کردستان میں قیام کی نعمت

تدوین: تاریخ شفاہی ایران کی سائیٹ
ترجمہ: صائب جعفری

2021-11-11


۳۲۶ ویں یادوں بھری رات حوزہ ہنری میں منعقد ہوئی  جس کا موضوع ’’ واحد روحیہ (حوصلہ)، جنگی اشتہارات کے سپاہیوں کی روایت‘‘ تھا۔ یادوں بھری رات سے سردار محمد علی آسودی، اسماعیل محمودی اور ڈاکٹر محمد قاسمی نے داستان سرائی کی۔

پروگرام کے میزبان نے دیگر شہروں اور ممالک میں اس قسم کے منعقدہ پروگرامز کو سراہا اور ساتھ ہی مورچوں اور جنگ  کی تشہیر  کے بارے  میں شہید قاسم سلیمانی کے  بیان کردہ چند نکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’شہید قاسم سلیمانی تبلیغات کرنے والے نوجوانوں کی اختراعات کی  جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ فوجیوں کے درمیان ڈائریاں تقسیم کیا  کرتے تھے اور انہیں یہ موقع فراہم کرتے تھے کہ وہ اپنے واقعات قلم بند کریں۔  اسی طرح وہ بیان کرتے کہ یہ تشہیری مہم پر مامور لڑکے  فوجیوں میں وصیت نامہ بھی تقسیم کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ بہت ہی کم ایسے فوجی تھے جنہوں نے اس کے بعد بھی اپنی وصیت نہ لکھی ہو۔  یہ کام  فوجیوں کے حوصلے بلند کرنے میں نہایت موثر تھا۔

شہید قاسم سلیمانی نے یہ آئمہ کے ناموں، اللہ اکبر اور دیگر پرچموں کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا:  جب یہ پھریرے ہوا میں لہراتے تھے  تو فوجیوں کے حوصلے اور بلند ہوجاتے تھے۔ شہید نے ایک اور نکتہ یہ بیان کیا کہ ناکام آپریشنز  کے بعد ان تشہیری ڈپارٹمنٹس کا کردار اور زیادہ اہم ہوتا تھا۔ جب کوئی آپریشن ناکام ہوجاتا تو سپاہیوں کے حوصلہ اور جذبات کو سرد پڑنے سے بچانے کے لئے بیعت نامہ لکھے جاتے اور شہداء کے لئے مجالس ترحیم منعقد کی جاتی تھیں اور یہ کام بہت تاثیر چھوڑتا تھا۔

اس کے بعد میزبان نے جناب اسماعیل محمودی صاحب کو دعوت دی تاکہ وہ اپنے واقعات بیان کریں۔

اسماعیل محمودی صاحب نے  اپنے کلام کا آغاز شہید دستغیبؒ کے بیان سے کیا اور کہا: ’’ اس نیلے گگن تلے کوئی بھی عبادت کردستان میں خدمات انجام دینے سے بہتر نہیں۔‘‘ مسیحائے کردستان، شہید محمد بروجردی نے بھی کہا تھا:  ’’ کردستان سے نکلنا کفران نعمت ہے،  آخر ان سپاہیوں نے کردستان میں ایسا کیا کیا کہ ہم اگر وہاں سے نکلنا چاہیں تو یہ کام  کفران نعمت ہوگا؟‘‘ انواع و اقسام کی اطلاعات ، جو آج ۳۵ سال کے بعد ہمارے پاس ہیں اس کا سرا سردار آسودی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ان واقعات کو محفوظ کرنے کے لئے  اپنا وقت اور پیسہ صرف کر رہے ہیں ۔

اسماعیل محمودی نے یہ بھی کہا: ’’سپاہ کے کردستان میں داخلے کے ساتھ ہی فوجیوں کا وظیفہ اور شعار’’ أَشِدَّاءُ عَلَى الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَهُمْ۔(۱)  بن گیا۔  کردستان کی قوتوں کے ساتھ مقابلے کے لئے پہلی کوشش نرم رویہ اور شفقت و مہربانی کا سلوک تھا اس کے بعد قوت اور سختی کا اظہار۔ وہاں سپاہ کے پاس نرم جنگ اور سخت جنگ دونوں کے ہتھیار موجود تھے۔ نرم جنگ کے لئے کارآمد ترین ہتھیار اشتہاری مہم کا تھا۔  اشتہاری پروگرامز کی قویٰ  بغیر اسلحہ کے لوگوں کے اجتماعات میں جاتیں اور ان کے ساتھ روابط استوار کرتیں تاکہ عوام کو ضد انقلاب قوتوں سے جدا کر سکیں۔ خود امام خمینیؒ نے کئی بار فرمایا کہ  خطہ کے مسلمانوں سے ہماری کوئی جنگ نہیں ہے۔ سردار آسودی کے دوستوں کی تمام تر کوشش یہی تھی کہ کسی طرح عوام کو ضد انقلاب عناصر سے علیحدہ کیا جائے۔‘‘

محمودی صاحب نے مزید کہا: ’’جس طرح ایک نومولود کو ماں کے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اس علاقہ کے لوگوں کو بھی اطلاعات، عقائد اور معنویت کی ضرورت تھی۔ اس کام کا بیٹرا اشتہاری مہم  کے ڈیپارٹمنٹ نے اٹھایا اور تینوں صوبوں میں اس کام کو بخوبی انجام دیا۔ تقریبا ۳۰ شہروں میں ہمارے پاس spirit machine جیسی گاڑیاں تھیں جو کتابوں اور لوگوں کی بنیادی ضروریات  اور بچوں کی ضروریات سے پر ہوتی تھیں۔ یہ گاڑیاں شہروں اور دیہاتوں میں گشت پر مامور تھیں اور وہاں لوگوں کو نفسیاتی حربوں کے ذریعے انقلاب کی جانب مائل کرتی تھیں۔  امن و امان کی باتیں پھیلاتیں اور لوگوں کی مادی مدد کرتیں تھیں۔ اشتہاری ٹیم کی یہ خدمات اس علاقہ میں دیرپا نتائج کا باعث تھیں۔

انہوں  نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:  اس زمانے میں جب کہ  اس علاقہ میں فوجی حکومت تھی اور تمام قوتیں ضد انقلاب عناصر سے مقابلے کے لئے بالکل آمادہ تھیں، تقریبا آدھی رات کے بعد ایک شخص چھاؤنی میں داخل ہوا  اور رکنے کے تمام اشاروں کا نظر انداز کرتے ہوئے چلانے لگا کہ اس کی زوجہ حاملہ ہے اور  اس کو ہسپتال لے جانا ضروری ہے۔ ایڈورٹائزنگ انچارج نے ضروری تحقیق کے بعد ایک کار میں   اس کی زوجہ کو ہسپتال پہنچا دیا۔ راستے میں چار پانچ مورچہ ایسے تھے جہاں سے امکان تھا ضد انقلاب سمجھ کر ان لوگوں کی گاڑی کو نشانہ بنایا جائے مگر خدا کرنی ایسی ہوئی کہ کسی نے ان کو نہ دیکھا۔ راستے میں  مریض کے شوہر نے ڈرائیور  نام پوچھا   اور خاموش ہو گیا۔ دو  دن بعد  وہ شخص مٹھائی کے ایک ڈبہ کے ہمراہ آیا اور  اس رات والے ڈرائیور کو ڈھونڈنے لگا۔ جب اس سے ملاقات ہوئی تو اس شخص نے کہا کہ اس نے اپنے نومولود بیٹے کا نام علی رضا  رکھا ہے۔ اس طرح ایک سنی نشین علاقہ میں ایک نومولود کا شیعہ نام رکھا گیا۔‘‘

محمودی صاحب نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ ایک روز ایک اور شخص چھاؤنی میں آیا اور چھاؤنی کے مؤذن سے ملاقات کی اور اس سے درخواست کی کہ وہ اپنی خوبصورت آواز میں وہی اذان  اس کے نومولود بچے کے کان می کہے جو روز چھاؤنی میں وقت نماز دیتا ہے۔  اہم بات یہ ہے کہ اس کی درخواست کا اصل مقصد اشہد ان علیا  ولی اللہ اور اشہد ان علیا حجۃ اللہ تھا۔‘‘

صاحب  بیان کے مطابق: کردستان کے لوگ علم و مطالعہ کے پیاسے تھے ۔ ہم نے ان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کتابوں کی نمائش کا انتظام کیا اور کتابوں کی فروخت کے لئے دکانیں لگائیں۔  اسی طرح مختلف مجالس و محافل کا انعقاد بھی اشتہاری قویٰ کے ذریعے کیا گیا جن میں  مہا باد میں بچوں کے لئے تھیٹر فیسٹیول ، ہفتہ دفاع مقدس اور دہہ فجر کو خراج تحسین پیش کرنے کے پروگرامز  سر فہرست ہیں۔  اشتہاری قویٰ کا ایک اور اہم کام فوجیوں اور مجاہدوں کے لئے عکاسی اور فلم بندی کے شعبہ  کا قیام تھا  تاکہ ان کی تصاویر اور فلمیں ضد انقلاب عناصر کی پہنچ سے محفوظ ہو جائیں۔  لوگوں کے ساتھ نفسیاتی روابط اس قدر کار گر ثابت ہوئے تھے  اب مختلف شہروں کے لوگ اپنی تصاویر اور فلمیں صرف اسی  شعبہ  کے حوالے کرتے  تھے کیونکہ ان کے لئے یہ شعبہ قابل اعتماد تھا۔‘‘

محمودی صاحب  کہا: ’’ مغرب اور جنوب میں ہماری ثقافتی سرگرمیوں میں ۱۸۰ درجہ کا فرق تھا، مثلا ہم تہران سے لیکر آخری مورچہ تک یہ بینر آویزان کرتے تھے  ’’مجاہد کو مسکرانا چاہئے‘‘۔ لیکن مغرب میں ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ لشکر علی ابن  ابو طالب سرحد کے اس پار آپریشن میں مصروف تھا لیکن ان کو معلوم نہیں تھا وہ کہاں تک پہنچ گئے ہیں جنوب کی اشتہاری مہم کے پیش نظر انہوں نے بھی بینر اور شعار ’’ بیسیجی کو مسکرانا چاہئے‘‘ اختیار کر لیا اور مشکلات کا شکار ہوگئے۔ ان کو میان دو آب کی سپاہ نے گرفتار کر لیا لیکن انہوں نے اپنا نام و نشان بتانے سے انکار کیا ۔ سپاہ کے سربراہ نے مجھے فون کیا اور کہا کہ ہم نے کچھ افراد کو گرفتار کیا ہے مشکوک ہیں اپنا نام و نشان نہیں بتاتے مگر کہتے ہیں کہ آپ ان کو جانتے ہیں۔ میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ غلطی فہمی کی بنیاد پر گرفتار ہوگئے ہیں سو میں نے ان کی آزادی کا انتظام کیا۔‘‘

محمودی صاحب نے بیان دیا: ’’ شہید محمد بروجردی   کی گاڑی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی اور وہ شہید ہوگئے۔ اگلے روز دموکریٹک حزب کے رڈیو نے خبر نشر کر دی کہ گذشتہ روز اورمیہ میں واقع حمزہ نامی چھاؤنی کی مرکزی عمارت میں ، ڈیمو کریٹک دھڑے نے ایک آپریش کے دوران  اس چھاؤنی کے سربراہ کو  ہلاک کر دیا ہے۔   اس علاقہ کے مجاہدین اور عوام  کے لئے دشمن کا ایک شدید نفسیاتی وار تھا۔ میں نے اسی دن  ارومیہ اور سنندج کے فوجی سربراہوں،  رڈیو، ٹی وی کے عہدہ داروں اور مختلف  اخبارات و رسائل کے نمائندوں پر مشتمل دس، بارہ رکنی ایک ٹیم تشکیل دی جس نے تصاویر ، فلم بندی اور انٹرویوز کے ذریعہ ضد انقلاب عناصر  کے اس نفسیاتی حربہ کو ناکام بنا دیا۔‘‘

 محمودی صاحب نے آخر میں امام جمعہ ارومیہ حجۃ الاسلام حسنی کا تذکرہ کیا  کہ  ہر چند وہ ان دنوں لندن میں تھے مگر وہیں سے  غربی آذربائیجان کے لوگوں کے نام  پیغام ارسال کیا جس نے لوگوں کو ہماری مدد کے لئے آمادہ کیا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ آذربائیجان کے غیوروں، شہید باکری کے ساتھیوں، میں اس وقت کفر کی وادی سے تم سے مخاطب ہو رہا ہو۔  میں چاہتا ہوں کہ سب آگے بڑھو اور شہید باکری کے مورچہ کو خالی نہ کرو۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ سورۂ مبارکہ الفتح، آیت ۲۹

 


ویب سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 1845



http://oral-history.ir/?page=post&id=10209