بانہ کی سرحدی رجمنٹ کے واقعات
تدوین: تاریخ شفاہی ایران کی سائیٹ
ترجمہ: صائب جعفری
2021-12-01
یادوں بھری رات کے ۳۲۵ ویں پروگرام کا انعقاد حوزہ ہنری میں ہوا جس کی میزبانی داؤد صالحی نےکی۔اس پروگرام کا عنوان ’’مسلح افواج کےسرحدی محافظ‘‘ تھا۔ اس پروگرام سے برگیڈیئر جنرل جلال ستارہ، کرنل ابوالقاسم خاتمی، اور سرحدی افواج کے مشیر علی کاظم حسنی نے خطاب کیا۔
اس پروگرام کے تیسرے حصہ کی ابتدا میں میزبان داؤد صالحی نے شہید مردانی کے بارے میں ایک تحریر پڑھی۔ انہوں نے کہا: محمد مردانی اپنے گھرانے کے تنہا چشم و چراغ تھے۔ ان کی تاریخ ولادت امام رضا علیہ السلام کی ولادت کے روز تھے۔ انہوں امام رضا علیہ السلام سے خصوصی عشق تھا۔ وہ جوان تھے اور ایک بار پھر جنگ کے میدان کی جانب جا رہے تھے۔ وہ سیڑھیوں پر کھڑے اپنی جیکٹ کے بٹن لگا رہے تھے اور اسی حال میں انہوں نے اپنی والدہ کی جانب دیکھا اور کہا:’’ اے کاش جنگ پر جانے سے قبل ایک بار اور امام رضا علیہ السلام کی قدم بوسی کا موقع مل جاتا؛ آپ کو نہیں معلوم میرا دل امام رضا کے لئے کس قدر مضطرب ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی والدہ کی پھولدار چادر کا بوسہ لیا اور خدا حافظ کہہ کر چل دئیے۔ دروازہ کے پیچھے والد بزرگوار پھولوں سے لبریز ایک مٹی کی تھالی لئے کھڑے تھے۔ شہید اپنے والد سے گلے ملے اور ان کے کان میں کہا کہ میں آپ کو بہت یاد کر وں گا۔ میں چاہتا تھا کہ جنگ پر جانے سے پہلے ایک بار پھر ہم سب مل کر امام رضا علیہ السلام کی زیارت کو جاتے۔ لیکن کوئی بات نہیں ان شاء اللہ میں واپس آؤں گا پھر مل کر چلیں گے۔
قصہ مختصر آپریشن کی رات جو بھی محمد سے ملا اس نے یہی جملہ سنا کہ میں امام رضا علیہ السلام کی یاد میں بے قرار ہوں۔ محمد مردانی اسی رات کردستان کے آپریشن میں شہید ہوگئے۔ ان کی والدہ کہتی ہیں میں اپنے کمرے میں نماز پڑھ رہی تھی، ابھی نماز ختم ہی ہوئی تھی کہ دروازہ کی گھنٹی بجی میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میں دروازہ کی جانب بڑھی، دیکھا محمد کے دو دوست آئے ہیں۔ انہوں نے کہا: محترمہ آپ کے بیٹے نے جام شہادت نوش کر لیا ہے اگر ان کا دیدار کرنا چاہتی ہیں تو معراج الشہدا تشریف لے آئیے۔ صبح ہوتے ہی ہم سب معراج الشہدا گئے لیکن جس شہید کے میت ہمارے سامنے تھی وہ محمد نہیں تھا۔ ہم نے مامور افسر سے کہا کہ یہ ہمارا محمد نہیں ہے۔ سب ورطہ حیرت میں پڑ گئے۔ افسر نے ادھر ادھر فون کرنا اور وائرلیس پر گفتگو کرنا شروع کر دی۔ وہ خود کافی پریشان ہوگیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ شہید کے والد اور والدہ کے سامنے آ یا اور سر کو جھکا کر کہا: ہمیں معاف کردیں ایک غلطی ہوگئی۔ آپ کے بیٹے کی میت علی ابن موسیٰ رضا رجمنٹ کے ہمراہ مشہد چلی گئی ہے ۔ خدا کے لئے ہمیں بخش دیں یہ سب غلطی سے ہوا ہے۔
شہید کے والد کی ہچکیاں بندھنے کو تھیں مگر انہوں نے خود کو سنبھالا اور افسر سے کہا : نہیں میرے بیٹے آپ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کی اپنی خواہش تھی کہ جنگ پر جانے سے پہلے وہ امام رضا علیہ السلام کا زائر بن جائے سو اس کو امام نے بلا لیا۔
ہم کافی عرصہ بعد مشہد گئے اور چاہا کہ اپنے بیٹے کی میت کو اپنے شہر لے آئیں تو معلوم ہوا کہ محمد نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ اگر ممکن ہو تو مجھے شہر مشہد میں میرے آقا و سردار امام علی ابن موسیٰ رضا علیہم السلام کے جوار میں دفن کرنا۔ اس وقت ہم پر کھلا کہ یہ عشق دو طرفہ عشق تھا۔
صالحی نے مزید کہا: جس وقت ہم سرحدی محافظین کی بات کریں اس وقت ہمیں ان ممالک کی جانب بھی دیکھنا چاہئے جو اپنی سرحدوں کی اچھی طرح حفاظت کرنے پر قادر نہیں ہیں جس کی وجہ سے دہشت گرد عناصر نے سرحدی شہروں اور دیہاتوں کے امن و امان کو تباہ کر دیا ہے تاکہ اس ملک میں داخل ہو سکیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں سرحدی نگہبان عطا کئے ہیں جن کی وجہ سے ہم نا صرف دارلحکومت اور بڑے شہروں بلکہ سرحدی علاقوں میں بھی امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اس کے بعد میزبان نے ناجا کے ثقافتی مشیر علی کاظم حسنی رایگانی صاحب کو خطاب کی دعوت دی۔
حسنی صاحب نے سلام کے بعد کہا کہ وہ ایک ریٹائرڈ کرنل ہیں جنہوں نے تیس سال اور تین مہینہ فوج میں خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جبکہ دہ فجر کی خوشبو سے ہمارے ملک کی فضا معطر ہے میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ پر میں بھی کچھ روشنی ڈالوں۔
کرامت ، کَرَم سے ماخوذ ہے جس کے معنی عزت و شرافت کے ہیں۔ جس وقت اس لفظ کی نسبت خدا کی جانب دی جاتی ہے تو اس کا معنی ہوتا ہے، خدا کا کھلا احسان اور نعمت۔ لیکن اگر انسان کی جانب اس کی نسبت ہو تو معنی میں کچھ تبدیلی ہوجاتی ہے اور معنی بخشش، عطا اور بزرگواری کے ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ دہہ کرامت ماہ ذیقعد کے پہلے دس دن ہیں جن کا آغاز حضرت معصومہ صلواۃ اللہ علیہا کی ولادت سے ہوتا ہے اور اختتام ثامن الائمہ امام رضا علیہ السلام کے روز ولادت پر ہوتا ہے۔ اسی ماہ کا آخری روز امام جواد علیہ السلام کی شہادت کا روز ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کریم اور جواد دو الفاظ ہیں جو دراصل ایک دوسرے کو مکمل کر نے والے ہیں۔ علم اخلاق میں ان دونوں لفظوں کو ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ کریم وہ ہے کہ آپ طلب کریں نہ کریں وہ آپ کو عطا کردے مگر جواد وہ ہے جو طلب کرنے پر آپ عطا کرے۔ مستزاد یہ کہ کریم اور جواد دونوں صفات باری تعالیٰ بھی ہیں۔
راوی حسنی صاحب نے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ۱۹۸۳ میں میں رضاکارانہ کردستان کے جنگی علاقہ میں تعینات ہوگیا اور بانہ کی سرحدی رجمنٹ میں سیاسی اور عقائدی راہنما کی حیثیت سے بھرتی ہوگیا۔ اس وقت میرا عہدہ سکینڈ لیفٹینٹ کا تھا اور میرےپاس جنگی خدمات کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا۔ ابتدائی ایام میں مرحوم تیمسار ( کہ کردستان اپنے امن و امان میں ان کا رہین رہن ہے) اس وقت وہاں کی کانسٹیبلری کے سربراہ تھے۔
جمہوری اسلامی کی قوہ انتظامیہ (ناجا) عموما چند ایک شعبوں میں تقسیم ہوجاتی ہے جیسے عقائدی، سیاسی، سربراہی، انفارمیشن سیکیورٹی وغیرہ۔ دوسرےلفظوں میں فوج کے یہ عقائدی سیاسی اور انفارمیش سیکیورٹی کے شعبہ مل کر ایک ایسی مثلث تشکیل دیتے ہیں جس کے خط ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہیں۔
جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ ضد انقلاب گروہ مثلاً کوملہ، دیموکریٹس، خبات (۱) وغیرہ ان دونوں بانہ کے علاقہ میں اپنی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ انہی کے ساتھ منجیلان کی چھاؤنی میں ایک جھڑپ بھی ہوئی تھی جس کی تحقیقات کے لئے مرحوم بہرام پور ہیلی کاپٹر کے ذریعہ اس چھاؤنی کی جانب عازم ہوئے تھے۔ میں نے بھی وہاں جانے کے لئے بہت اصرار کیا مگر بے سود رہا۔ مجھے نہیں معلوم وہ کیا سوچ رہے تھے شاید انہوں نے سوچا ہو کہ میں ایک نا تجربہ کار افسر ہوں اور نازک حالات میں میرے لئے کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ پیش آجائے۔ بہر وہ مجھے تو نہ گئے لیکن خود اس جگہ پہنچ کر دو چار ضد انقلاب افراد کو واصل جہنم کیا ۔ انہوں نے ہ بھی بتایا کہ ایک فرد تو درخت کی شاخوں میں چھپ گیا تھا اس کو گولی لگی تھی ہم نے اس کو زندہ گرفتار کیا اور اس کے چند دیگر زندہ ساتھیوں کے ہمراہ پک اپ میں سوار کر کے شہر بھر میں گھمایا تاکہ دوسروں کے لئے درس عبرت ہو۔ یہ میرے کام کے لئے نقطہ آغاز تھا اور میں یہیں سے سمجھ گیا کہ جہاں میں آگیا ہوں یہ علاقہ اور یہ کام انتہائی اخلاص کا تقاضا کر تاہے۔ دوسری طرف ہمیں یہاں تعینات کرنے والوں نے ہمارے کان میں کچھ اس طرح کی باتیں کی تھیں کہ وہاں جاکر فوجوں کی تربیت اور لوگوں کو فوج کی جانب راغب کرنے کا کام انجام دینا ہے اسی لئے ہم نے وہاں روحانی ماحول بنانے کی کوششوں کو اپنا مطمح نظر رکھاکیوں کہ ہم عقائدی و سیاسی شعبہ میں ہی تعینات تھے ۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ ہم جنت کا قبالہ اپنے نام لکھوا لیا ہے ہمیں کیا معلوم تھا کہ کیسے کیسے شیر دلاور محاذ پر موجود ہیں۔
حسنی صاحب نے کہا: ہماری بیرک فوج، بریگیڈ اور گرین کیپس سے مخلوط تھی جس کی سربراہی اور کمانڈ محترم تیمسار صاحب کے ہاتھ تھی۔ وہ فوج کے جری افسران میں سے تھے اور بعد میں بری افواج کے کمانڈر ہوگئے تھے۔ میری اور ان کی جان پہچان جس واقعہ سے ہوئی وہ میں آپ کو سناتا ہوں: ایک دن اذان کے نزدیک رجمنٹ کے کمانڈر ایک آپریشن سے واپس بیرک پلٹے ان کا جسم اور لباس خاک میں اٹا ہوا تھا۔ میں ایک ناتجربہ کار لیفٹینٹ تھا لیکن پر عزم، میں نے اپنے تصور میں انہیں ایک فرشتہ کے روپ میں دیکھا۔ میرے ذہن میں انکی ایسی ہی تصویر ہے۔ میں نے ان کو سلام کیا اس وقت کیپٹن صاحب مجھے نہیں پہچانتے تھے۔ لیکن اتنا جانتے تھے کہ میں اس بیرک کی سرپرستی کر رہا ہوں کیوں وہاں اس وقت مولویوں کی کمی تھی جو تھے وہ بھی مبلغ کے طور پر مورچہ کو روانہ ہوجایا کرتے تھے تو ایک ماہ بعد واپس پلٹتے تھے۔ میں اسی وقت ان کی جانب بڑھا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ آئیے جناب اذان ہوگئی مسجد میں آجائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ابھی محاذ سے آیا ہوں ذرا غسل کرلوں تو آتا ہوں۔ وہ کافی حیران تھے کہ مجھ سا ایک یفٹیننٹ ایک کرنل کا عہدہ رکھنے والے کا ہاتھ کھینچ کر زبردستی کہہ رہا کہ اذان ہوگئی ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ اب بھی یہ واقعہ یاد کرتا ہوں تو شرمندہ ہوجاتا ہوں کہ واقعی افسوس کا مقام ہے کہ ہم سمجھے ہوئے تھے ہم ہی اسلام کے ٹھیکہ دار ہیں۔ میں ان کا ہاتھ کھینچ رہا تھا اور وہ مزاحمت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا جاؤ بابا پہلے اپنی اصلاح کرو اگر اسلام یہی کہ تمہاری ایسی دعوت پر میں نماز گذار بن جاؤں تو مجھے ایسی دعوت قبول ہی نہیں ہے۔
رات ہوگئی نماز بھی ہوگئی۔ اس رات نماز کے بعد دعائے توسل بھی تھی۔ میں نے کرنل داد بین کو دیکھا کہ نماز کا سلام پھیر رہے تھے۔ اس وقت انہوں نے فوج کا کانسٹیبلری کا لباس پہنا ہوا تھا۔ رات کا وقت تھا اس لئے زیادہ واضح نہیں تھا اور میں بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ بریگیڈئیر جنرل ہیں ۔ میں نے محترم فرجی سے کہا: اس سپاہی کی دعا انداز بہت اچھا ہے اور بہت دلچسپ انداز میں تعقیبات پڑھ رہا ہے۔ میرا خیال ہے اس کو ہمیں اپنے عقائدی سیاسی شعبہ میں شامل کر لینا چاہئے۔ فرجی صاحب نے مجھے دیکھا اور بہت اطمینان سے کہا: کیپٹن صاحب یہ میجر داد بین ہیں جو اس وقت ساری بریگیڈ کو کمانڈ کر رہے ہیں۔
میں جلدی سے کھڑا ہوا اور دادبین صاحب کے پاس گیا اور بہت عزت و احترام سے سے ان سے معافی کا خواستگار ہوا۔ انہوں نے کہا: کیوں کس لئے؟ جناب اگر ہم میں اہلیت ہو گی تو یقینا ہم عقائدی گروہ کے ایک سپاہی کی حیثیت سے آپ کے کمانڈ میں ہوں گے۔ انہوں نے اپنے اس عمل سے مجھے ایک درس دیا اور یہی ہمارے روابط کا نقطہ آغاز تھا۔ حتی کہ بعد میں وہ انہیں سرکاری طور پر بریگیڈئیر جنرل کا عہدہ ملا اور وہ سنندج میں تعینات رہے اس وقت بھی ہمارے ان کے خاندانی روابط تھے۔
حسنی صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ شہید محمود امان اللہی بھی ایک بہت عظیم انسان تھے۔ وہ ہمیشہ بریگیڈئیر داد بین کے ہمراہ ہوتے تھے اور ان کے بھی دادبین صاحب کے ساتھ ملاقات ہوجایا کرتی تھی۔ درحقیقت میں جنگ پر جاکر ہی سمجھا تھا کہ دعوت و تبلیغ کاکام ویسا نہیں ہے جیسا ہم سمجھے ہوئے تھے۔ نہایت افسوس ہے کہ ہم اب تک یہ نہیں جانتے کہ اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھیں۔ اگر ہمارے بچہ کے ہاتھ میں چاقو ہو اور ہم غصہ کریں تو ہو سکتا ہے وہ اپنا ہاتھ ہی کاٹ لے ۔ سچ ہے کہ روابط استوار کرنے کا طریقہ اب تک میرے لئے اک درس ہے۔
حسنی نے مزید کہا: قرآن کریم میں سورہ اعراف کی ۳۴ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے: « وَلِکُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا یَسْتَقْدِمُونَ» ہم ہر امت کے لئے ایک وقت معین کردیا ہے اجل کا۔ جب بھی اجل کا وقت آجاتا ہے تو ہم نہ ایک لمحہ کی تاخیر کرتے ہیں نہ ایک لمحہ کی جلدی۔
اجل کی دو قسمیں ہیں ایک اجل معلق اور ایک اجل مسمیٰ۔ خدا نے فرمایا ہے کہ اگر اجل مسمیٰ کا وقت آجائیے تو لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں ہوتی۔ لیکن احتیاط شرط عقل ہے ہمیں حفظ ما تقدم کا لحاظ کرنا چاہئے ہرچند جو مقدر ہوچکا ہے وہ اپنے وقت پر انجام پا جائے گا ۔
میں اپنے بیانات میں اسی حد پر اکتفا کرتا ہوں ۔ میں نے یہ آیت جو آپ کے سامنے پڑھی اس کی وجہ یہ تھی حلبچہ میں ایک آپریشن کے دوران حجۃ الاسلام حسینی کے ہمراہ جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں ایک اصفہانی اپنے خوبصورت لہجہ میں کہہ رہا تھا ک: یہ شہادت کا چوراہا ہے اگر یہاں جاؤ گے تو شہید ہو جاؤ گے۔ ہم نے دھیان نہیں دیا اور ہم نے اس مہلک وادی میں سفر کیا۔ مارٹر گولوں نے ہمارا استقبال کیا ہماری گاڑی چھلنی ہوگئی لیکن خدا کی مہربانی سے ہمیں کوئی گزند نہ پہنچا جس پر ہمیں خود حیرت ہے۔ میرے ساتھ یہ واقعہ بھی ہوا ہے کہ خونی حج پر بھی میں موجود تھا وہاں ۵۰۰ لوگ شہید ہوئے مگر میں صرف بے ہوش ہوا تھا۔ یعنی توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ شہادت میرے نامہ اعمال میں لکھی جاتی۔ کیوں؟ کیونکہ خدانے تقدیر لکھی ہے اور جب تک انسان ک موت کا وقت نہ آجائیے وہ نہیں مرتا۔
حسنی صاحب نے اپنے بیانات کے اختتام پر امام رضا علیہ السلام کی شان میں یک قصیدہ پڑھا۔
ویب سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
صارفین کی تعداد: 2658
http://oral-history.ir/?page=post&id=10246