یادوں بھری رات کا۳۰۵ واں پروگرام

"بمو" نامی علاقے کی شناخت کی یاد میں واقعات کا بیان

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2020-1-9


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۵  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۹ اگست  ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں محمد عظیمی، پیروز حناچی، احمد استاد باقر اور مسعود شاد لو نے ایسے شجاع اور بہادر افراد کے واقعات بیان کئے جنہوں نے آپریشن والے  کوہستانی علاقے بمو میں شرکت کی تھی۔  کیونکہ دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کے ۳۰۵ ویں پروگرام میں "بمو: قصر شیریں اور ذہاب کے علاقوں میں شناخت کے واقعات" نامی کتاب  کو نئے اشاعت کی مناسبت سے ایک دفعہ پھر متعارف کروایا گیا۔

چند اہم نکات

پروگرام کے پہلے راوی نجف اشرف ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر سردار حاج محمد عظیمی تھے۔ انھوں نے کہا: "اس سےپہلے کہ بمو کے واقعات کو بیان کروں،  میں چند نکات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا نکتہ یہ کہ  ہمارے ملک میں دفاع مقدس ایک بہت ہی قیمتی خزانہ ہے  اور بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم آج تک اُس سے صحیح سے استفادہ نہیں کرپائے۔ ہم لوگ حتی دفاع مقدس کے کم سے کم  حقائق سے بھی پردہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے  کہ ہماری حالیہ اور آئندہ کی نسلیں اُس پر زیادہ توجہ دیں اور وہ جان سکیں کہ کیا ہوا تھا۔ ہمارے دوستوں نے زحمت اٹھائی ہے  اور اُس زمانے کی کچھ تصویروں کو منتشر  کیا ہے، میرے خیال سے  ان تصویروں میں سے ہر تصویر  میں ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کیا کوئی سپاہی اس سن و سال، صلاحیتوں اور آپریشن کی  شرائط  کے ساتھ  کوئی کام انجام دے سکتا ہے  جو اُن دنوں میں انجام دیئے گئے؟

دوسرا نکتہ  جو میں آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ خداوند متعال کے لطف و کرم ، سپاہیوں کی فداکاری اور ہماری قوم کے بے مثال  ایثار سے، ہم آج اُن جگہوں پر پہنچ گئے ہیں اور مستقر ہوگئے  ہیں کہ لوگ بہت زیادہ جدوجہد کے بعد بھی وہاں تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ہمارے دوست بمو کی بلندیوں پر گئے اور وہاں کی تصویریں بنائیں۔ وہ علاقہ آج ہمارے سپاہیوں کے کنٹرول میں ہے۔ جب ہم بمو کی بلندی پر جاتے ہیں، اُن کے کام کی عظمت کو اور زیادہ سمجھ پاتے ہیں۔ یہ کہ اُن بہادر جوانوں نے جو ہماری دفاعی پوزیشنوں کو سنبھالے ہوئے تھے انھوں نے کتنی تکالیف اٹھائی ہیں؛ ہمیں دفاع مقدس میں اس نقطہ کی طرف احساساتی  نکتہ نظر سے توجہ کرنی چاہیے۔

تیسرا نکتہ یہ  کہ ہم مغربی علاقے اور ہمارے  اہل سنت کے رہائشی علاقوں میں خاص شرائط کے حامل تھے۔ صوبہ کرمانشاہ، سرحدی مراکز اور وہاں کے علاقے میں بعض رہنے والوں کی زبان، کُرد زبان ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ دشمن انقلاب کے شروع سے ہی یہ گمان کر رہا تھا  کہ وہ اس قومی اور مذہبی تقسیم سے کچھ نتائج حاصل کرسکتا ہے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ وہ کردی نعرے بازی اور مذہبی بحثوں کو ہوا دیکر ملک کے اس حصے کے حالات کو ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ یہاں کے لوگ انقلاب کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیں۔ اتفاق سے اُن کی چاہت کے برخلاف ہوا۔ وہ کام جو شہید محمد بروجردی جیسے لوگوں کی ہمت سے انجام پایا۔ صوبہ کرمانشان کے ۹۸۰۰ شہداء میں سے، ۱۳۸۲ شہداء ہمارے اہل سنت بھائی اور کرد زبان افراد ہیں ۔ ہمارے ۷۳۰ شہید ہونے والے افراد "دالاھو" کے علاقے سے ہیں۔ وہ لوگ خاص طور سے انقلاب مخالفین سے ہونے والی جھڑپوں میں شہید ہوئے۔

 

 پہلا دن اور انگور کے باغوں کے پاس

جب بمو میں آپریشن ہونا طے پایا، میں آپریشن کی انٹیلی جنس فورس میں نہیں تھا؛ میں جوانرود اسٹاف کا انچارج تھا۔  ہمارے بھائی سردار حاج اکبر حاجی بابائی ہمارے کمانڈر تھے۔ حاج رحمان حیدری آپریشن کے انچارج تھے۔ شہید محمد ابراہیم ہمت وہاں آئے اور ایک میٹنگ رکھی۔ آپریشن انجام دینے کیلئے یہ سب سے پہلی میٹنگ تھی۔ چونکہ شہید ہمت نے پاوہ میں کام کیا ہوا تھا، انہیں پتہ تھا کہ جوانرود اور پاوہ میں کچھ مشترکات پائے جاتے ہیں اور ایک جیسے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ اس علاقے میں ہمارے پاس علاقائی فورسز بھی ہیں  اور ہمارے یہ اہل سنت برادران مختلف سطحوں پر کام کر رہے ہیں۔ ہماری خاص فورسز علاقائی فورسز تھیں۔ کچھ افواج علاقے میں موجود کمانڈروں کی وجہ سے دوسرے علاقوں سے آئی ہوئی تھیں ؛ جیسے شہید سعید مہتدی جو پیشوا کے رہنے والے تھے۔ کچھ اس شہید کے ساتھ اور کچھ حاج رحمان حیدری کے ساتھ جوانرود آئے ہوئے تھے۔ شیراز اور اُس کے آس پاس کے افراد بھی آئے ہوئے تھے۔ ہمارے پاس ایران کے ہر علاقے سے فوجی تھے۔ حاج ہمت کو چونکہ معلوم تھا، انھوں نے حاج اکبر سے کہا کہ ہم اس علاقے میں آپریشن کرنا چاہتے ہیں۔ اس آپریشن میں جو حساسیت پائی جاتی ہے اس کی وجہ سے ہم علاقائی  افواج کو اس معاملہ میں گھسیٹنا نہیں چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے آنے والے فوجی ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کے افراد کی مدد کریں۔ جناب حاجی بابائی بھی واقعاً محبت کرنے والے کمانڈر تھے کہ جنہوں نے اس درخواست کو قبول کرلیا۔ انھوں نے ہم میں سے چار پانچ لوگوں کو الگ کیا اور کہا: "آپ لوگوں کو اس وقت اپنے دفتر   کے کام سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ جائیں اور جاکر ڈویژن کے انٹیلی جنس افراد کی مدد کریں۔" علاقے میں ہمارے پاس نہ کوئی ہیڈ کوارٹر تھا اور نہ کوئی چھاؤنی تھی۔ علاقے کی کم سے کم معلومات حاصل کرنے کا کام انجام پاچکا تھا، لیکن یہ کہ ہم نے کوئی مرتب کام کیا ہو، ایسا نہیں تھا!

سب سے پہلے دن جب اس علاقے میں آنا طے پایا، ہم شاخ شمیران کے اطراف کے علاقے میں گئے۔ عراقی وہاں پر مستقر نہیں تھے، لیکن یہی بارزانی قبیلہ کے افراد جو اس وقت بھی ہیں، ان کا علاقے میں تسلط تھا اور وہ رفت و آمد کرتے تھے اور انھوں نے علاقہ میں سکونت اختیار کی ہوئی تھی۔ انھوں نے مستقل طور پر سکونت اختیار نہیں کی تھی، لیکن  یہ علاقہ ان کے زیر نظر تھا۔   پہلے دن طے پایا کہ ڈویژن کی تمام ٹیمیں اور انٹیلی جنس کے تمام سپاہی علاقے کے اندر جائیں اور ہم صبح سے رات تک وہاں رہیں اور کوئی بھی ہمیں نہ دیکھے۔ خاص طور سے ہم انہی بارزانیوں کی رفت و آمد سے پریشان تھے۔ اگر وہ لوگ ہمیں دیکھ لیتے، سارا کام خراب ہوجاتا۔ شاخ شمیران کے علاقے میں ایک باغ تھا ، جس میں ایک چشمہ تھا۔ اس وجہ سے کہ وہ لوگ ہمیں نہ دیکھیں، ہم چشمہ کے نزدیک نہیں گئے۔ ہم اوپر کی طرف گئے۔ بہت گرمی تھی اور بہت ہی کٹھن راستہ تھا۔ جھاڑی، درخت اور کوئی سایہ نہیں تھا۔ افراد نے مغرب کے وقت تک ہمت دکھائی کہ مختلف علاقوں کی پہچان حاصل کرلیں اور اُس کے بعد کام کو تقسیم کیا جائے اور ہر ٹیم اپنے ڈیوٹی کے حساب سے علاقے میں جاکر کام کرے۔ لوگوں نے مغرب تک ہمت دکھائی۔ بھوک اور پیاس نے بہت دباؤ ڈالا ہوا تھا۔ سورج کی گرمی میں تھے۔ کچھ افراد تو بالکل ہی ہمت ہار چکے تھے۔ غروب کے نزدیک کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ اب بارزانی قبیلے کی رفت آمد نہیں ہوگی، ہم چشمے کے نزدیک آئے ، وہاں ہم نے دیکھا کہ انگور کے باغ نسبتاً اچھے ہیں۔ افراد نے اُن انگوروں کو اُس بہتے ہوئے گرم پانی کے ساتھ کھایا۔ انھوں نے کھانے میں زیادتی کی اور خلاصہ یہ کہ جب تک مکمل تاریکی چھا جاتی، میں نے دیکھا کہ آج رات تو کوئی بھی ٹیم کام پر نہیں جاسکتی۔ اُس رات ہم ہیڈ کوارٹر واپس آگئے اور دوستوں  کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ ہمارا کامل بعد کیلئے ٹل گیا۔

 

سب سے بڑے چیلنج کا بہترین موقع غنیمت میں تبدیل ہونا

یادوں بھری رات کے۳۰۵  ویں پروگرام کے دوسرے راوی، سن  ۱۹۶۴ء میں تہران شہر میں پیدا ہوئے۔ اُن کے پاس شہروں کی مرمت اور تاریخی شہروں کی تعمیر نو کا اعلیٰ سرٹیفیکٹ ہے۔ عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں اور  ۱۹۸۱ء سے لیکر ۱۹۸۸ء تک  کے سالوں میں  انھوں نے مطلع الفجر، و الفجر مقدماتی اور خیبر  وغیرہ جیسے آپریشنوں میں شرکت کی ہے۔  انھوں نے جزیرہ مجنون میں خیبر پل کی تعمیر، کچھ انجینئرنگ آپریشنوں اور صحرائی ہسپتالوں کے ڈیزائن اور تعمیر اور مضبوط ایمرجنسی وارڈز بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ تہران کے میئر پیروز حناچی، پروگرام کے دوسرے راوی تھے۔ انھوں نے کہا: "سن ۱۹۷۹ء کے ستمبر اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد، ملک میں ایسا واقعہ رونما ہوا جو شاید اُس زمانے میں اور اس وقت جب ہم اُس پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ ملک کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ فوج کا شیرازہ بکھر چکا تھا  اور ملک کے اندر اتحاد نہیں تھا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں جیسے کردستان، ترکمن کا صحرا اور دوسرے علاقوں میں بد امنی پھیلی ہوئی تھی  اور عراق کا ایران پر حملہ کردینا بھی ایک آخری چیلنج تھا۔ چیلنج کو موقع غنیمت میں تبدیل کرنا اُن اہداف میں سے ایک ہے کہ جس کیلئے  اسٹرٹیجک مینجمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور امام خمینی (رہ) نے یہ کام کیا۔ انھوں نے اس سب سے بڑے چیلنج کو ملک کیلئے بہترین موقع غنیمت میں تبدیل کردیا۔  اگر آج ملک کی عزت ہے اور وہ علاقے میں " وَاَعِدّوا لَهُم مَااستَطَعتُم مِن قُوَّه " کے مصداق پر عمل کر رہا ہے، یہ اُن تمام کوششوں کی وجہ سے ہے جو آٹھ سالہ دفاع مقدس میں انجام پائیں اور اس موضوع کی بنیاد اُس وقت رکھی گئی۔

 

ابراہیم ہادی سے دوستی

میں اُس زمانے میں سترہ یا اٹھارہ سال کا تھا۔  ملک میں جو ماحول تھا اُس کی بدولت، میں نے میٹرک کرنے  کے فوراً بعد، جیسا کہ یونیورسٹیاں بھی بند تھیں اور جنگ بھی شروع ہوچکی تھی، میں نے اس راستے کا انتخاب کیا۔ میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ سپاہیوں کے مورچوں میں اسپرے کرنے کے بہانے  مغربی گیلان جایا کرتا۔  ہم خود کو سپاہی نہیں سمجھتے تھے۔ ہم ٹرمینل جاتے، وہاں سے بس میں سوار ہوکر اسلام آباد چلے جاتے۔ صبح چھ سے آٹھ بجے کے درمیان وہاں پہنچ جاتے اور پھر وہاں سے دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر مغربی گیلان چلے جاتے۔ گاڑیاں ہمیں وقفے وقفے سے لیکر جاتی تھیں۔  ایک دفعہ میرا ایک ایسے منظر  سے سامنا ہوا کہ اُس کی یاد اور وہ واقعہ ابھی تک میرے ذہن میں موجود ہے۔ وہ سہ راہ جو سرپل ذھاب سے مغربی گیلان کی طرف جا رہا ہے، میں وہاں اترگیا۔ میں نے ایک سپاہی کو دیکھا کہ جس کے سر پر  تنکوں کی بنی ٹوپی تھی اور اُس کی داڑھی لمبی تھی۔ اُس نے کردی پینٹ پہنی ہوئی تھی، اُس نے کمر میں ایک شال لپیٹی ہوئی  تھی اور  کندھے پر جی تھری گن لٹکی ہوئی تھی۔ میرا تصور یہ تھا کہ تمام سپاہی اسی حلیے میں ہوتے ہیں۔ ہم اُس زمانے تک  اس حد تک  درگیر نہیں ہوئے تھے۔ شروع میں ہمیں تھوڑا ڈر لگا، لیکن ہم سوزوکی میں بیٹھ کر مغربی گیلان کی طرف چلے گئے۔ یہ شخص شہید ابراہیم ہادی تھے اور بعد میں ہماری دوستی ہوگئی۔ وہ و الفجر ابتدائی  آپریشن میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے، ناپید ہوگئے تھے اور اُن کا جنازہ بھی آج تک واپس نہیں آیا۔ وہ وہی تھے جو محاذ پر نئے آنے والے لڑکوں کو مغربی گیلان کے علاقے میں آگے کی طرف لے جاتے۔ اس لئے کہ لڑکوں کا خوف نکل جائے، وہ کہتے ہاتھ لگاؤ، لڑکے ہاتھ لگاتے تو وہ کہتے کہ عراقی ٹینک ہے۔ اُن کا شیر جیسا دل تھا اور وہ نڈر و بے باک تھے۔

تین کتابیں

ایک اچھا کام جو آرٹ شعبے نے جنگ اور انقلاب کے واقعات کو ریکارڈ کرنے کے سلسلے میں انجام دیا، وہ کتابوں کی اشاعت ہے۔ شائع ہونے والی ان کتابوں میں کہ میرے عقیدے کے مطابق جو مجھے موقع ملا اور میں نے تحقیقی کام کیا، تین کتابیں تحقیقی اعتبار سے بہت قیمتی ہیں؛  ایک "بمو"، دوسری "دستہ یک" کہ رہبر نے بھی جس کی طرف اشارہ کیا ہے اور "دا"۔ "دستہ یک" نامی کتاب  فوجیوں کے ایک گروپ،  ایک بٹالین، ایک بریگیڈ اور ایک لشکر کے دستے کے بارے میں جنہوں نے ایک ہی رات میں صبح تک فاؤ آپریشن (آٹھواں و الفجر) میں شرکت کی کہ اُن کی اچھی خاصی تعداد شہید بھی ہوئی اور اُس میں سے بہت کم لوگ باقی بچے ہیں۔

 

و الفجر ابتدائی

مجھے و الفجر آپریشن میں شریک ہونے کا موقع ملا کہ بعد میں جس کا نام و الفجر ابتدائی  آپریشن میں بدل گیا تھا۔ طے پایا تھا وہ آپریشن، و الفجر یک آپریشن ہو لیکن جیسا کہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوا اور شروع ہونے سے پہلے ہی آپریشن کا راز فاش ہوگیا  اور سپاہیوں نے ایسے حالات میں عمل کیا کہ جب وہ واپس آرہے تھے، صحرا میں موجود عراقی ٹینکس اُن کا شکار کر رہے تھے، آپریشن کا نام تبدیل ہوگیا۔ اُس زمانے کا سدر نامی جڑی بوٹی کا ایک درخت اور رشیدہ چیک پوسٹ، وہی جگہ جہاں شہید ابراہیم ہادی ناپید ہوئے، ابھی تک باقی ہے۔  ایک ایسا ہائی وے جس نے قلعہ کی مانند عمل کیا  اور جڑواں ٹیلہ ذہن میں رہ گیا کہ اس آپریشن کے بہت سے شہداء کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آپریشن کی صبح جب سب کے چہروں کی رمق ماند پڑ گئی تھی اور ہم عقب نشینی کر رہے تے، انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے جناب حجت علی اوسط جو بولڈزر پر مسافروں کو سوار کرتے تھے اور وہ اُسی سے، سپاہیوں کو پیچھے لا رہے تھے۔ اُس پر لوگ اتنا زیادہ بیٹھے تھے کہ اس کا  اسٹرکچر ہی نہیں بچا تھا۔

 

دو عجیب پل!

"بمو" نامی کتاب کی چوتھی فصل میں شہید حاج بہروز پور شریف  کا ذکر ہوا ہے۔ میں اس شہید کا ذکر کرنا چاہتا ہوں  جنہوں نے جنگ کے غیر ممکن کاموں میں بہت زیادہ کردار ادا کیا۔ انھوں نے کبھی نہیں کہا کہ یہ کام غیر ممکن ہے اور نہیں ہوگا ، وہ کوئی نہ کوئی راہ حل نکالنے کیلئے کوشش کرتے۔  ہماری ایک دوسرے سے واقفیت مغربی گیلان میں ہوئی۔ وہ ایسے لوگوں میں سے تھے جو جنگ کے پورے عرصے میں محاذوں پر رہے  اور خیبر اور بعثت نامی دو پل اُن کا اور اُن کے ساتھیوں کا منصوبہ تھا۔ دونوں پلوں میں ٹیکنیکل ظرافت اور باریک بینی پائی جاتی ہے۔ ان چیزوں کی کہیں ٹریننگ نہیں دی گئی تھی اور یہ سب اعتماد بہ نفس ، خود ا عتمادی اور ایسی مشکلات کیلئے راہ حل نکالنے کا نتیجہ  ہے جو اُس زمانے میں موجود تھیں۔ طے پایا تھا کہ خیبر آپریشن کیلئے کسی ایک محاذ پر جانے کیلئے ہم ایران کے خشکی والے علاقے سے مجنون جزائر کی طرف جائیں۔ فاصلہ تقریباً چودہ کلومیٹر تھا۔ اس پل کو ڈیزائن کرلیا گیا اور یہ طے تھا کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ اس پل کو بنانے کیلئے سپورٹ کرنے والا عملہ ملک کے اندر تھا۔ تقریباً اُس زمانے میں ملک کے تمام بڑے صنعتی کارخانے، چاہے وہ پارس ویگن بنانے کا  کارخانہ ہو یا فلزی کارخانہ ہو اور اُس زمانے کی بہت سی اہم کمپنیوں نے اس پل کے ڈھانچے کو بنانے کی ذمہ داری اور یہ کہ اسے کیسے وہاں تک پہنچایا جائے، اس کی ذمہ داری قبول کرلی۔ اس پل کو غرب تہران کے جنوب میں واقع فوج کے لاجسٹک گیراج میں لے جایا گیا۔ وہاں سے  ریل کے ذریعے ملک کے جنوب میں اور وہاں سے ٹریلر کے ذریعے خیبر کے علاقے تک پہنچایا گیا۔ ہر ٹریلر کم سے کم چھ حصوں کو لے جاسکتا تھا۔ اگر میں غلطی نہ کروں تو تقریباً کوئی چھ یا سات ہزار ٹکڑے علاقے میں بھیجے گئے اور یہ پل بنایا گیا۔ ہمارا آپریشن ایسی جگہ ہوا تھا کہ ہم صرف کشتیوں کے ذریعے سپاہیوں کو سپورٹ کرسکتے تھے۔ یہ چیز بنیادی طور پر دنیا میں عام طور پر ہونے والی جنگوں میں قابل قبول نہیں ہے کہ آپ ایک لشکرکو بھیج دیں اور پھر کشتی کے ذریعے اُسے سپورٹ کریں۔  یہ پل بن گیا اور اُس کے بعد اُسے ہائی وے سے متصل کردیا گیا۔ اُس سے زیادہ عجیب پل بعثت تھا جو نہر اروند کے اوپر بنایا گیا تھا۔ ہم نے نہر اروند کے ایک بڑے حصے کو پائپ سے بھر دیا تھا۔ یہ آئیڈیا کہ بھاری پائپوں کو جن کے تین پائپ ایک ٹریلر میں آتے تھے،  کس طرے علاقے تک لے جاکر نہر اروند کے وسط میں لے جاکر جہاں لگانا ہے وہاں لگایا جائے اور اُس کی راڈوں کو وصل کیا جائے یہ خود ایک منصوبہ تھا جسے بہترین اور خلاق ذہنوں نے بنایا تھا۔

میں ہر سال ستمبر میں جب یونیورسٹیاں کھلتی ہیں، تعمیراتی شعبے میں پڑھنے والے طالب علموں  کو ان دو پلوں کی جنگ میں ٹیکنیکل ابحاث  کی تاثیر کے عنوان سے متعارف کرواتا ہوں ؛ ہمیں عام طور سے اس موضوع پر بیان کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بعد میں پھر جن چینلجز کا سامنے ہوا، وہ تعمیراتی کام جو ہم جنگ کے زمانے میں انجام دے رہے تھے وہ بھی بدل گئے۔ اوائل جنگ میں عراق کا حملہ اتنا شدید نہیں تھا اور ہمیں زیادہ سے زیادہ گولوں کے ٹکڑوں کا سامنا تھا۔ جس کے مقابلے میں بجری، فلزی، گتے کی بوریاں ہی کافی تھیں۔ جب عراق کی طرف سے ہونے والے حملوں میں شدت آگئی اور مورچوں کو براہ راست ہدف بنانے کا امکان پیدا ہوا، انجینئر حضرات بیٹھے اور انھوں نے ٹراپیزوڈیل فریم ڈیزائن کئے کہ جس پر بہت زیادہ مٹی ڈالی جاتی اور وہ بمب کے ٹکڑے کیلئے رکاوٹ بن جاتا، لیکن یہ پھر بھی براہ راست ٹینک کے گولے یا طیارے کی بمباری کے مقابلے میں اتنے مضبوط نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے کہ خاتم ہستپال میں اسی طرح کا میٹریل لگایا گیا تھا۔ جب ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جاتا، تویہ اس کا مقابلہ نہیں کرپاتے تھے۔ جنگ میں حاضر انجینئر حضرات نے کنکریٹ کی تجویز پیش کی اور کمانڈروں کو کبھی بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ کنکریٹ  کوئی مؤثر چیز ہوگی، یہاں تک کہ طے پایا کہ کچھ ہسپتال کنکریٹ سے بنائے جائیں۔ چوئبدہ میں زہرا (س) ہسپتال، امام رضا (ع) ہسپتال اور ایک ہسپتال فاؤ میں بھی بنایا گیا۔ ان میں سے ایک ہسپتال پر براہ راست طیارے کا راکٹ لگا اور ایک فرد شہید ہوا۔ ہسپتال کی عمارت خراب نہیں ہوئی اور جو ٹکڑا خراب ہوا تھا اُسے بہت جلدی تعمیر کردیا گیا اور ہسپتال اپنے معمولی حالت میں آگیا۔

راہ حل سوراخ!

یادوں بھری رات کے۳۰۵  ویں پروگرام کے تسلسل میں کتاب "بمو" کے ایک راوی  احمد استاد باقر (دفاع مقدس میں شیخ احمد کے نام سے مشہور) نے اُس زمانے کا ایک و اقعہ سنایا: "بمو ایسی بلندی ہے کہ جس کا طول اوسطاً بارہ کلومیٹر ہے اور اُس کا عرض چھ کلومیٹر ہے۔ چاروں طرف سے کتیبوں کی صورت میں تین سو سے چار سو میٹر چوڑی چٹانیں ہیں۔ ایک دشواری جس کا ہمیں سامنا تھا، یہ تھی کہ جب ہمارے ساتھی معلومات اکٹھا کرنے جاتے، تو انہیں کچھ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ سب سے پہلی رکاوٹ انقلاب مخالف افراد تھے جن کے وہاں کیمپ تھے اور ہمیں اُن کی کمین گاہوں سے گزر کا جانا پڑتا تھا۔ شہید قہرمانی بھی انہیں  کمین گاہوں میں گرفتار ہوئے اور بالآخر اُن کے حملے سے شہید ہوگئے۔  ہماری دوسری مشکل طبیعی رکاوٹوں کا سامنا کرنا تھا؛ چٹانوں کے اوپر جانا حالانکہ  معمولی طور پر اس راستے عبور کرنا بالکل بھی ممکن نہیں تھا۔

میں سوراخ والے راہ حل کے بارے میں کہوں گا کہ بمو کی بناوٹ کچھ اس طرح کی ہے  کہ کہیں سے زمین نیچے ہے اور کہیں سے زمین اوپر اٹھ گئی ہے اور مختلف جگہوں سے چٹانیں نکل آئی ہیں۔ سوراخ والا راستہ وہ حصہ تھا کہ چٹانوں پر  پتھر گر گیا تھا  اور ہمیں پائپ کی طرح کے ایک سوراخ کے اندر سے گزر کر اوپر جانا پڑتا تھا۔ ہمیں جس سوراخ سے اوپر جانا تھا، اُس کا اندرونی حصہ اتنا تنگ تھا کہ اوپر جانا بالکل بھی ممکن نہیں تھا۔ ہماری کمروں سے تھرماس، ہینڈ گرنیڈ اوراسلحہ بندھا ہوتا تھا۔ ہمیں انہیں نکالنا پڑتا۔ ایک فرد اوپر جاتا اور انہیں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں تھما دیتے۔ سوراخ کے اندر ہم مجبور تھے کہ اپنے بدن کو دیوار سے دبائیں۔ جیسا کہ کوئی کنارہ موجود نہیں تھا، ہمیں اپنے پیروں سے نیچے کی طرف دباؤ دینا پڑتا اور اس دباؤ سے آہستہ آہستہ، کچھ میٹر اوپر چلے جاتے تاکہ ایسی جگہ تک پہنچ جائیں جہاں ہاتھ رکھنے کی جگہ ہو اور ہم وہاں سے گزر سکیں۔ ہم دسیوں بار اس سوراخ سے اوپر گئے۔ اگر کسی کا بدن تھوڑا موٹا ہوتا تھا، وہ سوراخ والے راستے میں پھنس جاتا۔ شہید علی اکبر حاجی پور جو حضرت رسول (ص) ڈویژن کے عمار بریگیڈ کے کمانڈر تھے ، ہم ان کو پہلی مرتبہ وہاں سے اوپر لے گئے۔ وہاں پر جو پتھر موجود ہیں، عرفاً انہیں کانٹوں کی قسم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جب ہم ان پتھروں سے اوپر جانا چاہتے تھے، ہمارا بدن پتھروں میں پھنس جاتا اور ہمارے کپڑے پھٹ جاتے۔ اُس زمانے میں ہمیں چھ مہینے میں ایک لباس دیا جاتا تھا۔ فوجیوں کا سہم سال میں ایک جوڑی جوتا ہوتا تھا، ہما را سہم دو سال میں ایک جوڑی جوتا تھا اور اگر وہ اس عرصے صحیح سلامت رہتا، افراد نئی جوڑی نہیں لیتے تھے۔  جب ہم بمو کے علاقے میں داخل ہوئے اور وہاں کی معلومات اکٹھا کرنے کا کام شروع کیا، ہر تین مہینے بعد ہمارا ایک جوڑی جوتا پھٹ جاتا تھا۔ بعد میں ہم ڈویژن کے سپورٹنگ اسٹاف سے جتنا بھی کہتے کہ بھائیوں! ہمیں ضرورت ہے، وہ نہیں سنتے تھے۔ ہم پھٹے کپڑوں کے ساتھ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت کرتے اور سب ہم پر ہنستے تھے۔ ہم اپنے ذاتی کپڑے پہننے پر مجبور ہوگئے تھے۔ ہم پر اعتراض کرتے تھے کہ آپ لوگ سول ڈریس (ذاتی لباس) میں کیوں ہیں؟ اگر ہم کردی لباس پہن لیتے  تو ایک اور مشکل کھڑی ہوجاتی۔ کھانے کے سلسلے میں بھی ہم دشواری کا شکار تھے۔ چونکہ ہمیں ایسے کھانے کی ضرورت تھی جو چٹانوں سے اوپر جانے  میں ہماری جسمانی مدد کرتا۔ ایک خاص قسم کی غذا ہونی چاہیے تھی اور ہمیں ایسے خاص کھانے فراہم نہیں کیئے جاتے تھے۔ مساوات پر عمل کرتے تھے۔

بریگیڈ کے کمانڈر بمو کی بلندی پر

جب ہم پہلی دفعہ شہید حاجی پور کو  بمو کی بلندی پر لے گئے، موٹا پیٹ ہونے کی وجہ سے وہ سوراخ میں پھنس گئے۔ نہ وہ ا وپر جاسکتے تھے اور نہ ہی نیچے آسکتے تھے۔ اُن کے ساتھیوں نے اُن کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور اوپر کی طرف کھینچ رہے تھے۔ اُن کی سانس بند ہوگئی اور اُن کا دم گھٹنے لگا۔ پھر وہ بمو کے اوپر گئے ، اُس جگہ کو دیکھا اور انھوں نے جو توضیحات دینی تھیں، وہ مکمل ہوئیں۔ واپسی کے وقت بھی ہمیں اُسی سوراخ والے راستے سے واپس  آنا تھا اور وہ دوبارہ پھنس گئے۔ ایک ساتھی اُن کے شانہ پر کھڑا ہوگیا اور اوپر سے دباؤ ڈالنے لگاتاکہ وہ وہاں سے نکل کر نیچے چلے جائیں۔ ہمیں یہ فکر لاحق تھی کہ اُن پر جو دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہیں ایسا نہ اس دباؤ کی وجہ سے جگہ کھل جائے اور وہ چھ میٹر نیچے گر پڑیں اور اُن کے ہاتھ پیر ٹوٹ جائیں  اور اگر اُنہیں کوئی چوٹ لگ گئی تو ہم کیا جواب دیں گے؟ ہم سے کہیں گے کہ بریگیڈ کے کمانڈر کو لے گئے  اور اُن کا کیا حال بنا دیا! الحمد للہ اُن کو کچھ نہیں ہوا۔ اُنہیں نیچے لیکر آئے  ، اُن کی دیکھ بھال کی۔ وہ ایک تربیت یافتہ انسان تھے۔ ایسے انسان نہیں تھے جس نے جنگ نہ دیکھی ہو اور پہاڑوں اور بلندیوں پر چڑھنا اور اُترنا نہ آتا ہو۔ راستے کہ اختتام پر جب بعد والی رات کو ہم انہیں   نیچے لیکر آئے، ہمارے دوستوں نے اُن کی بغلوں میں میں ہاتھ ڈالا ہوا تھا اور انہیں کھینچ رہے تھے۔ اس طرح سے کہ جب وہ نیچے پہنچے، وہ فوراً ٹویوٹا پر بیٹھے  اور  قلاچہ کی طرف ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر کی طرف روانہ ہوگئے اور ایک ہفتہ تک نظر نہیں آئے۔

ہمارے سامنے ایک صحرا تھا جو ہماری دید میں تھا۔  ہم نے دستور دیا ہوا تھا وہاں سے کوئی نہیں آئے اور نہ ہی گزرے کہیں ایسا نہ ہو کہ عراقی یہاں ہونے والی رفت و آمد سے متوجہ ہوجائیں اور آئندہ ہونے والے آپریشن کی جگہ کو پہچان لیں۔ میں نے اچانک دیکھا کہ ایک ٹویوٹا دن دھاڑے، اُس صحرا میں بہت تیز رفتاری کے ساتھ ہماری طرف آ رہی ہے۔ اگر کوئی آنا چاہتا تھا تو اُسے رات میں آنا چاہیے تھا۔ میں نے فوجیوں سے کہا: "آگے بڑھو اور اُسے گرفتار کرلو۔"وہ لوگ گئے اور جب وہ واپس آرہے تھے، میں نے دیکھا کہ سب لوگ ہنس رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: " کیا ہوا ہے؟" انھوں نے بتایا کہ وہ شخص کمانڈر حاجی پور ہے۔ میں اپنے دیئے ہوئے دستور پر شرمندہ ہوا۔ میں نے اُن سے کہا: "آپ کو خود حالات کا پتہ ہے، آپ نے کیوں ایسا کیا؟" میں نے دیکھا کہ پوری ٹویوٹا گاڑی کھانوں ، کپڑوں اور جوتوں سے بھری ہوئی ہے انھوں نے مجھ سے کہا: "یہ علی الحساب کے طور پر رکھ لو۔ جب بھی کھانے، ٹن پیک یا خوراک کی ضرورت ہو، مجھ سے کہنا، میں خود تمہارے لئے لیکر آؤں گا۔"

 

سخت ترین جنگی علاقہ

پروگرام کے آخری راوی، مسعود شادلو تھے۔  انھوں نے کہا: "میں نے بمو کے علاقے میں بہت ہی کم عرصہ گزارا ہے، لیکن مجید زادبود سے میری گہری دوستی اُسی علاقے میں ہوئی، اسی وجہ سے میں نے اپنا وظیفہ سمجھا کہ میں اس عظیم شہید کا تذکرہ کروں۔ بمو آپریشن سے پہلے، و الفجر ابتدائی اور و الفجر ایک آپریشن میں اس عظیم بھائی کا کردار بہت ہی نمایاں تھا۔ اُس زمانے میں ایک مربی کے عنوان سے میری ذمہ داری تھی کہ میں امام حسین (ع) چھاؤنی میں ٹریننگ دوں۔ میں نے شہید مجید زادبود کو سب سے پہلی مرتبہ و الفجر ابتدائی آپریشن میں  دیکھا۔

سن  ۱۹۸۳ء کے اوائل میں بمو کے علاقے میں، میرا کردار ایسا تھا کہ میں آپریشن کیلئے معلومات حاصل کرنے والوں میں شامل ہوتا اور پھر امام حسین (ع) چھاؤنی واپس چلا جاتا اور مختلف یونٹوں کو آپریشن میں معلومات حاصل کرنے کی ٹریننگ دیتا۔  میری شہید ابراہیم ہادی سے واقفیت کا سلسلہ و الفجر ابتدائی آپریشن سے ملتا ہے۔ میں ایسے حالات میں آپریشن والے علاقے میں  حاضر ہوا  کہ کچھ احباب سرنگوں میں باقی رہ گئے تھے۔ مجھے یہ توفیق نصیب ہوئی کہ میں کمیل بٹالین کے اور ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کی مالک اشتر بٹالین کے انچارج کے ساتھ رہوں۔ و الفجر ابتدائی آپریشن کی تیسری رات  ہم فرنٹ لائن سے آگے نکل گئے۔ اُس مرکز سے تقریباً کوئی دس یا پندرہ کلومیٹر  تک کہ اُس مشہور کمیل بٹالین نے حملہ کیا اور ہم نے علاقے کی اُس مشہور سرنگ سے عبور کیا۔ ابراہیم ہادی اُس وقت زندہ تھے۔ تیسری رات کی ڈیوٹی میرے اور عباس زندی کے ذمہ تھی۔ ہمارے دائیں اور بائیں ڈویژن، ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کے ہمراہ آگے نہیں آسکے۔ ہمیں آپریشن کے انٹیلی جنس انچارج سعید قاسمی کے وائرلیس سے عقب نشینی کا حکم ملا۔ مالک اشتر بٹالین کے کمانڈر شہید ہوچکے تھے اور ہم نقشہ اوراُن قطب نمایوں کی مدد سے جس سے سپاہیوں کو استفادہ کرنا سکھاتے تھے  ہائی وے ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے اور تقریباً ۲۰۰ لوگوں کو واپس لے آئے۔ اگر سورج نکل جاتا تو حتماً سپاہی دونوں طرف سے پھنس جاتے۔

اُس زمانے میں و الفجر ابتدائی آپریشن کا راز فاش ہوگیا تھا، لیکن ہمارے کئی ہزار جوانوں نے اپنے وظیفے پر عمل کیا۔ ایسا وظیفہ جس نے آج کوئی اور معنی حاصل کرلیا ہے۔ اُس کے ساتھ دوسرے الفاظ چپکا دیئے گئے ہیں۔ آپریشن کے انٹیلی جنس سپاہیوں کا عام فوجیوں سے فرق یہ تھا کہ وہ جانتے تھے کہ اس آپریشن میں شکست ہوگی  پھر بھی وہ ڈٹے رہے۔ محمد راحت، مجید زادبود اور ابراہیم ہادی جیسے شہداء کا دوسرے سپاہیوں سے فرق یہ تھا کہ وہ جانتے تھے کہ یہ آپریشن شکست سے دوچار ہوگا ، لیکن انہوں نے مقابلہ کیا۔ آج ہمارے ملک کو ان جیسے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ و الفجر ابتدائی میں آپریشن کے انٹیلی جنس سپاہیوں نے عشق اور عقل کے مقابلے میں عشق کو چنا۔ شہید محمد راحت سے کہا گیا کہ تمہارے پانچ فرزند ہیں، تم کس لئے جا رہے ہو  اور عاشورا ڈویژن کے  جنرل کے عنوان سے، ایسا ڈویژن کے جسے تم جانتے تک نہیں ہو، تم آپریشن کی رات اُس کی رہنمائی کرنا چاہتے ہو؟ لیکن محمد راحت ڈٹے رہے۔ انھیں آپریشن کی پہلی رات گولی لگی ، وہ میدان جنگ میں رہے اور بعد میں اُن کا  جنازہ آیا۔

بمو کی شناخت میں، ایسے انسان جو وہاں کی زمین، دشمن اور ماحول  کی شناخت رکھتے تھے، انھوں نے کمانڈروں کو بتایا کہ آپ کے نقشے غلط ہیں اور یہ بہت اہم ہے؛ اسی وجہ سے اس علاقے میں آپریشن نہ کرنا  اپنی قدر بنا گیا۔  آپریشن کی شناخت کا یونٹ، جنگ کے زمانے میں ایک ایسا یونٹ تھا  جسے سب سے زیادہ دشمن اور علاقہ کی شناخت حاصل کرنی تھی۔ مجید زادبود و الفجر ابتدائی کے بعد زندہ تھے۔ میں امام حسین (ع) چھاؤنی میں آتا جاتا رہتا تھا۔  میں نے خود سے اپنے آپ کو ایک ڈیوٹی سونپی ہوئی تھی  اور وہ یہ تھی کہ میں جنگی کتابوں کو پڑھوں، جنگی علاقوں میں حاضر ہوں، ان احباب کے پاس حاضر ہوکر ان سے کچھ چیزیں سیکھوں  اور ان سب کو گروپس کمانڈر ، بٹالین کمانڈر اور بریگیڈ کمانڈر کے کورس کے عنوان سے ایک دستور العمل اور کتابچہ میں تبدیل کروں اور پھر انہیں چھاؤنی میں بیان کروں۔ میں مربی تھا اور میرا کردار یہ تھا۔ سن ۱۹۸۳ء ایسا سال تھا کہ میرا امیر کبیر یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا تھا۔ میں اُس سے پہلے تقریباً ۲۵ دن کیلئے سرپل ذھاب کے علاقے میں گیا۔ مجید کے پاس بہت اچھی موٹر سائیکل تھی۔ اُس نے مجھ سے کہا: "آ ؤ بیٹھو چل کر علاقے کو دیکھتے ہیں۔ چونکہ تمہارا کام تحلیل اور منصوبہ بندی کرنا ہے، علاقے کو دیکھنے سے تمہیں مدد ملے گی۔" میں اُس زمانے میں شہید حجت اللہ معارف وند کی ٹیم اور جناب استاد باقر کی ٹیم کی شناخت کے بارے میں سنتا تھا، لیکن میں اُن کے ساتھیوں میں سے نہیں تھا۔ مجھے پورا علاقہ دیکھنے میں تقریباً دو دن لگے۔ اس علاقے میں جو مشکلات اور سازشیں تھی، میں بھی اُس میں پھنس گیا اور ایسے میں مجھ پر مجید کا بلند حوصلہ اور عظیم ہمت آشکار ہوئی۔ اُس نے علاقے اور بمو کی شناخت کے بارے میں جو وضاحتیں دی تھی، اُس سے پتہ چل گیا تھا کہ اُس نے وہاں پر بہت زحمات اٹھائی ہیں۔ و الفجر ابتدائی آپریشن  عشق اور عقل کا مقابلہ تھا اور بمو کی شناخت میں عقل اور عشق کا  فطرت سے مقابلہ تھا۔ کردستان سے لیکر جنوب تک سخت ترین جنگی علاقہ، بمو کے علاوہ  کہیں اور نہیں ہے۔ علاقے کی معلومات حاصل کرنے میں، ہماری فطرت کی شناخت اس قسم کی تھی کہ ہم نے جنگی کمانڈروں کے تیار کردہ منصوبوں کو تحت تاثیر قرار دے لیا تھا۔ لیکن و الفجر ابتدائی میں حفاظت کے نام کا مفہوم ابھی اُس طرح سے  واضح نہیں ہوا تھا۔ دو کوھہ چھاؤنی میں بجری کا ایک ٹیلہ بنایا ہوا تھا اور وہاں سب کو آپریشن والے علاقے کے بارے میں وضاحت دیتے تھے۔ سپاہیوں کے درمیان موجود منافقین وہاں سے فرار کر گئے اور انھوں  نے آپریشن کا راز برملا کردیا۔"

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۵ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۹ اگست ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۶ ستمبر کو منعقد ہوگا۔



 
صارفین کی تعداد: 2826


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔