ایرج شیری کی یادوں کے ہمراہ

آبادان سے خرم شہر کی طرف جانے والے امدادی کارکنان ۔۔۔۔

فائزہ ساسانی خواہ

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2019-10-13


ہلال احمر کا ادارہ آسمان سے نازل ہونے والی بلاؤں یازندگی میں رونما ہونے والے دوسرے حادثات کے بعد لوگوں کی مدد کرنے والا ایک سرگرم  ادارہ ہے۔ اس ادارے کے سرگرم اور جوان افراد کا رضا کارانہ طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا ایک زمانہ، مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ  کا زمانہ اور جنگی محاذ  رہا ہے۔ ایرج شیری اُنہی جوانوں میں سے ایک ہیں جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ہلال احمر کے ادارے میں بھرتی ہوئے۔  وہ سن ۱۹۵۹ء میں مسجد سلیمان نامی ایک قصبہ میں پیدا ہوئے، سن ۱۹۷۱ء میں اپنے والد کی ملازمت کی وجہ سے جو آئل کمپنی کے ملازم تھے اور آبادان کی طرف کوچ کر گئے تھے، وہ بھی اپنے گھر والوں  کے ساتھ آبادان  کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں۔ سیکنڈری اسکول کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد وہ ملک سے باہر خاص طور سے امریکا جاکر تعلیم حاصل کرنے  کا بہت شوق رکھتے تھے، لیکن انقلاب اسلامی کے واقع ہونے اور ملک کے حساس حالات کے پیش نظر وہ اپنے اس کام سے منصرف ہوجاتے ہیں۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد دفتر نشرو اشاعت امام خمینی میں جس کا بعد میں "دفتر نشر و اشاعت حوزہ علمیہ قم" نام ہوگیا، وہاں پر اپنی ثقافتی سرگرمی کا آغاز کیا۔ اُس زمانے میں اُن کے مختلف کاموں میں سے ایک کام مذہبی کتابوں کی خریداری جیسے شہید مطہری کی کتابوں کو اپنے ذاتی خرچے پر قم اور تہران سے خریدتے اور اُنہیں آبادان میں بیچتے تھے۔ کچھ عرصے بعد شہر کے کچھ جوانوں کے ساتھ امدادی سرگرمیوں کو سیکھنے کیلئے ہلال احمر کے ادارے میں چلے جاتے ہیں اور شہید بہشتی ہسپتال میں جو انقلاب سے پہلے شیر و خورشید ہسپتال کے نام سے مشہور تھا اور جہاں کے ڈاکٹر پاکستانی تھے، ٹریننگ کورس مکمل کرنے کے بعد رضا کارانہ طور پر اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد مسلط کردہ جنگ کا آغاز ہوجاتا ہے اور جناب شیری دوسرے رضاکار جوانوں کے ساتھ مستقل خرم شہر میں ہونے والی جھڑپوں کے مقامات پر رفت و آمد کرتے ہیں اور وہاں پر زخمیوں  کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ایرانی زبانی تاریخ کے خبرنگار نے اُن سے جنگ کے زمانے میں اُن کی سرگرمی کے بارے میں گفتگو کرنے کیلئے اُن کے ساتھ نشست کی تاکہ وہ اُن سالوں کے بارے میں بتائیں۔

 

جنگ شروع ہونے کے بعد، ہلال احمر میں آپ کا سب سے پہلا کام کیا تھا؟

میں پہلے یہ بتانا چاہوں گا باقاعدہ طور پر جنگ شروع ہونے سے پہلے، سرحدی علاقوں پر ہلکی پھلکی جھڑپیں شروع ہوچکی تھیں۔ لہذا ہم لوگ ہلال احمر کی طرف سے، امدادی ٹاسک فورس کے عنوان سے، ۱۰ ستمبر ۱۹۸۰ء  سے آبادان سے شلمچہ بارڈر اور اُس کے اطراف میں خرم شہر کی طرف جایا کرتے۔ حقیقت میں محاذی سرگرمیاں عملی طور پر اُس وقت سے شروع ہوچکی تھیں۔

 

امدادی فورسز کے عنوان سے وہاں پر آپ کا  کام کیا تھا؟

پہلے مرحلہ میں ہم زخمی ہوجانے والے فوجیوں اور لوگوں کو ہسپتال منتقل کرتے تھے۔ اس رفت و آمد کے ساتھ ہم دیکھ رہے ہوتے کہ سرحدی علاقوں پر رہنے والے افراد جھڑپوں کی وجہ سے خرم شہر کی طرف کوچ  کر رہے ہیں۔ لہذا ہم نے بعد والے مرحلے میں دیہاتیوں اور سرحدی علاقوں میں رہنے والے افراد کیلئے رہنے کی جگہ کیلئے اقدام کیا اور جنگ زدہ لوگوں کو امداد  پہنچانے کا پہلا سینٹر قائم کیا۔ اُن میں سے کچھ لوگوں کو ایک ہوٹل کہ جس کا قدیمی نام سیاحوں کو جذب کرنے والے ہوٹل تھا  اور وہ شہر میں اصل جگہ، نہر اور خرم شہر کے ہسپتال کے کنارے واقع تھا وہاں پر ٹھہرایا۔ دراصل وہاں پر ہلال احمر کا کیمپ اور اُس کے برابر میں جنگ زدہ افراد کیلئے امداد رسانی کا مرکز بن گیا۔ اُن میں سے کچھ لوگ اپنے رشتے داروں کے گھر چلے گئے  جو خرم شہر یا آبادان میں رہتے تھے۔ آبادان میں موجود خود ہمارا گھر کچھ عرصے تک ان گھرانوں کی پذیرائی کیلئے حاضر رہا تھا۔ جو لوگ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے ہلال احمر اُن لوگوں کیلئے کھانے کی چیزیں جیسے آلو اور پیاز کا بندوبست کرتی۔ آہستہ آہستہ جھڑپیں شدید اور وسیع ہوتی چلی گئیں اور آخر میں جنگ سرحد سے بڑھ کر خرم شہر کے اندر تک آرہی تھی اور ہجرت کرنے والوں کی تعدادمیں اضافہ ہو رہا تھا۔ سیاحوں کوجذب کرنے والا ہوٹل اور آہستہ آہستہ خرم شہر خالی ہوگیا۔ حتی بعض لوگ ماہ شہر اور دوسری جگہوں کی طرف ہجرت کر گئے۔

 

آبادان میں ہلال احمر کے افراد کو خرم شہر بھیجا جاتا یا اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ آبادان پر بھی خرم شہر  کی طرح عراقی فوج کا فضائی حملہ ہوگا  افراد خرم شہر اور آبادان کے درمیان تقسیم ہوگئے تھے؟

اُس وقت آبادان کے حالات خرم شہر کی طرح خراب نہیں تھے۔ لیکن ایسا ہوتا تھا کہ کبھی فضائی حملے ہوجاتے تھے، خاص طور سے راتوں کو کہ بعثی نہر کے اُس طرف سے میزائل پھینکتے تھے۔ ہمارے زیادہ سے زیادہ پانچ گروپس تھے؛ دو  لوگوں یا تین لوگوں پر مشتمل پانچ گروپس، یعنی ہم دس سے پندرہ  کے درمیان لوگ تھے۔ کام انجام دینے کیلئے ہمارے پاس جو چیزیں اور وسائل تھے وہ بہت کم تھے۔ حتی بعض موقعوں پر ہمارے پاس ایمبولنس نہیں ہوتی  تھی۔ آپ فرض کریں ہم صبح سے لیکر ظہر  تک چلے جاتے، رات کو اگر کوئی مسئلہ پیش آجاتا دوسرے دوست گاڑی سے استفادہ کرتے تھے۔ جس وقت ہم سرحد کی طرف جا رہے ہوتے تھے ہمارے پاس اصلاً ایمبولنس نہیں ہوتی تھی، ہم آئل کمپنی کی ایمبولنس سے استفادہ کرتے تھے۔ ہلال احمر نے آئل کمپنی سے بات کرلی تھی اور ہم اُن کی ایمبولنسوں سے استفادہ کرتے تھے۔ جس وقت خرم شہرمیں جھڑپیں زیادہ ہوگئی  اُس وقت ہم زیادہ تر سوزوکی استعمال کیا کرتے تھے، سوزوکی کے علاوہ ایک سیمرغ نامی جیپ بھی تھی جو آبادان کی عدالت  کی تھی اور خراب پڑی ہوئی تھی۔ ہم نے اُسے ٹھیک کیا۔ اُس کے علاوہ کچھ امریکی شیورلیٹ گاڑیاں تھیں۔ ہم نے اُس کی پچھلی سیٹوں کو اکھاڑ لیا تھا اور اُسے ایمبولنس کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ جیسا کہ اسٹریچر نہیں تھے، ہم نے گاڑی  کی زمین پر گدے بچھا دیئے تھے اور زخمیوں کو اُس پر لٹا دیتے تھے۔

ہم گاڑیوں کو خرم شہر کے بعض علاقوں تک لے جاتے اور وہیں پر کہیں کھڑا کر دیتے تھے۔ البتہ صبح کو سب سے پہلے ہم پوزیشن کو دیکھ لیتے اور اُس کے بعد تقسیم ہوتے تھے۔ فرض کیجئے ایک گروپ پولیس چیک پوسٹ کی طرف چلا جاتا اور ایک گروپ ریلوے اسٹیشن اور کسٹم  کو نظر میں رکھتا جو عراقیوں سے ہونے والی جھڑپوں کے مرکزی علاقے تھے۔ ہم دو تین مرتبہ کسٹم کی طرف گئے۔ ہمارا ایک گروپ پل نو تک آگے چلا جاتااور وہاں پر موجود گھروں میں ٹھہر جاتا، یا کبھی تھوڑا پیچھے تک کوچہ طالقانی میں۔ جیسا کہ جھڑپوں میں شدت خاص طور سے رات میں وہاں زیادہ ہوجاتی تھی۔ عراقی راتوں کو آتے تھے اور صبح کو ہمارے فوجی عقب نشینی کرتے ۔ پورے دن میں عراقیوں کو پتہ چل جاتا تھا کہ انھیں کہاں پر حملہ کرنا چاہیے، وہ اُس حدود میں شدت سے حملہ کرتے؛ خاص طور سے پولیس چیک پوسٹ پر، اوائل جنگ میں، پولیس چیک پوسٹ کی طرف ہم نے بہت جانیں دی ہیں۔

 

پولیس چیک پوسٹ کیوں؛ اس وجہ سے کہ وہاں پر گھر اور عمارتیں نہیں تھیں اور چھپنے کی جگہیں موجود نہیں تھیں؟

جی۔ دیکھیں پولیس چیک پوسٹ، خرم شہر سے باہر نکلتےوقت اہواز کی طرف جانے والے راستے  پر تھی۔ وہی والا حصہ پل نو سے پولیس چیک پوسٹ کی حدود تک،  تقریباً کھلا اور وسیع علاقہ تھا۔ ہائی وے کی دائیں طرف پولیس چیک پوسٹ اور اُس کے بائیں طرف، سیمنٹ کی ایک دیوار تھی جو تقریباً سو میٹر یا دوسو میٹر کی تھی اور جس کی اونچائی ایک میٹر تھی۔ فوجی اُس کے پیچھے پوزیشن سنبھال لیتے تھے۔ یہ دیوار ایک مورچہ سا بن گئی تھی۔ ہم نے سب سے پہلے زخمیوں کو کہ  جن کی حالت بہت خراب تھی، اسی دیوار کے پیچھے دیکھا تھا۔ ایک حملے میں کہ عراقیوں نے ٹینک سے گولہ برسایا تھا، ایک ٹینک کا گولہ اُس دیوار کے ایک حصہ پر لگا اور اس کے پرخچے اڑا دیئے  اور اس دیوار کے پیچھے جو فوجی دفاعی پوزیشنیں سنبھالے بیٹھے ہوئے تھے انھیں لگا تھا۔ جب ہم پولیس چیک پوسٹ تک پہنچے اس گولے کے لگنے سے براہ راست ۹ افراد شہید ہوچکے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ٹینک بھی نزدیک ہے اور دشمن کے فوجی بھی آگے آگئے ہیں۔ عملی طور پر ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا اور ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ ہم ایک دو چادریں لیکر آئے اور اُسے روڈ پر بچھا کر شہداء کے جسموں کو جمع کیا۔ اگر کوئی سر، ہاتھ، پیر یا کوئی دوسرا عضو رہ گیا تھا تو ہم اُسے جمع کرکے چادر پہ ڈال رہے تھے۔ یہاں پر  ہمیں سمجھ آیا تھا کہ اگر ایک گولہ پھٹ جائے تو کیا ہوتا ہے ؟ یا اگر آر پی جی کا گولہ مارا جائے تو وہ کیا کرتا ہے؟ اب ہمیں شدت سے اسلحہ کی کمی کا احساس ہو رہا تھا۔

جنگ کے اوائل میں زیادہ تر فوجی، خود لوگ تھے۔ بہت کم فوجیوں کے پاس جی تھری اسلحہ تھا اور باقی فوجیوں کے پاس ایم ون یا برنو نامی اسلحہ تھا یا اُن کے پاس کوئی خاص ہتھیار نہیں تھا۔ خود ہم لوگوں کو بالکل بھی اسلحہ کی پہچان نہیں تھی۔ چونکہ ہم نے اس معاملے میں کوئی ٹریننگ حاصل نہیں کی تھی۔ اگر میں اُس زمانے کا بھاری اسلحہ یا جو اسلحہ میں نے دیکھا اُس کا نام لینا چاہوں تو یہی ہے: میں نے ٹینک تو دیکھا ہی نہیں تھا؛ ہم نے ایک دو ۱۰۶ جیپ دیکھی  تھیں اور ایک افراد کو لے جانے والی گاڑی، افراد کو لے جانے والی امریکی گاڑی جو آبادان سے خرم شہر آتی تھی اور اُس پر ایک میزائل پھینکنے والا لگا ہوتا تھا۔

 

آپ کے پاس جو امدادی سامان تھا وہ خرم شہر کی سطح تک یا اُس کے گاؤں میں جو لوگ زخمی ہوئے تھے اُن  سب کیلئے پورا ہوجاتا تھا  یا یہ کہ آپ کو انہیں ہسپتال منتقل کرنا پڑتا تھا؟

ہم زخمیوں کو  ابتدائی طبی امداد فراہم کردیتے تھے  تاکہ انہیں ہسپتال تک پہنچا دیا جائے۔ مثلاً اُسی ایمبولنس میں فوراً اُن کے بہتے ہوئے خون کو روکنے کا کام انجام دیتے اور ڈرپ وغیرہ لگا دیتے تھے۔ وہ پہلا ہستپال جہاں ہم زخمیوں کو پہنچاتے تھے، طالقانی ہسپتال تھا۔ انقلاب اسلامی سے پہلے اُس کا نام آرین تھا۔ اسی طرح ہم شہیدوں کو سرد خانوں کی تحویل میں دیتے تھے کہ جس کا نام مہر آئسکریم تھا اور جنگ کے زمانے میں شہداء کو وہاں رکھتے تھے۔ ہم تین چار سے زیادہ گروپ نہیں تھے۔ اگر کوئی فوجی زخمی ہوجاتا تو ہم اُسے وہاں پر موجود گاڑی پر ڈالتے اور جس طرح بھی ہوتا اُسے پیچھے منتقل کردیتے۔ جب ہم دیکھتے فرضاً کہتے کہ شہر میں فلاں جگہ چار افراد زخمی پڑے ہیں جنہیں ہم اپنے ساتھ نہیں لا سکے، اگر آپ جاسکتے ہیں تو انہیں لے آئیں۔ ہم خود بھی دیکھ رہے ہوتے تھے کہ جہاں جھڑپیں ہو رہی ہیں جھڑپوں میں شدت زیادہ ہے یا کسی جگہ سے دھواں اٹھ رہا ہے، وہاں چکر لگاتے  اور زخمیوں کی پٹی کر دیتے یا  انھیں جمع کر لیتے تھے۔

 

آپ جن زخمیوں کو دیکھتے تھے اُن کا کوئی واقعہ  ہے جو اب تک آپ کے ذہن میں باقی رہ گیا ہو؟

سب سے پہلے زخمی کو دیکھا، جسے ہم بارڈر سے لائے تھے۔ اُس کے ایک گردے میں چھوٹا سا سوراخ ہوگیا تھا۔ جب میں نے دوستوں سے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟" انھوں نے بتایا: "میزائل کا ٹکڑا لگا ہے۔" میں نے کہا: "عجب! اتنا کہا جاتا ہے میزائل، اچھا تو وہ یہ ہے!" پھر ہم نے دیکھ لیا کہ میزائل بدن کی کیا حالت کرتا ہے۔ یا مثلاً ایک دفعہ ہم شلمچہ کی طرف جا رہے تھے۔ عراقی فوجی ٹینکوں پر آئے اور بالکل سامنے سے گولے برسا رہے تھے۔ میں نے راستے میں دیکھا  ایک ٹینک کا ایک گولہ سڑک کے ساتھ مٹی والے راستے پر پڑا ہوا ہے۔ میں نے اپنے دوست جناب قاضی شرف جو گاڑی چلا رہے تھے اُن  سے کہا: "علی رضا گاڑی روکو!" اُس نے روک دی۔ میں  گیا اور جاکر اس گیند کے ساتھ تھوڑا کھیلا۔ میں اُسے پیر سے مار رہا تھا۔ میرے دوست نے کہا: "کیا تم دیوانے ہوگئے ہو؟" یہ گولہ کوئی گیند ہے۔ ہوسکتا ہے پھٹ جائے ۔ بھاگو جلدی آؤ!" میں دوبارہ ایمبولنس میں چلا گیا اور ہم شلمچہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

 

جب آپ نے پہلی مرتبہ شہداء یا زخمیوں کو دیکھا تو آپ کی حالت خراب نہیں ہوئی؟ یا آپ نے ا ندرونی طور پر احساس نہیں کیا کہ یہ کیسا کام تھا، میں اتنے سارے کام کرسکتا تھا، میں کیوں زخمیوں اور شہیدوں کے پاس آگیا؟

نہیں۔  ہم سن ۱۹۷۸ء سے جب انقلاب آیا تھا جان بوجھ کر ان معاملات میں وارد ہوئے تھے۔ بہت ہی کم عرصہ کیلئے ہسپتالوں میں گئے تھے اور میں نے بہت معمولی حد تک خون اور زخم وغیرہ کو دیکھا تھا۔ پہلی دفعہ جب میں نے ہسپتال میں زخمی کو دیکھا میرے دل میں عجیب سا احساس ہوا اور مجھے ضعف کا احساس ہوا، لیکن مجھے وحشت یا خوف نہیں تھا۔ جنگ میں واقعاً ہمیں ڈر و خوف  کا احساس نہیں تھا کہ اگر ہم چلے گئے تو ہمیں گولی ماردیں گے اور ہمیں قتل کردیں گے۔ حتی ایک دفعہ ہم کسٹم میں گئے اور مجھے ایسا لگا کہ میں نے کوئی آواز سنی ہے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا تھا۔ میرے دوست جناب حمید کدائی نے مجھ سے کہا: "ایک لال رنگ کی گولی تمہارے سر کے پاس سے گزری ہے!" میں نے کہا: "میں نے دیکھا ایک چیز گزری ہے، اچھا تو یہ گولی تھی؟!" اُس نے کہا: "ہاں، گولی تھی۔ میں نے اُس کی سرخی کو دیکھا تھا جو تمہارے سر کے پاس سے گزری تھی۔" جب کہ ہم جوان تھے اور ہم نے بہت سے زخمیوں اور شہداء کو دیکھا تھا، لیکن ہم ڈرتے نہیں تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے ایک دن، خرم شہر کی مسجد جامع سے دس پندرہ میٹر دور مارٹر کے دو تین گولے یا کوئی اور چیز زمین پر آکر لگی اور اُسی وقت کچھ زخمی افراد زمین پر گرے۔ ہم وہیں پر تھے اور ہماری ایمبولینس، سیمرغ گاڑی تھی۔ اسٹریچر نہیں تھا، گاڑی میں صرف گدا بچھا ہوا تھا۔ گاڑی میں زیادہ زخمیوں کی جگہ بنانے کیلئے ہم نے حتی گاڑی کے پیچھے موجود گاڑی کا اضافی ٹائر بھی نکال لیا تھا اور زخمیوں کو گاڑی میں رکھا تھا۔ شاید ہم نے چھ یا سات لوگوں کی گاڑی میں جگہ بنالی تھی۔ ایک دو لوگ بھی شہید ہوگئے تھے کہ ہم نے انہیں ایمبولنس کے فرش پر لٹا دیا تھا۔ پھر میں نے اپنے دوست علی رضا سے کہا: "گاڑی چلاؤ۔" میں گاڑی کے پیچھے چڑھ گیا اور ہمارا ایک دوست جو ہمارے ساتھ تھا وہ سوار نہیں ہوسکا تھا اور خرم شہر میں رہ گیا۔ ڈرائیور نے گاڑی چلائی۔ ہم نے جن لوگوں کو گاڑی میں سوار کیا تھا اُن میں سے ایک کا چہرہ مجھے ابھی تک یاد ہے۔ بہت ہی خوبصورت چہرہ تھا۔ اُس کے گھنگریالے بال اور نیلی آنکھیں تھیں۔ شاید مجھ سے دو سال بڑا تھا۔ وہ اُس وقت ۲۱ سال کا تھا۔ جب میں نے گاڑی کا دروازہ بند کیا، گاڑی کے پچھلے دروازہ سے اُس کی ٹیک لگادی۔ میں نے دیکھا یہ بندہ خدا دوبارہ گر گیا ہے، لیکن اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ میں نے اُس سے کہا: "تم سیدھا نہیں لیٹ سکتے ہو، جگہ نہیں ہے، ہم ہسپتال کی طرف جا رہے ہیں، پہنچنے تک اپنے آپ کو سنبھالو۔" میں نے دیکھا کہ وہ دوبارہ گر پڑا ہے، اس دفعہ مجھے پتہ چلا کہ وہ شہید ہوچکا ہے اور میں نے خود اُس کی آنکھوں کو بند کردیا۔

 

آبادان سے خرم شہر کی طرف آنے والے امدادی گروپس میں، خواتین بھی آپ کے ساتھ ہوتی تھیں یا نہیں صرف مرد حضرات ہی جاتے  اور آتے تھے؟

خرم شہر میں ہمارے پاس آبادان ہلال احمر  کی کوئی خاتون نہیں  تھیں؛اگر کوئی تھی بھی تو مجھے یاد نہیں ہے۔ لیکن خرم شہر کے ہلال احمر میں کیوں نہیں، خواتین تھیں جو مسجد جامع میں لوگوں کی امداد کو جمع اور تقسیم بھی کرتی تھیں، امدادی کاروائیوں میں بھی شرکت کرتی تھیں اور اُن کے ہاتھوں میں اسلحہ بھی ہوتا تھا۔

 

خرم شہر پر قبضہ ہونے سے پہلے تک، آپ کا خرم شہرمیں آنا جانا تھا؟

جی۔ ہمیشہ میرے سامنے کمر پر ڈالنے والا ایک بیگ پڑا ہوتا تھا کہ جس میں، میں نے صرف خاص امدادی سامان کو رکھا ہوتا تھا اور اس بیگ میں میرے پاس ہمیشہ دو ہینڈ گرنیڈ ہوتے تھے۔ یعنی کسی بھی صورت میں، میں اس بیگ کو کبھی بھی اپنے آپ سے دور نہیں کرتا تھا۔

 

آپ کو ہینڈ گرنیڈ کی کیا ضرورت تھی؟

بھئی چونکہ ہمارے پاس اسلحہ نہیں تھا؛ اس لئے رکھا ہوا تھا کہ اگر کبھی حالات بہت خطرناک ہوجائیں تو اس سے استفادہ کرلوں۔ ایک دفعہ جب میں نے بیگ کو اٹھایا تھا تو دیکھا اس بیگ پر ایک گولی لگی ہے اور دوسری طرف سے نکل گئی ہے۔ بیگ کو خراب کردیا تھا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا: "خدا نے رحم کیا کہ ان دو ہینڈ گرنیڈ پر گولی نہیں لگی، ورنہ یہ پھٹ جاتے۔"

 

خرم شہر پر قبضہ ہونے کے بارے میں آپ کو کچھ یاد ہے؟

آخری دن جس دن خرم شہر پر قبضہ ہو رہا تھا وہ دن تھا جس نے میں نے فیصلہ کیا کہ مسجد سلیمان جاؤں اور میرے والدین جو آبادان سے وہاں چلے گئے ہیں اُن سے جاکر مل لوں۔ میں آخری دن نہیں تھا، لیکن اُس سے ایک دن پہلے شدت کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں سے پتہ چل رہا تھا کہ شہر پر قبضہ ہونے والا ہے۔ بعثی بہت حد تک آگے آچکے تھے۔ مسجد جامع کے اطراف میں خطرناک حد تک گھیراؤ ہوچکا تھا۔  اب اس طرح ہوچکا تھا کہ ہم سمجھ جاتے تھے کہ عراقی کہاں پر حملہ کریں گے؛ واقعاًٍ اس طرح ہوگیا تھا۔ یعنی جب صبح جاتے تھے ہمیں احساس ہوتا تھا اور ہمیں پتہ چل جاتا ممکن ہے اس وقت فلاں علاقے پر حملہ کریں۔

آخری دنوں میں جب ہم خرم شہر جاتے اور وہاں سے واپس آتے، نہر کے کنارے والی سڑک سے مسجد جامع کی طرف جاتے تھے۔ چونکہ بیچ والی سڑک پر اب امن نہیں تھا۔ پل کے کنارے، خلیج فارس نام کا ایک کیڈٹ کالج تھا۔ اس کالج اور پل کے درمیان ایک کچی سڑک تھی اور وہاں ایک موڑ سا بن گیاتھا، ہم وہاں سے کچی سڑک پر اتر جاتے اور پل کے نیچے سے ساحلی سڑک پر اور وہاں سے مسجد جامع کی طرف چلے جاتے۔ آخری دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں جاکر اپنے والدین سے مل کر واپس آتا ہوں ۔ میں نے اپنے دوست، علی رضا قاضی شرف سے کہا: "میں نہیں آؤں گا، لیکن بہمن قاسمی اور کسی ایک اور ساتھی کو اپنے ساتھ  لے جاؤ۔" میرے دوست ہر دن کی طرح خرم شہر کی طرف جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ مسجد جامع کی طرف جائیں، انہیں احساس ہوتا ہے کہ پچھلے دنوں کی نسبت آج جھڑپوں کی شدت میں بہت زیادتی ہے اور خرم شہر میں امن نہیں ہے۔ وہ مسجد جامع کی طرف جاتے ہیں اور اپنے کام انجام دیتے ہیں۔ واپس آتے ہوئے کچھ زخمیوں کو گاڑی کے پیچھے سوار کرتے ہیں اور شہر سے باہر نکل جاتے ہیں۔ جب وہ پل کی طرف آتے ہیں، گورنر ہاؤس کی طرف سے بعثی اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔ کچھ گولیاں آگے  اور تین سائیڈ سے گاڑی کی باڈی پر لگتی ہیں۔ ان میں سے دو تین گولیاں افراد کے جسموں پر لگ گئی تھیں۔ ان میں سے ایک گولی ڈرائیور، جناب قاضی شرف کی پیشانی کے سامنے دروازے پر لگی جس کی وجہ سے وہ کچھ دیر کیلئے سکتے میں آگئے یا بے حال ہوگئے۔ عملی طور پر گاڑی رک جاتی ہے۔ جناب قاسمی اور ہمارے دوسرے دوست جناب کیماسی آگے والی سیٹ کی طرف جھکتے ہیں۔ چونکہ جناب کیماسی دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انھیں گولی لگی تھی۔ لیکن جناب قاسمی جو بیچ میں بیٹھے تھے، انھیں گولی نہیں لگی تھی۔ وہ ڈرائیور کی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔ گاڑی کو دوبار ہ اسٹارٹ کرتے ہیں اور ہسپتال کی طرف حرکت کرتے ہیں۔

 

خرم شہر پر قبضہ ہونے کے بعد بھی آپ نے وہاں پر کام کیا؟

جی۔ البتہ خرم شہر پر قبضہ ہونے کے کچھ دن بعد عراقی فوجیں چاہتی تھیں کہ ذالفقاری والے علاقے سے آبادان کی طرف آئیں اور خرم شہر کی طرح آبادان پر بھی قبضہ کرلیں؛ ہمارے سپاہیوں کی جدوجہد اور مقابلہ کرنے کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہوسکے، لہذا ہم اُن دنوں میں ذوالفقاری والے علاقے کو دیکھ رہے تھے۔ خود آبادان شہر میں بھی ہم کام کر رہے تھے۔ فیاضیہ کے محاذوں کی طرف بھی جاتے تھے۔ اسی طرح خرم شہر پر قبضہ ہوجانے کے بعد خرم شہر کی بحری افواج کی طرف اور کوت شیخ سے لیکر پل خرم شہر کے علاقوں تک جو ہماری اپنی فورسز کے ہاتھوں میں تھا اُس علاقے میں بھی کام کرتے تھے۔ سپورٹنگ فورسز بھی  آتی تھیں۔ اب لوگوں کو وہاں کے حالات کا علم ہوگیا تھا۔ کچھ لوگ اپنی جیپ نما گاڑیوں کو دے دیتے تھے  کہ جسے ہم ایمبولنس کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ مثلاً تہران میں وزارت صحت کی طرف سے ہمارے لیے دو فولکس واگن اسٹیشن بھیجی گئی تھیں۔ البتہ اُن کے ڈرائیوروں کے لئے جنگ کے شرائط کو تحمل کرنا مشکل تھا اور وہ چلے گئے تھے۔ لیکن بہرحال لوگوں کی طرف سے مدد ملتی تھی؛ کسی کے پاس پیکان یا کوئی دوسری گاڑی ہوتی یا تو وہ خود تحفہ کے طور پر دے دیتے یا ہم اُن سے درخواست کرتے کہ وہ ہمیں گاڑی دیدیں۔  دوسری گاڑیوں سے زیادہ ہمارے لئے جیپ ایمبولنس بنی تھی، یہاں تک کے چار پانچ مہینے بعد وزارت صحت نے ہمیں کچھ نیسان پٹرول گاڑیاں سوزوکی کی شکل میں بنا کر دیں، لیکن ایمبولنس کے عنوان سے نہیں دی تھیں بلکہ اس لیے دی تھیں کہ ہم انہیں امدادی کاموں میں استعمال کریں۔ لیکن وسائل، وہی پرانے اور بہت ضعیف وسائل تھے۔ اسٹریچر اور میڈیکل سامان بھی زخمیوں  کو سمیٹنے کی حد تک موجود تھا۔

ہم نے نئے آنے والے افراد کو آبادان کے محلہ بِریم میں تقسیم کردیا  اور اُن کے گروپس کے انچارج بنا دیئے۔ ہمارے تعمیراتی کاموں میں بھی وسعت پیدا ہوئی، چونکہ ہماری ایمبولینسوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تھا۔ افراد کی کچھ تعداد ہمارے سپورٹنگ کام کیلئے تھی اور کھانے پینے کے سامان اور دوسرے قسم کے سامان پہنچانے کی ذمہ داری اُن پر تھی۔ چونکہ کوئی اور یہ کام نہیں کرتا تھا، تو ہم خود ہی اس کام کو انجام دے لیتے تھے۔ کبھی ہم جہاد سازندگی ادارے سے اور کبھی سپاہ سے مدد لے لیتے تھے، لیکن اُن کی اپنی داستان تھی۔ اُس زمانے میں ابھی تک سپاہ کی سپورٹنگ فورس نہیں تھی اور اگر تھی بھی تو بہت ہی کم تھی۔ فوج میں بھی یہی صورت حال تھی؛ ایک یا دو ایمبولنسیں تھیں، لیکن ہمارے ہیڈ کوارٹر میں ایمبولنسوں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔ اس طرح سے کہ ایک زمانہ میں، وہ گاڑیاں جو ایمبولنس نہیں تھیں، ہمارے پاس اس کے علاوہ ۱۵۰ ایمبولنسیں تھیں۔ ہلال احمر کا اسٹاف کچھ عرصے کیلئے بارہویں اسٹیشن پر واقع سماعت سے محروم بچوں کے اسکول میں منتقل ہوا، لیکن ہم نے دوبارہ جگہ کو تبدیل کرلیا اور ہم نے اُس اسکول کو گاڑیوں کی تعمیر کرنے کی جگہ کے طور پر استعمال کیا۔ اُس کے بعد دوستوں کی تجاویز پر، جیسا کہ میں بہت سے جنگی علاقوں کی شناخت رکھتا تھا، افراد کو تقسیم کرنے کا انچارج اور اُن پر نظارت کرنے والا بن گیا۔ وہ افراد جو آتےتھے اور خود ہمارے اپنے افراد ، ہم انہیں ایمبولنس سے ایمبولنس میں تقسیم کرتے، بعد میں بھی اس کام کے ساتھ ساتھ، ایک امدادی کارکن کے عنوان سے محاذ پر مدد کرتے تھے اور علاقے میں موجود تھے۔ خرم شہر سے آبادان کے علاقے میں بھی چکر لگاتے تھے اور ایک امدادی کارکن کے عنوان سے ہر اس جگہ جاتے تھے جہاں ہمیں ضرورت محسوس ہوتی یا جہاں پر جھڑپیں ہو رہی ہوتیں، ہم وہاں ٹھہر جاتے۔ میرا بھائی کامران جو شہید ہوا، وہ فیاضیہ کے محاذ پر تھا۔

 

وہ  ہلال احمر کی رضا کار فورس کا حصہ تھے؟

جی۔ بعد میں یہ سب بسیجی فورس کے عنوان سے پہچانے گئے۔ میں نے انہیں فیاضیہ کے محاذ پر بھیج دیا تھا۔ ہمارے کیمپوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی تھی اور ہم ایک دن میں اپنے تمام کیمپوں میں چکر نہیں لگا سکتے تھے یا وہاں کے افراد کی ڈیوٹی نہیں بدل سکتے تھے۔ ایسا تھا کہ مثلاً ہم پورے ہفتہ میں ہر کیمپ میں دو دفعہ چکر لگا لیا کرتے تھے۔ بعد میں جس جگہ بھی جاتے تھے وہاں کافی عرصہ رہنا پڑتا تھا۔ آنے جانے میں کافی وقت لگتا تھا۔ ایک و اقعہ جو مجھے یاد ہے یہ ہے؛ آبادن کی طرف جو معدن کے ٹیلے تھے ہم وہاں گئے ہوئے تھے۔ وہ فوجیں جو شہید سید مجتبیٰ ہاشمی کے زیر نظر تھیں اور نامنظم جنگوں میں مہارت رکھتی تھیں وہ کوئی آپریشن انجام دینا چاہتے تھے۔ ہم سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہاں پر جھڑپیں ہوں گی۔ ہم آپریشن شروع ہونے سے ایک رات پہلے وہاں چلے گئے تھے۔ آخر میں آپریشن والی رات افراد آگے چلے گئے، لیکن جھڑپ نہیں ہوئی اور وہ واپس آگئے۔ ہم بھی اپنے کیمپ میں واپس آگئے۔ دوبارہ جب ہم نے احساس کیا وہاں پر امدادی فورسز کی ضرورت ہے ہم واپس آگئے، لیکن اس دفعہ میرے ساتھ دو ڈاکٹرز بھی تھے۔ ایک جناب ڈاکٹر نصر جو اصفہانی تھے، ایک اور جناب ڈاکٹر قاسمی، کہ میرے خیال سے گچساران یا اُسی طرف کے کسی علاقے کے رہنے والے تھے۔ ڈاکٹر نصر، دیندار، سرگرم اور ہوشیار ڈاکٹر تھے۔ ہم معدن کے ٹیلوں پر گئے اور ظہر تک وہیں رہے۔ خود شہید ہاشمی بھی آئے۔ وہاں پر ایک دوسرے کے درمیان بہت فائرنگ چل رہی تھی، لیکن آپریشن کے عنوان سے کوئی حملہ نہیں ہوا۔ واپس آتے وقت، جس جیپ میں ہم لوگ سوار تھے اُس کو میں چلا رہا تھا۔ کچی سڑک سے پہلے کہ جس کے پیچھے ایک طرف بہمن شیر کی نہر  اور محاذ  کی طرف تھی اور ایک طرف آبادان کا راستہ اور ایک طرف معدن کے ٹیلے کا راستہ بھی تھا، خراسان کی فوجیں تھیں۔ جس کی کمانڈ جناب سرہنگ کھتری کے ذمہ تھی۔ ہم نے راستے میں دیکھا کہ دو زخمی افراد زمین پر پڑے ہوئے ہیں۔ ہم فوراً گاڑی سے نیچے اُترے۔ میں نے دیکھا کہ جناب ڈاکٹر نصر بہت تیزی سے  گئے اور ایک جوتا لیکر آئے اور اُسے ایمبولنس میں رکھ دیا۔ میں نے اُن سے کہا: "ڈاکٹر آپ اس جوتے کو کیوں لیکر آئے ہیں؟!زخمیوں کی دیکھ بھال کریں!" انھوں نے کہا: "ایرج، ایک زخمی کا پیر جوتے کے اندر ہے!"جب میں نے نگاہ ڈالی تو دیکھا وہ صحیح کہہ رہے ہیں؛ زخمی کے پیر کے گوشت کی رگیں اُس پر لٹکی ہوئی ہیں۔ جب میں زخمی کی طرف گیا، میں نے دیکھا اُس کا پیر کٹا ہوا ہے اور دوسرا والا شخص بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے شہید ہوچکا ہے۔ ہم نے دونوں کو ایمبولنس میں ڈال لیا۔ جناب ڈاکٹر نصر اور جناب ڈاکٹر قاسمی، پیچھے اُن کے پاس بیٹھ گئے۔ جناب قاضی شرف فوراً آگے بیٹھ گئے۔ جیسے ہی ہم نے حرکت کی ان میں سے ایک فرد کہ میرے خیال سے ڈاکٹر قاسمی تھے، انھوں نے کہا کہ یہ ایک بھی زندہ ہے اور سانسیں لے رہا ہے۔ دونوں ڈاکٹروں نے اُس کا معائنہ کرنا شروع کردیا۔ انھوں نے کہا: "اسے پیچھے سے مارٹر کا ٹکڑا لگا ہے؛ جو پھیپھڑوں کو چیرتا ہوا دوسری طرف سے نکل آیا ہے۔" میں نے کہا: "ضرورت کی چیزیں بیگ میں ہیں، اُسے کھولیں اور چیزوں سے استفادہ کریں۔"انھوں نے کچھ کام کئے اور مجھ سے کہا: "تم صرف ہمیں جناب کرنل کھتری کے محاذ تک پہنچا دو۔" ہم وہاں پہنچے اور اُن سے فوراً ڈرپ لی، ڈاکٹروں نے زخمی کو ڈرپ لگادی اور مجھ سے کہا: "جتنا تیز چلا سکتے ہو چلاؤ۔" ہم دشمن کی نگاہ میں بھی تھے ، بہت تیز رفتاری کے ساتھ طالقانی ہسپتال کی طرف گئے۔ خوش قسمتی سے جب ہم وہاں پہنچے تو زخمی نے باتیں کرنا شروع کردیں تھیں اور اُس نے اپنا نام بتایاکہ وہ میرے بھائی کامران کا ہمنام تھا۔

 

آپ خرم شہر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ پولیس چیک پوسٹ جھڑپوں کیلئے بدترین جگہ تھی اور دشمن کی دید اور رینج میں تھی، آبادان میں کہاں پر زیادہ زخمی ہوئے تھے؟

آبادان میں رہنے والے علاقوں میں جیسے بِرِیم اور بُواردِہ ، یہ علاقے عراقی فائرنگ کی زد میں بہت زیادہ تھے۔ ایک رات کو شہر بریم پر نہر کے اُس طرف سے یا خرم شہر کی طرف سے بہت زیادہ فائرنگ کر رہے تھے۔ ہم وہاں پر گئے اور بہت زیادہ شہداء کو سردخانہ لے گئے تھے۔

 

یہ، خرم شہر پر قبضہ ہونے کے بعد کا واقعہ ہے؟

نہیں، مجھے یاد ہے کہ خرم شہر پر قبضہ ہونے سے پہلے ہوا تھا۔ چونکہ میں سپاہ کی ثقافتی یونٹ کیلئے تصویریں کھینچ رہا تھا، میں صبح سردخانہ گیا۔ میں نے جیسے ہی  دروازے کو کھولا تو دیکھا اُسی رات کو آبادان کے مختلف علاقوں سے تقریباً چار سو شہیدوں کو لائے ہیں۔ دوسری جگہیں جہاں سے حملہ کرتے تھے ذوالفقاری علاقے کی طرف سے اور سرحدی پٹی والے علاقے کی طرف سے اور ایسی جگہوں سے فائرنگ کرتے تھے جہاں احساس کرتے تھے کہ ہماری فوجیں وہاں پر مستقر ہیں۔ مثلاً خرم شہر پر قبضہ کرنے سے پہلے آئل  ریفائنری پر حملہ کیا تھا اور فارم کے تمام ٹینک جل گئے تھے۔   جس دن فارم کے ٹینکوں کو مارا تھا، ہم اروند کنارگئے ہوئے تھے۔ وہاں پر ایک کلینک تھا ، جس میں ایک انڈین ڈاکٹر تھا اور وہ ابھی تک علاقہ میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ہم اُسی کلینک میں مستقر ہوگئے۔ بحری سیکیورٹی ادارے کی فوجیں وہاں تھیں۔ اُن کے پاس ایک گاڑی تھی کہ ہم جس پر بیٹھ کر گئے تھے۔  حتی فاو کے اطراف تک گئے۔ وہاں پر جھڑپیں ابھی شروع ہوئی تھیں اور میں سمجھ گیا کہ وہ فاو ہے اور بالآخر اس علاقے میں بھی کچھ تعداد زخمی ہوئی۔ ہم دو تین دن تک وہاں پر مستقر رہے۔ جس دن واپس آئے آئل ریفائنری پر حملہ کردیا تھا  اور فارموں کے ٹینک شدید آگ میں جل رہے تھے۔ میں نے اُسی وقت اُن کے جلنے کی تصویر بنالی۔ اب میرے اُس بیگ میں دو ہینڈ گرنیڈ  کے علاوہ، میرے پاس ایک کیمرہ بھی تھا۔

 

آپ کے پاس اُس زمانے کی تصویریں ابھی تک موجود ہیں یا آپ نے انہیں تحویل میں دیدیا ہے؟

اُن کے نگیٹو میرے پاس ہیں، چونکہ میں نے کچھ تصویریں سپاہ کی تحویل میں دیدی ہیں، یا اگر کوئی نمائش لگتی ہے تو میں تصویریں کو لے جاکر انہیں دے دیتا ہوں اور پھر وہ لوگ مجھے واپس نہیں دیتے ہیں۔

 

آپ نے ثامن الائمہ (ع) آپریشن میں،  یعنی سن ۱۹۸۱ء میں آبادان کے محاصرے کی شکست  میں شرکت کی؟

نہیں۔ میں آبادان محاصرے کی شکست کے وقت نہیں تھا۔ اب میں کیوں نہیں تھا؟ چونکہ میرا بھائی کامران اُسی سال مارچ میں شہیدا ہوا تھا۔ ہم تشییع جنازہ کیلئے انہیں مسجد سلیمان لے گئے، میری والدہ کیلئے بیٹے کی جدائی کا داغ بہت سخت تھا اور انھوں نے مجھے محاذ کی طرف واپس جانے کی اجازت نہیں دی۔ چھ سات مہینے گزرنے کے بعد کہ میں اُن کے پاس رہا اور انہیں کچھ سکون آگیا، میں تہران گیا اور میں نے تہران میں محاذ پر امداد پہنچانے کا یونٹ بنالیا۔

 

تہران میں آپ کا کام کیا تھا؟

مجموعی طور پر کچھ دوست آبادان میں تھے، جن میں سے جناب سلحشور اور جناب مہربان، شہید شیر محمدی کی تجویز پر تہران چلے گئے۔ ہلال احمر کے پورے اسٹاف میں کچھ تبدیلیاں ہونے کے بعد جناب سلحشور کی سرپرستی اور کچھ دوستوں  کی ہمراہی کے ساتھ پورے ملک میں محاذ پر امداد پہنچانے کا ایک اسٹاف تشکیل دیا گیا۔ میں بھی اُن سے مل گیا۔ سب مل کر پانچ سے چھ افراد کا گروپ بن گیا جس میں سب آبادان کے دوست تھے جنھوں نے ملکی محاذو ں پر امداد پہنچانے کا یونٹ بنایا۔ آج والوں کے بقول  میں تعلقات عامہ کا انچارج بن گیا۔ ہم افراد کی بھرتی اور اُنہیں تقسیم کرنے کا کام کرتے۔

 

ان افراد کو تہران سے محاذوں کی طرف بھیجا جاتا تھا؟

نہیں۔ پورے ملک سے بھیجا جاتا تھا۔ یعنی ہم لوگوں سے رابطہ کرکے جہاں سے لوگوں کی بھرتی کرسکتے تھے، اُن کی بھرتی کرتےتھے، اُس کے بعد ہم انہیں ملک کے مختلف جنگی علاقوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ ہم کوشش کرتے تھے کہ اُنہیں ٹریننگ دیں۔ ایک جگہ جہاں ہم اُن سے اچھی طرح رابطہ برقرار رکھ سکے اور جہاں پر افراد کو میڈیکل امداد کی ٹریننگ دے سکے وہ شاہراہ کشاورز کی انتہا پر واقع امام خمینی ہسپتال تھا۔ حتی میں خود راتوں کو وہاں پر جاتا تھا۔ ہم جوان تھے اور توانائی بہت زیادہ تھی۔ میں صبح سے ظہر تک  ملکی محاذوں کے امدادی یونٹ میں ہوتا تھا اور تقریباً رات کو تین چار گھنٹے وہاں بھی گزارتا تھا اور افراد کو ٹریننگ دیتا تھا۔ جنگی علاقوں کیلئے ہم نے بہت سے خواہران کا بھی نام لکھا۔ ہم بغیر کسی استثناء کے افراد کو ملک کے جنوب سے مغرب تک جنگی علاقوں کی سرحدی پٹی پر اور جہاں بھی ضرورت پڑتی،  بھیجا کرتے تھے۔ وہ تمام خواتین جو ٹریننگ حاصل کرتی تھیں انہیں جنگی علاقوں کے ہسپتالوں،خاص طور سے کردستان بھیجا جاتا تھا۔ حتی ہم سپاہ اور فوج کو بھی امدادی کارکنان دیتے تھے۔ اُن کے اپنے پاس بھی امدادی کارکنان تھے، لیکن اُن کے افراد کو ہم تقسیم کرتے تھے اور ہمارے سھمیہ سے بھی اُن کیلئے  جاتا تھا۔ اب تہران کی ہلال احمر میں ہمارا کام یہ تھا اور لاجسٹک بہت حد تک مکمل ہوچکا تھا۔ اسی طرح لوگوں کی امدد بہت زیادہ تھی۔ ایمبولنس مہیا کرنے کی شرائط بہتر ہوچکی تھیں۔ ہم نے جنگی علاقوں کے ہر حصے میں اسٹاف بنا دیا تھا اور آبادان میں پہلے سے کام کرنے والا اسٹاف کامل تر ہوگیا تھا۔ جہاں بھی اسٹاف تھا، محاذ پر امداد بھی تھی۔ مثلاً اہواز میں، سمت دھلاویہ کے محاذ پرامدادی یونٹ، فکہ،  دھلران اور دوسرے علاقوں کو دیکھتا تھا۔ کردستان میں بھی ہمارا امددی یونٹ تھااور ہم نے کلی طور پر پورے ملک میں محاذوں کے امدادی یونٹ کو کنٹرول کرلیا تھا۔

 

امدادی اسٹاف کس زمانے تک سرگرم رہا تھا؟

امدادی اسٹاف جنگ کے آخر تک کام کرتا رہا تھا۔

 

آپ جنگ ختم ہونے تک وہاں پر کام کرتے رہے؟

میں سن ۱۹۸۲ء کے آخر تک امدادی اسٹاف میں رہا، لیکن اُس کے بعد جب میں وہاں سے باہر آگیا میں دوستوں سے رابطہ میں رہا۔

 

میں آپ کا اس بات پر شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنا وقت ایران کی زبانی تاریخ کی سائٹ کے اختیار میں قرار دیا۔

زندہ رہیں۔



 
صارفین کی تعداد: 3026


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔