بحری افواج کے نام کا شہید ہمتی کے نام سے جڑ جانا

یادوں بھری رات کا۳۰۸ واں پروگرام

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2020-5-20


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۸  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۸  نومبر ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں عبد اللہ معنوی، اصغر رضائی اور میر منصور سید قریشی نے نے اپنی تقاریر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ میں  بحری  ا  فواج کے دلاوروں کے بارے میں بیان کیا۔

 

آئل ٹینکروں کی جنگ

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کے ۳۰۸ ویں پروگرام کے پہلے راوی سیکنڈ ایڈمرل عبد اللہ معنوی تھے۔ انھوں نے کہا: "جب سے ہم پر جنگ مسلط کی گئی،  میں بوشہر کے سمندری علاقے میں ایک یونٹ کا کمانڈر تھا اور جنگی بحری جہاز کے کمانڈر محمد ابراہیم ہمتی  میرے دوست اور ساتھی تھے۔ لوگ سمندر،  سمندر میں کھوج لگانا اور بحری افواج  کے بارے میں کم جانتے ہیں۔ جب انقلاب آیا تو بہت سی چیزیں بدل گئیں۔ جب جنگ کا آغاز ہوا اور صدام نے ایک وسیع حملے کا آغاز کیا۔ ہمارے افراد  نے اپنی ذمہ داری سنبھالی۔ بحری جہاز میں تقریباً ۳۰ سے ۳۵  افراد تھے۔ یہ کہ انھوں نے اپنی ذمہ داری سنبھالی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ  کمانڈر نے اُنہیں حکم دیا، بلکہ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم جنگ کی تاریخ کو پڑھتے ہیں، اُس کا تجزیہ کرتے ہیں، تفسیر کرتے ہیں۔ عراق کی بعثی حکومت کوئی چھوٹا دشمن  نہیں تھی۔ اُن کے پاس بہترین جنگی سامان تھا جبکہ ہمارے پاس کمترین بھی نہیں تھا۔ اُن سے کہا گیا تھا کہ ایران کی بحری افواج ایسی نہیں ہے جو مقابلہ کرسکے۔ جب ہم پچھلے سال آقا خامنہ ای مدظلہ العالی کی خدمت میں حاضر تھے، ہم نے یہی عرض کیا تھا کہ وہ ہمیں کہا کرتے تھے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہیں  اور انھوں نے اپنی کتابوں میں بھی لکھا تھا۔ کیوں؟ چونکہ ہمارے اسپیئر پارٹس اُن سے وابستہ تھے۔ حتی تعمیرات کا کام بھی وہ لوگ انجام دیتے تھے۔ سب لوگ فرار کر گئے  اور چلے گئے اور تمام کام ان  جوانوں کے ذمہ آگئے اور یہ لوگ آگے بڑھے۔ انھوں نے کیسے یہ کام کیا؟ اس طرح سے یہ کام کیا کہ جنگ کے ۶۷ دن بعد،  عراق کی پوری بحری افواج کی بنیادوں کو اکھاڑ کر رکھ دیا۔"

عبد اللہ معنوی نے مزید کہا: "میں آپ کو  ۲۸ نومبر سے پہلے کا واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ کچھ آپریشنوں کا سلسلہ جاری رہا اور پھر ۲۸ نومبر آگئی۔ اگر آپ خارک (بوشہر میں ایک جزیرہ) کے اوپر آنے والے طیاروں  کو ہر روز کے حساب سے تقسیم کریں، جزیرہ خارک کے حصے میں روزانہ ایک طیارہ آتا ہے۔ یعنی بعثیوں نے اپنے ارادوں کو مصمم کیا ہوا تھا کہ انھوں نے جزیرہ خارک کو نابود کرنا ہے۔ پروگرام یہ تھا کہ ہم تین چھوٹی کشتیوں پر جائیں اور انھوں نے دو بڑی جیٹیوں البکر اور الامیہ پر جو سامان رکھا ہوا تھا ان پر بمباری کردیں۔ جس رات ہم نکلنا چاہ رہے تھے، چاند کی روشنی اتنی زیادہ تھی کہ وہ ہمیں دیکھ سکتے تھے اور دور سے ہی ہمیں مار دیتے۔ ہم تھوڑا قریب گئے، لیکن ہم نے صبح کے نزدیک پہنچنے  کیلئے وہاں پر تھوڑا صبر کیا۔ جب ہم قریب پہنچے تو چاند کی روشنی ابھی بھی تھی۔ دوسری طرف سے ہم دن کے مکمل اُجالے میں بھی نہیں جاسکتے تھے۔ اسی دوران بادل کے ایک ٹکڑے نے چاند کو چھپا دیا اور ہم آئل ٹرمینلز کی طرف بڑھے۔ اُس دن ہم نے بمباری شروع کی۔ کمانڈر محمد ابراہیم ہمتی   کی ذمہ داری فضائی حملوں کو روکنا تھا۔ اسی اثناء میں اچانک ایک عراقی طیارہ ہماری طرف آیا۔ طیارہ ڈائیور لگا رہا تھا کہ میں نے محمد ابراہیم سے کہا: کیا تمہیں طیارہ نظر نہیں آرہا؟! وہ مسلسل طیارے کی طرف فائرنگ کر رہے تھے۔  طیارہ اتنا نزدیک ہوگیا تھا کہ مجھے اُس کی حرارت کا احساس ہوا۔ وہ طیارہ عراق کی طرف چلا گیا۔ اُسے گولی لگی یا وہ عراق پہنچا ، اس بارے میں ہمیں کوئی اطلاع نہیں۔ میں شہید ہمتی کو ایک افسانوی انسان سمجھتا ہوں۔ اُن ۶۷ دنوں میں شہید ہمتی نے جنگ کی ہدایات دیں۔ وہ آگے چلتے تھے اور ہم اُن کے پیچھے ہوتے تھے۔ افراد انہیں اتنا پسند کرتے تھے کہ اُن کے لیے دن و رات فرق نہیں کرتا تھا، وہ جب بھی حکم دیتے، سمندر کی طرف چل پڑتے تھے۔

اس وقت سبلان بحری بیڑہ اسلامی جمہوری ایران کے پرچم کو پوری دنیا میں لیکر جاتا ہے۔ میں اُس کے کیپٹن سے بات کر رہا تھا۔ وہ بتا رہے تھے جب ہم باب المندب میں تھے۔ ایک یورپی بحری جہاز ہمارے قریب آیا۔ ہمارے پاس ایسے مدار ہیں جن کے ذریعے ہم دوسرے بیڑوں سے رابطہ کرلیتے ہیں۔ وہ سوچ رہے تھے کہ سبلان ایسا ہے کہ جو بہت مشکل سے آگے بڑھتا ہوگا۔ اس بحری جہاز نے رفتار بڑھانا شروع کی۔ ہمارے بحری جہازوں میں ایسے ٹربائن  لگے ہیں جس سے اُن کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے۔ میں نے افراد سے کہا اب یہاں پر نیچا دکھانا پڑے گا۔ ہم نے ٹربائن سے استفادہ کیا۔ وہ بحری جہاز تھوڑا سا آگے تھا۔ بہت زیادہ دھواں نکال رہا تھا اور پتہ چل رہا تھا کہ وہ اپنی پوری کوشش کر رہا ہے۔ ہم آہستہ آہستہ گئے اور اُس سے آگے نکل گئے۔ اُس جہاز نے اپنا پورا زور لگا لیا لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ ہم بین الاقوامی فضا میں مرحبا اور شاباش کے لئے پرچم کو اوپر اٹھاتے ہیں۔ اس یورپی بحری جہاز نے بھی ہمارے احترام میں اپنے پرچم کو اوپر اٹھایا۔ محمد ابراہیم ہمتی بحری افواج کی بنیاد بنانے والے ہیں۔ امام خمینی ؒ کا قول ہے: بحری افواج خلیج فارس کے پانی میں ایک نگینہ کی طرح چمک رہی ہے۔"

چھوٹی کشتیوں کی بہادری

پروگرام کے دوسرے راوی کیپٹن اصغر رضائی نے کہا: "عراق کی کوشش تھی کہ وہ ۴۸ گھنٹے میں  خوزستان پر قبضہ کرلے اور ۷۲ گھنٹوں میں تہران تک پہنچ جائے، لیکن ان کمانڈوز اور شہداء نے  انہیں ۶ دن تک خرم شہر کے داخلی راستے پر روکے رکھا۔  کچھ دنوں تک شلمچہ کے ٹیلوں کے پیچھے روکے رکھا۔ میں اور میرے مورچہ  کے ساتھیوں کے لئے دن اور رات کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ حتی ہمیں  ہمارے کھانے کا حصہ بھی نہیں مل پاتا تھا۔  لوگوں نے صبح ہمیں ایک تربوز دیا اور ہم نے وہ کھایا۔ دوپہر کو  جب واپس آئے تو کچھ نہیں تھا۔ جو صبح تربوز کھایا تا میں اُسی تربوز کے چھلکے کو کھانے پر مجبور تھا تاکہ میری بھوک ختم ہو اور میں بعثیوں کا مقابلہ کرسکوں۔  جنگ کے ۲۸ ویں دن، میری بائیں ران پر ایک ٹکڑا لگا اور میں زخمی ہوگیا۔ مجھے خرم شہر کے کسی ایک گھر میں لے گئے۔ میرے پاؤں پر پٹی باندھ رہے تھے کہ اچانک ایک بعثی فوجی جو سوڈانی تھا، آن پہنچا۔ لمبے قد کا تھا۔ کمانڈو کی طرح داخل ہوا تھا۔ صرف میں متوجہ ہوا تھا۔ میں دائیں طرف والی کھڑکی کے پاس تھا۔ ہال کا دروازہ بیچ میں تھا۔ بائیں طرف بھی ایک کھڑکی  تھی۔ وہ جیسے ہی اندر آیا گر گیا۔ میں اُسی درد کے عالم میں،  اگر کوئی بھی غلطی کرتا، وہ مجھ پر قابو پالیتا۔ میں نے گن تان کر اُسے روکنے کا کہا۔ اُس نے ایک چاقو اٹھا کر میری طرف پھینکا کہ میں ایک اور جگہ سے زخمی ہوگیا۔ میں نے اُس کے پیٹ میں ۳۲ گولیاں اتار دیں۔ میں نے اتنے لمبے بدن کو  گرادیا۔ میں ۱۷ سال کا تھا اور میں لاش سے ڈرتا بھی تھا۔ اس کی شکل کالی اور گھونگریالے بال تھے۔ اُس کے جوتے کا نمبر گیارہ اور میرے جوتے کا نمبر چھ تھا۔ میں نے اُس کی تلاشی لی تو اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ میں نے اُس کا شناختی کارڈ اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا: عمر خالد جاسم فاضل راشدی!  میں نے اپنے آپ سے کہا: کم بخت کا کتنا لمبا نام ہے!

خرم شہر کی سمندری چیک پوسٹ اس شہر کے مشرقی حصے میں ہے۔ ہم نے اس کے مغربی حصے کو ۳۴ دن کی دندان شکن جنگ کے بعد حاصل کیا، لیکن بعثی ہم پر  غالب ہوگئے۔ شہر میں موجود منافقین ہمارے خلاف جنگ کرتے تھے۔ منافقین کفار سے بھی زیادہ برے ہیں۔ ایک رات کو میں نے نگہبانی کی ڈیوٹی کرتے ہوئے دیکھا ایک کشتی ہمارے قریب آرہی ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی ہے اور اُس میں کچھ تیراک بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں فوراً سپاہ  کے سا تھیوں کے مورچے میں گیا اور میں نے اُن سے رات میں دیکھنے والی دوربین لی۔ میں دوربین سے  دیکھ کر مطمئن ہوگیا۔ میں نے کہا کچھ بھی نہیں کرنا۔ میں نے دیکھ لیا ہے اور مجھے کمانڈر سے احکامات لینے چاہئیے۔ میرا ایک آبادانی کمانڈر تھا کہ ہمارے ایک دوسرے سے تعلقات اچھے تھے۔ میں نے انہیں جگایا اور پھر وہ دو بجے تک بیدار رہے۔ جب وہ نیند سے بیدار ہوئے، وہ اتنے نیند میں تھے کہ انھوں نے ہینڈ گرنیڈ کی جگہ ٹارچ کو پانی میں پھینک دیا تھا۔ میں جی تھری کے پاس گیا اور میں نے اتنی گولیاں برسائیں کہ جی تھری گن کی نالی نائٹ بلب کی طرح لال ہوگئی تھی۔ اُن کے دھماکہ خیز مواد پر گولیاں لگیں اور کارون نہر میں ایک بڑی آگ لگی۔ ہم نے اُن تیراکوں کو شب خون مارنے نہیں دیا۔

 

جنگ میں زندگی گزار دی

پروگرام کے تیسرے راوی میر منصور سید قریشی نے کہا: " وَ جَعلنا مِن بَین اَیدیهم سَداً و مِن خَلفِهِم سَداً فَاَغشَیناهم فهم لایُبصِرون۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران، آپریشنوں میں بحری افواج  کے ہائر کرافٹ اسکوارڈ کے اسٹاف  کے ساتھ تھا۔ ہمارے گھر والے جزیرہ خارک میں تھے۔  میں سن ۱۹۷۴ء میں بحری افواج میں بھرتی ہوا اور سن ۱۹۷۵ء میں  مجھے کمانڈنگ کورس کرنے کے لئے امریکا کی بحری اکیڈمی بھیجا گیا۔ میں جنگ شروع ہونے سے ایک مہینہ پہلے ایران واپس آگیا تھا۔ جنگ شروع ہونے سے ۱۵ دن پہلے میں اپنے دو ساتھیوں، امیر مجید عابدی اور امیر سجاد کوچکی کے ساتھ جزیرہ خارک منتقل ہوا۔ ۲۲ نومبر کو جب جنگ شروع ہوئی، میں تہران گیا ہوا تھا تاکہ اپنی بیوی کا جہیز چونکہ ہم نے کچھ عرصہ پہلے ہی شادی کی تھی، تہران سے بوشہر اور پھر وہاں سے جزیرہ خارک لے آؤں۔ میں ۲۲ نومبر کو بوشہر پہنچا۔ ۲۳ نومبر کو جب خارک پر پہلا فضائی حملہ ہوا، میں ایک ٹرک کے ذریعے اپنے گھر کا سامان  جزیرے پر لا رہا تھا۔ حملے کا پہلا دن تھا اور جزیرے پر رہنے والے تمام افراد جزیرے کو خالی کر رہے تھے، سب کشتیوں کی تلاش میں تھے اور میں اپنے گھر کا سامان جزیرہ پر لے جا رہا تھا۔ میں، میری زوجہ اور میری چھ مہینے کی بچی جنگ کے پہلے دن سے آخری دن تک جزیرہ خارک پر ، ہم نے نہ فقط آپریشنوں میں شرکت کی بلکہ ہم نے جنگ کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ یعنی جزیرہ خارک میں آٹھ سالہ زندگی۔ آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران، جزیرہ خارک پر ۲۸۰۰ مرتبہ فضائی اور میزائل حملے ہوئے ہیں۔ ایسے دن بھی تھے جب  ۱۲ سے ۱۵ مرتبہ جزیرہ خارک پر حملہ ہوتا۔ چار مرتبہ ہمارے گھر کے سارے کھڑکی اور دروازے ٹوٹ گئے۔ ہمارا پورا گھر آہن کا بنا ہوا تھا اور اُس میں سورج کی روشنی نہیں آتی تھی۔

میں نے اپنی تقریر سے پہلے "و جعلنا ۔۔۔" کی آیت پڑھی، چونکہ اس آٹھ سالہ دفاع مقدس میں، جو چیز میرے اور میرے ساتھ رہنے والے لوگوں کے پاس موجود تھی، وہ اس آیت پر دل سے ایمان تھا۔ اس آیت نے تمام مشنوں میں ہماری مدد کی؛ جب خیبر آپریشن شروع ہوا ، ہم عراقیوں کی آنکھوں کے سامنے ۲۰۰ میٹر کے فاصلے سے مورچے کے اوپر سے گزرے اور  فضا میں معلق ہوگئے؛ ہائر کرافٹ کا ایئر شپ زمین سے الگ نہیں ہوسکا۔ اُس کا اگلا حصہ اور پچھلا حصہ بھی خالی ہوگیا تھا اور ہم مورچے پر لٹکے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ رات کو ہوا۔ عراقی ہماری آنکھوں کے  سامنے ۲۰۰ میٹر کے فاصلے پر تھے۔ ہم انہیں دیکھ رہے تھے۔ ہماری فوجیں بھی اور اُن کی فوجیں بھی فائرنگ کر رہی تھیں، لیکن یہ ایئر شپ نظر نہیں آرہا تھا اور میں اس کی وجہ بتاؤں گا۔ رات کو یہ ایئر شپ اُسی صورت میں رہا، ہم نے اُس پر سے سارا جنگی سامان اور فوجیوں کو نیچے اُتار لیا۔ باقی فوجی بھی آئے کہ ہم ایئر شپ کے پچھلے حصے کو مٹی سے بھر دیں تاکہ وہ زور لگا کر اوپر اٹھ سکے۔ پورے ۴۸ گھنٹوں تک، دن کے اُجالے میں، عراقیوں کی آنکھوں کے سامنے، جو طیارے آتے تھے، ہم ایک دوسرے کو دیکھتے تھے، وہ لوگ فائرنگ کر رہے تھے اور ہم بھی فائرنگ کر رہے تھے اور یہ ایئر شپ جس کا طول ۲۳ میٹر اورعرض ۱۲ میٹر اور بلندی ۱۰ میٹر کی تھی، اتنے بڑے حجم کے ساتھ میرے خیال سے ۲۰۰ میٹر کے فاصلے سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بالآخر ہم نے اپنا کام انجام دیا اور واپس آگئے۔ جب ہم اپنے مورچے میں واپس آئے تو معمول کے مطابق ٹیکنیکل اسٹاف ایئر شپ کی سروس کرنے میں مشغول ہوگیا۔ جب انھوں نے ایئر شپ کی باڈی کو صاف کیا تاکہ فیلٹروں کا راستہ کھل جائے، ہم نے وہاں پر لکھا ہوا دیکھا: وَ جَعلنا مِن بَین اَیدیهم سَداً و مِن خَلفِهِم سَداً فَاَغشَیناهم فهم لایُبصِرون۔ہمیں اس وقت نہیں پتہ تھا کہ یہ کس نے اور کس وقت لکھا ہے۔  میرے خیال میں اسی آیت کی وجہ سے عراقیوں کو یہ ایئر شپ نظر نہیں آرہی تھی۔ اس کے بعد ہم نے تمام ایئرشپ پر اس آیت کو لکھ دیا۔

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۸ نومبر  ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۶ دسمبر کو منعقد ہوگا۔



 
صارفین کی تعداد: 2474


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔