سفر مکہ اور آیت اللہ بہشتی سے ملاقات

ترجمہ: ابوزہرا

2021-09-01


میری والدہ کے چچا ذاد بھاٸی جو نجف میں زیر تعلیم تھے آقاٸے خوٸی کے ہاں بھی ہوتے تھے۔ انہوں بغداد سے مکہ تک سفر کیا. 


میں نے مکہ میں، جنگی سرگرمیوں کا ایک خلاصہ ڈاکٹر ڈاکٹرشہید بہشتی  کو بتایا، اور امام خمینی کے کیسٹ  ان کے اعلامیہ یا اس صورت حال کے متعلق نشرواشاعت  کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا. ہم "رابطہ العالم  اللا سلامیہ" کے ساتھ ملے، جنکا مکہ میں دفترتھا، اور تمام اسلامی ممالک کے نمائندے اس میں شامل تھے. دراصل، مکہ اسلامی دنیا  کا مرکز ہونے کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے اور یہاں عالم اسلام کے معتبر ترین افرادآتے ہیں،شہید بہشتی کو اس بات میں دلچسپی تھی کہ وہ ان اہم افراد تک اپنا پیغام پہنچاٸیں انھوں نے وہاں عربی میں تقریر کی جس کو پسند کیاگیا اور ان کا شکریہ ادا کیا. اس کے بعد، ہم نے شہید بہشتی کے ساتھ خداحافظی کی اوران سے کہاکہ ”اگر ایران میں کسی کو کوٸی پیغام دیناہو تو بولیٸے“تو انھوں نے کہاکہ ”مقصودی صاحب ظالم و جابر حکومت کے خلاف نفرت لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنی چاہیے“


میں نے انہیں الوداع کہا. اس سال، ہم ایک اچھے کاروان کے ساتھ گئے تھے اس کاروان میں ہمارے ہمفکرافراد کافی تھے. کاروان کے سربراہ کلنی صاحب  تھے، جناب  الہی  جیسے اورجناب فراقی جیسے لوگ ہمارے ساتھ تھے ، یہ لوگ انصار نامی ادارے کو چلاتے تھے ، ہمارا مکہ میں یہی کام تھا کہ ہم سڑکوں پر نکل جاتے، کسی کو دیکھتے، اس سے علیگ سلیگ کرتے اس سے اسکا وطن پوچھتے اس کے بعد ہم اپنے دل کی بات اس پر ظاہرکردیتے اور پہلوی حکومت کے مظالم کو عیاں کرتےقرآن و سنت کی روشنی میں اپنے اہداف کو بیان کرتے۔اپنے لیڈر کی فکر سے انھیں آگاہ کرتے۔

 

منبع: خاطرات جواد مقصودی، تدوین فاطمه نظری‌کمره، تهران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1392، ص 106 - 108.


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 1846



http://oral-history.ir/?page=post&id=10072