آیت اللہ عبداللہ محمودی کے واقعات سے انتخاب

ایران عراق جنگ کا آغاز

انتخاب کنندہ: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2021-12-01


مسلط کردہ جنگ کے ابتدائی ایام میں یعنی جنگ شروع ہونے کے ۸ روز بعد  تک تو میں نے اپنے خاندان کو گھر میں محصور رکھا لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ یہ جائز نہیں کہ اس سے زیادہ اس شہر میں رہا جائے۔ دشمن کے گولے اور بم ژالہ باری  کے اولوں کی طرح گھروں میں داخل ہو رہے تھے۔ سو مجھ پر واجب تھا کہ اپنے گھر والوں کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کروں۔ میں نے انہیں شیراز بھجوا دیا تاکہ وہاں سے وہ لوگ قم چلے جائیں ۔ میں خود ٹریفک پولیس کے پاس چلا گیا۔ ان دنوں ٹریفک پولیس کا محکمہ فوجیوں کی چھاؤنی بنا ہوا تھا بلکہ غیر مسلح افراد کے لئے بھی پناہ گاہ تھا۔ عراقی فوجیں سرحد عبور کر چکی تھیں  اور ایک آدھ گاؤں پر قبضہ کرکے اہواز کی شاہراہ تک آ چکی تھیں۔ ہم ٹریفک پولیس میں منصوبہ بندی میں مصروف تھے ۔ اسی اثناء میں ہمیں معلوم ہوا کہ عراقی فوج کے چار ٹینک خرم شہر ۔اہواز ہائی وے عبور کر چکے ہیں اور شہر کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس وقت جو اسلحہ ہمارے پاس موجود تھا اس میں  G3 اور  شوٹ گنیں اور پستولیں تھیں۔ ہمارا سب سے مہم ہتھیار یہی شوٹ گنیں تھیں۔ میں نے سوچا کہ ایسا کچھ کرنا چاہئے تمام قوتیں پرجوش ہوجائیں اور مزاحمت کریں۔ سو میں نے پستول سے ٹینک پر فائر کرنا شروع کر دئیے۔  اس وقت میں جوان تھا اور پھرتیلا بھی سو فائر کرنے کے ساتھ ادھر ادھر دوڑ بھی جاتا تھا ۔ میرا یہ کام پر اثر ثابت ہوا اور باقی فوج نے بھی گولیاں برسانی شروع کردیں۔  ہمارے سامنے پشتہ تھا جوانوں نے خود کو پشتے تک پہنچایا و ٹینک کا نشانہ لیکر فائرنگ شروع کی۔ عراقیوں نے جب یہ منظر دیکھا تو گولہ باری نہیں کی بلکہ عقب نشینی کو ترجیح دی۔ ان کی جوابی گولہ باری سے اجتناب سے میں سمجھا کہ وہ شیعہ ہونگے اور ہمیں ہدف بنانا نہیں چاہتے۔ اگر وہ دو گولے ہی داغ دیتے تو ہم ایک بڑے المیہ سے دوچار ہوجاتے۔بہر حال ٹینک شمال کی جانب سے آئے تھے واپس شمال کی طرف پلٹ گئے۔  اہواز کی شاہراہ کو عبور کرکے وہ ریلوے لائین سے بھی گذر گئے اس کے بعد ایک گڑھا تھا ہر چند اس وقت وہ گڑھا پانی سے خالی تھا مگر اس میں کیچڑ بہت تھی۔ دو عراقی ٹینک اس کیچڑ میں پھنس گئے اور کے سوار ٹینک کو چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ہمارے جوان اور بھی دلیر ہوگئے اور عراقیوں کے تعقب میں گئے۔عراقیوں نے جس گاؤں پر قبضہ کیا تھا اس کو بھی خالی کردیا اور وہ گاؤں دوبارہ ہمارے کنٹرول میں تھا۔ معلوم  نہیں کیوں مگر وہ لوگ   شلمچہ کا فوجی اڈہ بھی خالی کر گئے تھے۔ ہماری تعداد لگ بھگ دو سو افراد کی تھی اس  میں سے اکثر افراد کانسٹیبلری کے جوان تھے۔  دژ کی بیرک کے جوان اس وقت علاقے میں موجود  نہیں تھے۔ لڑائی گھمسان کی تھی۔ ہمیں ایک دو تین منزلہ عمارت مل گئی تھی جو کافی مضبوط تھی ہم اسی میں پناہ گزین تھے۔ جس وقت ہمارے جوان شلمچہ کے فوجی اڈے سے واپس پلٹے  تو انہوں نے کہا کہ ہ نے شلمچہ  کے اسٹیشن پر ایران کا پرچم لگا دیا ہے۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا: یہ کام اسی وقت موثر ہوسکتا تھا کہ وہیں پر مورچہ بندی کرکے ٹھہر جاتے۔ میں نے کرنل رضوی سے ان دو ٹینکوں کے بارے میں بھی گفتگو کی کہ اگر انہیں ہم کسی طرح حاصل کرلیں تو اچھا ہے  کیونکہ ہمیں ان کی ضرورت بھی ہے۔  اگر نہیں تو ان کو وہیں پر کسی بھی طرح تباہ و برباد کیا جائے تاکہ کسی بھی صورت میں دوبارہ عراقیوں کے ہاتھ نہ لگنے پائے۔  کرنل رضوی نے اس وقت تو رضا مندی کا اظہار کیا اور کہا اچھا کچھ کرتے ہیں مگر کچھ نہ کیا ، نہ ٹینک خود لائے نہ ان کو خراب کیا جس کی وجہ سے عراقی رات میں کسی وقت آکر اپنے ٹینک نکال کر لے گئے۔

عراقیوں کی دوبارہ پیش قدمی

رات کے وقت عراقیوں نے دوبارہ پیش قدمی کی اور پچھلی بار سے زیادہ آگے تک آگئے۔ جھڑپیں جاری تھیں۔ تقریبا مہر کے مہینہ کی دس تاریخ تھی کہ عراقی نخلستان کی طرف سے اندر داخل ہوئے اور بہت حد تک بندرگاہ پر قبضہ کر لیا۔ اب بندرگاہ اور کسٹم میں کوئی باقی نہ بچا تھا۔ سب چلے گئے تھے۔

بس عوامی طاقتیں تھیں جنہوں نے کسٹم کے اردگرد مورچہ بنایا ہوا تھا اور عراقیوں نے نبرد آزما تھیں۔ ہمارے جوان بھی RPG7 & G3 لئے عراقفٍٍیوں سے لڑ رہے تھے کہ ہمارے پس اس کے سوا اسلحہ نہ تھا جبکہ عراقی جدید اسلحہ سے لیس تھے۔ اس زمانے میں تقریبا  پچاس ساٹھ طالب علم  ہمارے ہمراہ تھے اور عراقیوں سے مقابلہ کر رہے تھے۔  جوان مسلسل دفاع میں مصروف تھے اور سب کی خواہش یہی تھی کہ  عراقی افواج اس سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکیں  اور سارا خرم شہر ان کے قبضہ میں نہ چلا جائے اور پوری بندر گاہ پر ان کا قبضہ نہ ہونے پائے۔ بندر گاہ کا طول تقریبا ایک کلو میٹر تھا۔یہ بندر گاہ ایران کی اہم ترین بنیادوں میں  شمار ہوتی تھی کسٹم بھی بندرگاہ کے ساتھ ہی تھا جس میں کافی مقدار میں قیمتی سامان موجود تھا۔ گاڑیوں سے لے کر غذائی اجناس، لباس  اور لوہے کے سامان تک بہت کچھ کسٹم میں موجود تھا۔ ہم نے  فیصلہ کیا کہ یہ ممکن نہیں کہ ہم تمام سامان کو منتقل کر سکیں تو کیوں نہ وہاں موجود گاڑیوں کو استعمال میں لایا جائے۔ انواع و اقسام کی ایرانی اور باہر کی گاڑیاں کسٹم میں موجود تھیں۔ اس کام کے لئے فدوی نے ایک خط کے ذریعہ دو افراد اس بات کی اجازت دی کہ ہم کسٹم میں موجود سامان اور بندر گاہ میں موجود اموال کو منتقل  نہیں کرسکتے اس لئے یہ سارا سامان معرض خطر میں ہے اور کسی بھی وقت تمام کا تما م عراقیوں کے قبضہ میں چلا جائے گا سو میں تم دو افراد کو یہ ذمہ داری سونپتا ہوں کہ جیسے بھی بن پڑے جتنی بھی گاڑیاں بندر گاہ سے باہر نکال سکتے ہو نکال لو تاکہ یہ مال غنیمت بن کر عراقیوں کی خوراک نہ بن جائیں۔ ان دونوں افراد نے تمام تر مشکلات اور نامساعد حالات کے باوجودیہ ذمہ داری قبول کر لی ۔ وہ جس وقت بندر گاہ میں داخل ہوئے  کہ گاڑیاں باہر نکال سکیں محترم جہان آراء نے انہیں دیکھ لیا اور ان سے پوچھا یہاں کیا کرنے آئے ہو؟ انہوں نے میرا خط  انہیں دیا۔ شہید جہان آراء نے بھی اس رائے اور کام کو قبول کر لیالیکن کہا آج حالات بہت خطرناک ہیں کل تک صبر کرو ہم بندر گاہ کو آزاد کرا لیں گے اس وقت تم لوگ گاڑیاں لے جانا۔  وہ دونوں افراد جہان آراء صاحب کی بات سن کر پلٹ آئے لیکن اگلے دو دنوں میں منظر ہی بدل گیا ۔ بجائے اس کے کہ ہماری افواج بندر گاہ کو آزاد کراتیں بندر گاہ اور کسٹم سب کا سب عراقیوں کے  تسلط میں  آگیا  اور یوں وہ تمام سامان اور گاڑیوں پر قابض ہوگئی۔

آہستہ  آہستہ خرم شہر کا محاصرہ تنگ ہوتا چلا گیا ۔ بندر گاہ اور کسٹم کے ساتھ ہی  تنظیماتی عمارتیں  جو شہر سے کوئی ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر تھیں سب عراقیوں کے قبضہ میں چلی گئیں۔ دوسری طرف پل اور حمام بھی عراقیوں کے قبضہ میں چلے گئے۔ ہمارے جوان اندروں شہر، خرم شہر کے دفاع میں مشغول تھے۔ شہر سے باہر ہمارے جوان نہیں تھے۔ اس دوران ہم نے جس قدر بھی امداد کی درخواست کی اور تازہ دستوں کے لئے روابطہ کئے سب بے سود رہے۔ اس زمانے میں بنی صدر اہواز آیا ہوا تھا۔ ہم دو افراد کی ذمہ دادری تھی ہم اہواز جاکر بنی صدر سے ملاقات کریں اور اس سے درخواست کریں کہ کم از کم کچھ توپ کے گولے اور مارٹر گولے ہی ہمیں دے دئیے جائیں۔  بنی صدر نے جواب دیا کہ کہ یہ گولے اور مارٹر کوئی ٹافیاں ہیں جو تمہیں دے دی جائیں۔ یوں ہم وہاں سے خالی ہاتھ پلٹ آئے۔ اصفہان جو توپ خانوں کے لئے مصروف ہے ، وہاں کی توپیں خرم شہر کے دفاع کے ئے روانہ ہو چکی تھیں  مگر ان توپوں کو خرم شہر سے  پچاس ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر شادگان کے مقام پر روک لیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ابھی ااگے بڑھنا مناسب نہیں ہے۔ ہم نے جاکر ان کے لیڈر سے بات کی اور کہا: آپ لوگ یہاں کیوں آئے تھے؟ انہوں نے کہا: خرم شہر کا دفاع کر نے۔ ہم نے کہا: تو پھر یہاں رک گئے  ہو؟ خرم شہر سخت محاصرہ میں ہے اور سقوط کیا ہی چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا: ہم کیا کریں ہم تو آئے تھے مگر اب ہمیں آگے جانے کی اجازت ہی نہیں مل رہی۔  وہ ڈر مارے یہ کہنے سے قاصر تھے کہ بنی صدر نے ان کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے۔  قلعہ کی بیرک کے پاس بھی صرف آٹھ ٹینک تھے وہ بھی نخلستان میں چھپائے ہوئے تھے۔ جب ہم نے ان سے استفسار کیا کہ ان ٹینکوں کو استعمال کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے کہا کہ  ٹینک خراب ہیں۔  ہمیں بھی انجینئیر تو تھے نہیں جو جان پاتے کہ وہ سچ کہہ رہیں جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے بعض افراد کہیں کہ دشمن کی جانب سے ایرانی فوج میں شامل کی گئی نکالی بھیڑیں  دفاعی عمل میں خلل اندازی کر رہی ہونگی، مگر میرا اعتقاد یہی ہے کہ وہاں دشمن کے جاسوس اور کالی بھیڑوں کا کوئی مسئلہ نہیں تھا  بلکہ مسئلہ وہی تھا جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ خیانت بنی صدر کر رہا تھا۔ ہمارے جوان ان دستورات کی وجہ سے جو ان کو اوپر سے مل رہے تھے، اپنے حوصلے کھو چکے تھے۔ ان کے پاس جنگی ساز سامان کی کمی تھی جس کی وجہ سے وہ خود کو کمزور سمجھ رہے تھے۔ اسی لئے اکثر جوان کہنے لگے تھے کہ دشمن کے اس قدر جدید اسلحہ کے سامنے ہم کیا کر سکتے ہیں؟

بہر حال خرم شہر ہر طرف سے محاصرہ میں تھا ۔ عراقیوں نے مشرقی جانب سے کثیر تعداد میں ٹینکوں کے ساتھ ہلہ بول دیا تھا اور قلعہ کی بیرک کے نزدیک دریا تک پہنچ گئے تھے۔ یہاں عراقیوں کی فوج میں کوئی  پیادہ نہیں تھا بلکہ سب کے سب ٹینکوں میں سوار تھے۔ اگر ہمارے پاس وہاں سو جوان بھی ہوتے تو  عراقی کبھی بھی دریا پر پل باندھ کر کاروں کو عبور کرنے  میں کامیاب  نہ ہوتے۔  در حقیقت آبادان کا محاصرہ بھی اسی واقعہ کا شاخسانہ تھا۔ عراقیوں نے اپنے سو ٹینک اسی پل سے گذارے۔ ہمیں یہ خبر بھی ملی کہ عراقیوں نے دریا عبور کر لیا ہے اور پاسچورائزڈ دودھ کے مراکز  میں مستقر ہوگئے ہیں۔ ان کا اس علاقہ میں اس مقام پر قیام ہی تھا آبادان کے ضرر میں تھا۔ جنگ کا چودہواں یا پندرہواں روز تھا عراقی شمال کی جانب سے شہر میں داخل ہوئے تھے اور پل نو اور غسل خانوں سے گذرتے ہوئے ریلوے اسٹیشن اور کے بعد خیابان سنتاب تک آگئے تھے  تاکہ کسٹم پر قبضہ کر سکیں۔ شہر کے جوانوں نے بڑی جاں نثاریاں کیں اور فقط آر پی جی سے ہی دشمن کے کئی ایک ٹینکوں کو تباہ کیا اور کئی  عراقی فوجیوں کو اندی نیند بھی سلا دیا جس کے سبب عراقی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے اور پل نوبر کی جانب واپس پلٹ گئے۔ میں نے جامع مسجد  سے درخواست کی مجھے خیابان سنتاب جانے کی اجازت دی جائے۔ میرے دوستوں نے کہا وہاں عراقی ہیں وہاں جانے کا مطلب ہے یا موت یا گرفتاری۔  میں پھر بھی آگے بڑھا کچھ دور گیا تھا کہ خبر آگئی کہ عراقی پیچھے ہٹ گئے ہیں  اور سنتاب خالی ہے میں وہاں پہنچا تو اس خبر کو درست پایا۔ وہاں کچھ ٹینک ابھی بھی جل رہے تھے۔

ہمارے جوانوں نے اس علاقے میں بہت ہی شجاعت اور دلیری کا مظاہرہ کیا بغیر مناسب اسلحہ کے بھی دشمن کے سامنے ڈٹے رہے اور  اس بات کی اجازت نہیں دی کہ دشمن خرم شہر کو مکمل طور پر  اپنے قبضہ میں لے کر وہاں پر آباد ہوجائے۔ ہر چند عراقی فوج شہر سے نکل چکی تھی مگر خرم شہر اب بھی چاروں طرف سے محاصرہ میں تھا۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ احمدی، محمد رضا، آیت اللہ عبداللہ محمدی کی یادیں، موسسہ فرہنگی و انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، پہلی چاپ،  ۲۰۱۳۔۲۰۱۴، صفحہ ۱۵۱۔

 


ویب سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 1953



http://oral-history.ir/?page=post&id=10247