثقافتی مشیر علی کاظم حسنی نے شرکت کی اور اپنے تاثرات اور تجربات بیان کئے۔

اس پروگرام کے میزبان نے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے بعد  کہا: میں چاہتا ہوں آج کے پروگرام میں مسعود نارویی کے بارے میں بات ہو۔ وہ مسلح شیاطین کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے اور ساتھ میں اپنے تین بیٹوں کو بھی اس راہ میں قربان کیا تھا۔ اس کے علاوہ شہدائے ملت ، شہید محمد احمدی، شہید محمد رسول خاتمی، شہید علی بیرامی، ساسال امیر خانی اور محمد رؤف  کا تذکرہ ہو، اس کے ساتھ ساتھ ان دسیوں شہیدوں کی یاد منائی جائے  جنہوں نے اسلامی مملکت کے امن و امان اور حفاظت کی خاطر پروانہ وار اپنی جان فدا کی۔ اس کے بعد رہبر معظم انقلاب  سید علی خامنہ ای حفظ اللہ کی تقریر نشر کی گئی۔

میزبان نے کہا: آپ سب اپنے بچوں کو بلا جھجھک مدرسہ بھیجتے ہیں۔ بغیر کسی خوف و خطر کے۔ آپ خود گھر سے دفتر، دفتر سے گھر اطمینان سے سفر کرتے ہیں۔ پارکوں میں گھومتے ہیں، بیٹھتے ہیں ، کسی ڈر اور خوف کے بغیر۔ احتجاجی ریلیاں نکالتے ہیں بنا کسی حذر کے۔ یہاں اب کوئی ناامنی  کا احساس نہیں کرتا۔ سب یہاں سکون سے زندگی گذار رہے ہیں۔ کیا کبھی یہ احساس کیا کہ وہ لوگ جو سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہیں اور سینہ سپر ہیں تاکہ دشمن  ہماری سرزمین  میں داخل  نہ ہو سکے، ان پر کیا گذرتی ہے وہ کیسے زندگی  گذارتے ہیں؟ جی ہاں عوام  اس سے بے خبر ہیں۔ بلا شبہ ہمارے سرحدی محافظین کے شہداء بہت مظلوم ہیں۔

سرحدوں پر ہزاروں بکھیڑے ہیں۔ یہ ہمارے سرحدی محافظ ہی ہیں جو ساری مشکلات کا سامنے کرتے ہیں اور سرزمین مقدس کا دفاع کرتے ہیں۔ اگر یہ محافظ نہ ہوں تو ہزاروں کلو منشیات سرحدوں سے ہمارے ملک میں آجائے جس کا ایک ایک کلو ہمارے ہزارہا جوانوں کی زندگیاں برباد کر سکتا ہے۔ کون ہے جو اس راہ میں رکاوٹ ہے؟ یقیناً یہ ہمارے سرحدی محافظین ہی ہیںْ

میزبان نے مزید کہا:  بعض  لوگ اس غلط گمانی میں ہیں کہ دفاع مقدس[1] کے ختم ہونے کے ساتھ ہی جہاد اور شہادت  کا باب بند ہوگیا ہے۔ لیکن ہمارا وطن عزیز ، ۱۵ ممالک کے ساتھ ۸ ہزار سات سو ۵۵ کلو میٹر کی سرحدیں رکھتا ہے۔ ان سرحدوں پر ہمارے جانباز سپاہی متعین ہیں جو شب و روز دشمنوں کے ساتھ  جنگ و جدال میں مصروف ہیں تاکہ ہمارے لئے امن و سکون مہیا کر  سکیں۔

ضروری نہیں کہ ہر دشمن، جنگی دشمن ہو۔ یہ دشمن اسمگلر بھی ہو سکتے ہیں۔ دشمن کے جاسوس بھی ہو سکتے ہیں۔ دہشت گرد اور دوسری انواع و اقسام کے دشمن بھی ہو سکتے ہیں۔اہم یہ ہے کہ ہمارے یہ جانباز سرحدی محافظ کہیں سرد پہاڑوں پر، کہیں گرم ریگستانوں میں، کہیں دشوار گذار راستوں پر،کہیں ہر قسم کی بنیادی ضرورتوں سے عاری وادیوں میں ، اپنی جان ہتھیلی پر رکھے وطن عزیز کے دفاع  کے لئے مورچہ لگائے بیٹھے ہیں۔

اسی کے ساتھ میں اب دعوت دونگا اپنے  ایسے محترم مہمان کو جو محض تیسری جماعت میں تھے جب وہ پہلی بار مورچہ پر گئے تاکہ میدان جنگ سے مکمل آشنا ہوں اور جان کی بازی لگانے کا ہنر سیکھیں اور بعد میں آپریشن مرصاد میں میڈل اپنے سینہ پر سجائیں۔ میں

بہت ہی افتخار کے ساتھ دعوت دیتا ہوں  بریگیڈئیر جنرل ۲ جناب جلال ستارہ صاحب کو۔

جلال ستارہ صاحب نے  سامعین کو سلام کرنے کے بعد کہا: بسم اللہ الرحمان الرحیم،  میں آج بہت خوش ہوں۔ مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ میں سرزمین مقدس کے سرحدی محافظین کے خاندانوں کے روبرو ہوں۔ ہمارے بہت سے لوگ ہیں جو ہر بار کی جنگ یا مذاکرات کے بعد ہماری خاک وطن کے ایک ٹکڑے کے جدا ہوجانے کے باعث اب ہمارے ہم وطن نہیں رہے(سوائے جمہوری اسلامی بننے کے بعد ، کہ اس کے بعد ہمارے وطن کا کوئی حصہ ہم سے جدانہیں ہوا)۔

میں سب سے پہلے اپنی زمین کے اس حصہ کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو پہلوی حکومت کے دور میں ہم سے جدا ہو گیا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ ایسے بہت سے حقائق سے ہمارے اکثر سننے والے بے خبر ہیں۔ ہمارے ملک کا وہ حصہ جو سب سے پہلے ہم سے جداس ہوا وہ ارارات کا چھوٹا سا علاقہ تھا۔  اسکی شکل دو مثلثوں کی سی تھی جو ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ دونوں مثلثیں چشمہ ثریا سے ملتی ہیں۔دراصل اس سے قبل ترکی کی کوئی سرحد آذربائیجان سے نہیں ملتی تھی جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران ارمنستان اور جشمہ ثریا کے ذریعہ آذربائیجان کا پڑوسی تھا اور آرارات بھی ایران کا ایک حصہ تھا۔

ہم معاہدوں میں پڑھتے ہیں کہ ترکمانستان کے ساتھ ایران کی سرحد ، دریائے اترک تک پھیلی ہوئی تھی۔ آج اس کا ایک حصہ ہم سے جدا ہوچکا ہے اور دریائے قاسم خانی میں جا پڑا ہے۔ شاید بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ پرانا سرخس، ایران کا جزو لاینفک شمار ہوتا تھا، مگر آج وہ ایران کاز حصہ نہیں اور روسی فیڈریشن کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں ہمارے ہاتھ سے نکلا ہے۔ شہر فیروزہ بھی ایران کا حصہ تھا ، اسی طرح کے اور بھی دیگر قصہ ہیں۔ افغانستان میں شامل سرحدی زمین کا ایک حصہ  جو تقریبا ۳۰۰ ہیکٹر پر پھیلا ہوا تھا اور ان میں ۱۱ کاریزیں تھیں ہم سے جدا ہوا۔ خدا کا شکر ہے کہ اسلامی جمہوریہ   ایران کے وجود میں آنے کے بعد ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوسکا۔ ہر چند دشمن نے اپنے تئیں بہت زور مارا کہ ایران کے علاقوں پر قبضہ کرلے اور تمام دنیا نے ہی اس کی مدد کی مگر وہ اپنے شوم مقاصد حاصل نہ کر سکا۔  حتی ایک بالشت زمین ایران سے نہ چھین سکا۔ یہ ہمار افتخار ہے جس کے لئے ہم اپنے فوجی جوانوں کے مقروض ہیں۔

میں اس بات پر زیادہ حاشیہ چڑھانا نہیں  چاہوں گا کیونکہ میرا ارادہ ہے کچھ اور واقعات آپ کی نذر کروں۔

میں پہلی بار جب جنگ پر گیا تو وہ زمانہ آپریشن محرم کے بعد آپریشن والفجر کا ابتدائی دور تھا۔ میں ۱۷ سال کا بھی نہیں  تھا سو ایک شیطان و شریر نوجوان تھا۔شروع شروع میں ابتدائی طبی امداد کے ڈپارٹمنٹ  میں تھا۔ یہاں میں نے مدد رسانی کا ایک عرصہ گذارا اور پھر میدان جنگ کو روانہ ہو گیا۔  میں زلیجان  کی چٹانوں کے پیچھے تھا ۔ آج یہ علاقہ فکہ تک پھیلا ہوا ہے۔ وہاں ہم ہر صبح صبح کی پریڈ کرتے تھے۔ ہم  ان مٹی کی چٹانوں  پر جاتے اور واپس آتے تھے۔ یہاں ایک انجان آدمی تھا اور میرے لئے اچھا موقعہ تھا کہ اس کے ساتھ مذاق کروں۔ یہ خدا کا بندہ جب دوڑنا شروع کرتا تو ہم اس کو تنگڑی دے کر گرا دیتے تھے۔ وہ اٹھتا مٹی جھاڑتا اور پھر دوڑنا شروع کر دیتا تھا۔ ہم دوبارہ اس کودھکا دے کر گرا دیتے تھے۔ مختصر یہ کہ ہم اسے خوب خوب ستاتے تھے۔ وہ انسان صرف ہمیں دیکھتا مسکراتا اور دوبارہ دوڑنے لگتا تھا، کچھ بھی نہ کہتا تھا۔

ہم پریڈ سے واپس ناشتہ کرنے آئے  تو معلوم ہوا کہ   شہر کا نیا ناظم آیا ہوا ہے اس کے لئے ناشتہ تیار کرنا ہے۔ دسترخوان بچھایا چائے اور ناشتہ چنا سب نے مل کر ناشتہ کیا۔  خدا سب کو بلا سے محفوظ رکھے، ایک دو دن ہی گذرے ہونگے کہ ہم سے کہا گیا کہ  بریگیڈ کے سربراہ آج خطاب کریں گے۔ ہم خطاب سننے پہنچ گئے۔ دیکھا کہ وہ اجنبی جس کو ہم طرح طرح سے ستایا تھا وہی ہماری بریگیڈ کے سربراہ  مرحوم  محمد آقا بنیادی تھے جو حضرت معصومہ بریگیڈ کے سربراہ تھے۔ ہمارے پیروں سے زمین ہی نکل گئی تھی۔  ہم ایک دوسرے کے پیچھے چھپ رہے تھے کہ کہیں  کمانڈر صاحب ہمیں پہچان نہ لیں۔ ہم یہ بھی گمان کر رہے تھے کہ شاید وہ ہمیں جانتے نہیں ہیں۔

دو تین ہفتہ بعد بٹالین کمانڈر آئے اور ہمارا تعارف کروایا۔ وہ ہم سے چند قدم کے فاصلے پر تھے ان سے  کہا کہ فلاں صاحب  رضا کار ہیں ۔ پھر میرا نام لیا۔ بنیادی صاحب نے کہا: جی جی میں ان سے مل چکا ہوں۔ یہاں ہم نے جانا کہ وہ ہمیں بھولے نہیں ہیں لیکن واقعاً ان کی ہمت تھی کہ کبھی انہوں نے ہماری حرکتوں کا ذکر نہیں کیا نہ ہم پر غصہ ہوئے۔ ان کا یہ صبر و حوصلہ سبق ہے ہمارے ذمہ داروں اور کمانڈرز کے لئے۔

اسی والفجر کے ابتدائی آپریشن میں تین نوجوان اور بھی تھے جو عمر میں مجھ سے بھی چھوٹے تھے۔ آپریشن شروع ہوا تو ہم سب ایک ہی بٹالین میں تھے۔ آپریشن کے دوران ہم ان لوگوں سے آگے نکل گئے تھے کچھ عرصہ بعد واپس پلٹے تو دیکھا ان میں سے ایک فرد شدید زخمی ہے اور باقی دو اس کو پیچھے لا رہے ہیں۔ اس آپریشن میں ہمیں پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ ان لوگوں نے مجھ سے کہا میں ان کی مدد کروں مگر میں نے جواب دیا مجھے دوسرے زخمیوں کو طبی امداد دینی ہے سو تم جانو اور تمہارے ساتھی۔

کافی عرصہ گذر گیا تھا اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان تین دوستوں  پر آخر کیا گذری۔در اصل میں دوسرے زخمیوں کو پیچھے لانے پر مامور تھا۔ ایک ہفتہ بعد ہی دوسرا آپریشن شروع ہوگیا۔ میں دیکھا کہ یہ جوان محاصرہ میں  تھے ان کے پاس اسلحہ تھا اور مسلسل لڑ رہے تھے یہاں تک کہ اس آپریشن میں دشمن کے محاصرہ کو توڑ دیا ۔ یہ ہم سب کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ ان دوستوں نے اپنے ساتھی کو چھوڑا نہیں تھا  وہ چاہتے تو زخمی کو وہیں چھوڑ کر با آسانی واپس آ سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کا یہ ایثار اس بات کا سبب بنا کہ سب لوگ ان کے قریب ہوگئے۔ اگلے آپریشن میں میں بھی ان تینوں کے ساتھ تھا واقعی وہ بہت ہی اچھے لوگ تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


[1] ایران عراق کی ۸ سالہ جنگ


سائیٹ تاریخ شفاھی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2126



http://oral-history.ir/?page=post&id=10275