تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – تینتیسویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-9-2


ہر دو ہفتے میں ایک بار میں فیلڈ میڈیکل یونٹ-11 جاتا تھا۔  جاتے وقت میرا ڈرائیور "کریم" گاڑی چلاتا تھا اور واپسی پر میں کیونکہ رات کو گاڑی چلاتے وقت اسے نیند آجاتی تھی۔ وہ ایک بہت مؤدب اور مہذب فوجی تھا۔  میں اسے پسند کرتا تھا۔ میں ان مشکل اور دشوار حالات کے باوجود اپنے آپ کو خوش قسمت محسوس کرتا تھا کیونکہ میں انٹیلی جنس عناصر اور کینہ توز بعثیوں کی نظروں سے دور پوری آزادی کے ساتھ ریڈیو اور خاص طور پر تہران ریڈیو سن سکتا تھا اور اسی طرح اس کے عربی پروگرامز، امام کے بیانات اور نماز جمعہ کے خطبے بھی سن سکتا تھا۔

جب بھی میں فیلڈ میڈیکل یونٹ-11 جاتا تھا تو بعثی ڈاکٹرز  میری حالت اور علاقے کے حالات کے بارے میں پوچھتے تھے۔  میں جواب میں کہتا تھا کہ الحمد للہ ہم اچھے حال میں ہیں اور بہت سکون سے رہ رہے ہیں۔  انہیں یہ سن کر بہت حیرت ہوتی کیونکہ محاذ کی فرنٹ لائن پر نہ تو سکون کی توقع کی جاسکتی تھی اور نہ ہی اچھے حال کی۔

تیسری ریجمنٹ کے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے دوران، میرا ریجمنٹ ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے ریجمنٹ کمانڈر سے لے کر سپاہی تک یونٹ کے تمام افراد کے ساتھ رابطہ تھا۔  اسی لیے میں چاہتا ہوں کے قارئین کے لیے ان میں سے کچھ شخصیات کا تعارف کراؤں جن کے ساتھ میں نے کچھ وقت گزارا ہے تاکہ  میں آپ کو جنگ کے دوران عراقی فوجیوں کی اخلاقی اور معاشرتی خصوصیات سے بہتر طور پر آشنا کرا سکوں۔

 "لیفٹیننٹ کرنل عبدالکریم حمود عبد علی":

 یہ آدمی بیسویں بریگیڈ کی تیسری ریجمنٹ کا کمانڈر تھا۔  میں بیسویں بریگیڈ کے بیس میں اپنی سروس کے دوران، اسکے بریگیڈ کا آپریشنل آفیسر ہونے کی حیثیت سے اس کی شخصیت سے آشنا ہوا،  اور جب اس نے ہماری ریجمنٹ کی کمانڈ  سنبھالی تو میں اسے پہلے سے زیادہ جان پایا۔  وہ اسٹاف آفیسر تھا، موصل کا رہائشی تھا اور بغداد کے آفیسرز ہاسٹل میں رہتا تھا۔  اس نے "شنسل" قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک لیڈی ڈاکٹر سے شادی کی تھی،  اور چیف آف آرمی اسٹاف کا تعلق بھی اسی قبیلے سے تھا۔  لیفٹیننٹ کرنل "عبدالکریم" کو سینئر افسر نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود اس میں بہت زیادہ جاہ طلبی تھی۔  یہ شخص  ایک دوہری حالت میں تھا،  ایک طرف تو یہ اس حکومت  سے اظہار وفاداری کرتا تھا جو اسے مال و دولت کے ذریعے دھوکا دے رہی تھی اور دوسری طرف تشیع کی جانب بھی مائل تھا اور جنگ کو ایک نفرت انگیز واقعہ سمجھتا تھا۔ جہاں دوسرے بلند حوصلہ افسران فوجی مشنز کو انجام دینے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لیتے تھے  وہیں لیفٹیننٹ کرنل "عبدالکریم"  جنگی مشنز کو انجام دینے سے گریز کرتا تھا۔  پانچویں ڈویژن کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل "صلاح قاضی"  اور ڈویژن کے آپریشنل آفیسرز کے ساتھ اس کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ان تعلقات کو مستحکم کرنے والا عنصر  تحفوں کا لین دین اور رنگین دسترخوان تھے۔  اگرچہ وہ بعثی تھا لیکن اس کے باوجود وہ صدام اور اس کے کاموں سے خوش نہیں تھا۔  جب وہ پہلی بار ریجمنٹ میں داخل ہوا تو اس نے اپنے لئے ایک مضبوط اور وسیع بنکر بنوایا اور اس کے ارد گرد پہرےدار رکھے۔  پوری ریجمنٹ میں صرف میں اس کا مونس و یاور تھا۔  ہم اکثر رات کا کھانا ساتھ کھاتے تھے اور رات کے ایک پہر تک بات چیت اور سیاسی بحثوں میں مشغول رہتے تھے۔ وہ اسلامی جمہوریہ کے لیے محبت کا اظہار کرتا تھا اور باقاعدگی سے ریڈیو تہران کے پروگرام سنتا تھا۔

 ہماری قرابت اس بات کا باعث بنی کہ میں اپنی انسانی ذمہ داری کی بنیاد پر اور ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے با آسانی بیماروں اور زخمیوں کا علاج کر  پاؤں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا رشتہ اور بھروسہ مزید مضبوط ہوگیا۔  اس چیز سے میرے لیے اس کے ساتھ اہم مسائل پر تبادلہ خیال کرنا ممکن ہوگیا۔   ایک دن وہ کمانڈنگ آفیسرز کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈویژن کے فیلڈ بیس گیا۔  رات 9 بجے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔  میں نے فون اٹھایا فون پر کمانڈر تھا اور مجھے رات کے کھانے کی دعوت دے رہا تھا،  میں نے معذرت خواہی کرتے ہوئے جواب دیا کہ میں نے رات کا کھانا کھا لیا ہے۔  وہ اصرار کر رہا تھا کہ میں اس کے پاس جاؤں۔  مجبوراً میں نے اس کی دعوت قبول کرلی اور  اس کے پاس جانے کے لئے روانہ ہوگیا۔  بظاہر وہ ابھی ابھی پانچویں ڈویژن کے بیس سے پہنچا تھا۔  عرض ادب کے بعد  میں بیٹھ گیا۔  اس کے چہرے پر تھکاوٹ اور اداسی کے آثار نمایاں تھے۔  افسران کے اجلاس کے متعلق مختصر گفتگو کرنے کے بعد اس نے مجھے ایک کتاب دی اور کہا: " پڑھئیے!"

کتاب پرنٹنگ اور کاغذ کی نوعیت کے اعتبار سے بہت نفیس تھی۔  پہلے صفحے پر صدام حسین کی ایک تصویر تھی۔  اس کتاب کا نام "صدام حسین؛ انسان، رہبر و مبارز" یعنی "صدام حسین؛  انسان، لیڈر اور جنگجو" تھا۔ اس کتاب  کا مصنف "امین اسکندر" تھا۔

 میں نے اس سے کہا: "یہ کتاب آپ کو کہاں سے ملی؟"

 اس نے جواب دیا: "ان لوگوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں ڈویژن بیس سے آدھے دینار میں اسے خریدوں۔"

 اس نے اصرار کرتے ہوئے کہا: "صفحے پلٹو لیکن اپنے غصے کو قابو میں رکھنا!"

میں نے صفحے پلٹے تو صدام کا ایک شجرہ دیکھا۔  صدام حسین اور اس کے خاندان کا نام اس شجرے میں نظر آرہا تھا جو علی علیہ السلام سے منسوب تھا....

کتنی افسوس ناک بات ہے! صدام حسین کی نسبت امیرالمومنین علیہ السلام کی جانب؟!!  یہ واقعی مضحکہ خیز ہے!  میں نے مصنف کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: " وہ مصر کا ایک عیسائی مصنف "امین اسکندر" ہے جو عربوں کے شجرے بنانے میں بہت مہارت رکھتا ہے۔"

میں نے ایسے میگزین اور اخبار تو دیکھے تھے جنہوں نے صدام اور اس کے پارٹی کی تعریف میں بہت بڑھا چڑھا کر لکھا تھا،  لیکن میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک عیسائی اس طرح سے تاریخ گڑھے گا اور اس قسم کی تحریف اور جھوٹ بولنے کا مرتکب ہوگا۔  بہرحال ڈالرز ہر جگہ بکاؤ لوگوں اور بھاڑے کے ٹٹوؤں پر اپنا اثر دکھاتے ہیں۔  میں نے جلدی جلدی کتاب کے صفحے پلٹے اور اس سے کہا: " کیا ایسا کوئی مل سکتا ہے جو ان جھوٹی باتوں اور بہتانوں کا جواب دے؟"

ہم نے کچھ منٹوں تک گفتگو کی.  ریجمنٹ کمانڈر شدید ڈپریشن کا شکار ہو گیا تھا اور جنگ اور حکومت کی کارکردگی سے سخت بیزار تھا۔ میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریجمنٹ کو اپنے مقابل موجود اسلامی فورسز کے حوالے کرنے کی تجویز پیش کی۔  میں نے اس سے کہا: " آخر کب تک ہم اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے رہیں گے اور حکومت پر زبانی حملے کرتے رہیں گے؟  آخر کب تک یہ ذلت و خواری جاری رہے گی؟  نعرے بازی بہت ہوگئی۔۔۔۔ اب ہمیں کوئی عملی قدم اٹھانا چاہیے!"

یہ باتیں سن کر وہ ہکا بکا رہ گیا۔  قریب تھا کہ اس کی آنکھیں باہر آجاتیں۔

 اس نے کہا: "کیا مطلب؟"

 میں نے جواب دیا: "کیا بہتر نہیں ہے کہ ہم اس پریشانی سے نجات پالیں؟"

 اس نے کہا: "کیسے؟"

میں نے کہا: "تیسری کمپنی کے علاقے کا پانی سوکھ چکا ہے اور ایرانی فورسز کی طرف جانے کا راستہ ہموار ہے۔  ایسا کریں کہ ریجمنٹ کے تمام افسران کو ایک خصوصی اجلاس میں شرکت کے بہانے سے طلب کریں اور جب وہ آجائیں تو ہم انہیں گرفتار کرکے ایک بکتر بند گاڑی میں ڈال کر اسلامی فورسز کے حوالے کر دیں گے۔"

یہ باتیں سن کر وہ چونک پڑا اور کہنے لگا: " یہ میں کیا سن رہا ہوں؟  کیا تم سنجیدہ ہو؟"

 میں نے کہا: "جی ہاں، میں آخری سانس تک آپ کے ساتھ رہوں گا۔"

 اس نے کہا: "ڈاکٹر! تمہیں کس نے اجازت دی کہ ایسی باتیں زبان پر لاؤں؟  یہ الفاظ تمہاری جان لے سکتے ہیں۔ کسی اور سے یہ باتیں مت کہنا!"

   میں نے کہا: "نہیں، خدا کی قسم،  میں زبانی تنقید اور گلے شکووں سے تھک چکا ہوں۔  مجھے تو آپ کے افکار اور حالت نے اس مسئلے کو اٹھانے پر مجبور کیا۔"  

 اس نے کہا: "ڈاکٹر! میرے بیوی بچے ہیں۔۔۔ فوج کے بہت سے لوگ تمہاری طرح سوچتے ہیں اور اندر سے حکومت کے مخالف ہیں لیکن رشوت اور دھمکیاں انہیں حکومت سے وفاداری پر مجبور کرتی ہیں۔"

 فرسٹ لیفٹیننٹ "کنعان":

وہ ریجمنٹ کا سیکنڈ-ان-کمانڈ افسر تھا۔  اس کا تعلق صوبہ "تکریت" کے نواحی گاؤں "دور" سے تھا۔  عراق کے حکمرانوں اور کمانڈروں کے اس شہر میں پرورش پانے کی وجہ سے اس شہر کو عراق کا ایک اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔  یہ آدمی سابق وزیر تعلیم "محمد محجوب" کا قریبی رشتہ دار تھے جسے صدام نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے خلاف سازش کرنے کے الزام میں پھانسی دے دی تھی۔  لیفٹیننٹ "کنعان" اپنے آپ کو حکومت کا مخالف اور صدام کا دشمن سمجھتا تھا۔  اس کے ساتھ ساتھ اسے اور اس کے خاندان والوں کو متعدد مراعات دی جاتی تھیں۔  ہم چھپ کر حکومت پر تنقید کرتے تھے اور ہمارے برعکس وہ کھلے عام حکومت پر تنقید کرتا تھا۔  وہ خصوصی ملاقاتوں میں صدام حسین اور "عزت الدوری" کا خوب مذاق اڑاتا تھا اور ان دونوں کا شرم ناک ماضی بیان کرتا تھا۔  اسی طرح سے وہ حکومت کی قبائلی ترکیب اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے صوبہ "تکریت" اور شہر "دور" کے قبائلی تنازعات کا ذکر کرتا تھا۔  حکومت کے ساتھ خصومانہ رویہ رکھنے کے باوجود لیفٹیننٹ "کنعان" کے پاس سرکاری یونیورسٹی کے اہم اور کلیدی عہدے تھے۔

مثال کے طور پر سن 1981ء کی گرمیوں میں اسے ایک دوسرے افسر کے ساتھ فوج کی نمائندگی میں لندن بھیجا گیا تاکہ وہاں وہ ایک ملٹری کورس میں شرکت کرے۔

یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ "تکریت" اور "دور" سے تعلق رکھنے والے مخالفین نجف، کربلا اور بصرہ سے تعلق رکھنے والے مخالفین سے مختلف ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مخالفین کا پہلا گروه، خاندانی مخالف ہے جبکہ دوسرا گروہ حکومت کے طرز حکومت کا مخالف سمجھا جاتا ہے۔ یہ یونہی نہیں ہے کہ دوسرے گروہ کے مخالفین کو تجربے اور کارکردگی کے باوجود موت کی سزا دی جاتی ہے یا ان کی جائیدادیں ضبط کرلی جاتیں یا انہیں حکومت کی کلیدی عہدوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ یہ امر حکومت کی قبائلی منطق اور بعثیوں کے ایجاد کردہ نسلی اور طبقاتی امتیاز کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں میرا ایک دوست جو تکریت میں پڑھاتا تھا وہ کہتا تھا: "ایک تکریتی چرواہے کا مقام مرکزی شہروں اور جنوبی عراق میں رہنے والے ہر بڑے بعثی سے کہیں زیادہ ہے۔"

 لیفٹیننٹ "کنعان" میرے ساتھ کام کرنے کے دوران جنگ کے جاری رہنے کے حوالے سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتا تھا اور عراقی حکومت پر تنقید کرتا تھا، لیکن فوجی آپریشنز میں وہ سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ کام کرتا تھا۔ وہ جنگ اور فوج کی خدمت کرنے کے لئے پوری کوشش کرتا تھا لیکن اس کے باوجود ریجمنٹ کمانڈر، لیفٹیننٹ کرنل "عبدالکریم" جسے اس سے قبائلی تعصب کی وجہ سے نفرت تھی، نے اسے ریجمنٹ بیس سے نکال دیا اور دوسری کمپنی کا کمانڈر مقرر کردیا اور اس کی جگہ لیفٹیننٹ "محمد جواد" کو ریجمنٹ کا سیکنڈ-ان-کمانڈ مقرر کردیا۔

جاری ہے۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2275


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔