یادداشت لکھنے کی کلی خصوصیات

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-2-3


بیشک یادداشت کا قلم بند کرنا، لکھنے کی قدیمی ترین اقسام میں سے ایک ہے  کہ اس کا سابقہ لکھنے کے فن اور لکھائی کے خطوط سے ملتا ہے۔

شاید یاد داشتوں سے دلچسپی رکھنے والوں کی طرف سے کئے جانے والے سوالوں میں سے ایک یہ ہو کہ یاد داشت لکھنے میں کیا خصوصیات پائی جاتی ہیں؟ کیا یادداشت لکھنے والے کو خاص فنون کا حامل ہونا چاہیے؟ کیا ذاتی یاد داشت کو لکھنا ایک آسان یا محال کام ہے؟

اس سوال کے جواب میں کہنا پڑے گا کہ کسی شخص کی یادداشت لکھنا، کوئی سخت اور خصوصی کام نہیں اور کوئی بھی، جس کی جتنی بھی علمی سطح ہو اس سلسلے میں اقدام کرسکتا ہے۔ یاد داشت لکھنے والے کو صرف اپنے ذہن میں موجود باتوں کو سادہ، مخلصانہ اور سچے انداز میں کاغذ کے سپرد کردینا چاہیے۔ یعنی حادثہ کو اُسی صورت میں جس طرح  واقعہ ہوا ہے اور اُس کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے لکھ ڈالے۔ یاد داشت تحریر کرنے میں مبہم اورمتضاد باتیں لکھنے کی ضرورت نہیں۔ متاسفانہ بعض افراد کے عمل کرنے میں ایک غلطی یہ ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں اُن کے متن کو ادبی  اور بھاری ہونا چاہیے تاکہ وہ معتبر ہوجائیں اور پڑھنے والے کو اپنی طرف جذب کرلیں۔ حالانکہ یاد داشت کی تحریر میں جتنی سادگی سے کام لیا جائے، تو مخاطب سے زیادہ اتباط قائم ہوسکتا ہے۔اسی وجہ سے قلم کے ضعیف اور سادہ ہونے کی طرف سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، بلکہ زیادہ لکھ کر اُسے مضبوط اور بہتر بنایا جائے۔ کہا جاتا ہے  دنیاکے بہت سے مشہور و معروف لکھاریوں نے روازنہ کی یاد داشت لکھ لکھ کر اپنے اعتماد بہ نفس کو بڑھایا اور آہستہ آہستہ پیشہ وارانہ تحریر کی طرف قدم بڑھایا۔ البتہ کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یاد داشت لکھنے والا اپنے قلم کو مضبوط بنانے کیلئے کوئی کوشش نہ کرے اور اس بات کا انتظار کرتا رہے کہ صرف زیادہ لکھائی سے ہی اُس کے قلم میں جان پیدا ہوجائے گی۔ وہ مختلف آثار کا مطالعہ کرکے، اپنے لغات کے مجموعے کو بڑھا اور لکھنے کی مختلف روشوں اور طریقوں سے آشنا ہوسکتا ہے۔  بیشک مختلف سیاسی، تاریخی، داستانی وغیرہ کے آثار کا مطالعہ کرنا  اس سلسلے میں فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ ذرائع ابلاغ میں کام کرنے کے  ذریعے لکھنے کی مہارت کو بڑھایا جاسکتا ہے اور اعتماد بہ نفس حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انٹریٹ ذرائع ابلاغ کیلئے مسلسل لکھتے رہنا  لکھنے رہنے کو منظم بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

یاد داشت لکھنا عام طور سے خلاصہ لکھنے سے جڑا ہوا ہے اور کلی بیان کے دائرے سے باہر نہیں نکلتا۔ اگرچہ ممکن ہے کہ لکھنے والا کبھی کبھار، بعض موضوعات کو جزئی طور پر بیان کرے، لیکن یہ طریقہ کار، یاد داشت کے تمام حصوں میں ہمیشہ اور بڑے پیمانے پر نہیں ہے اور اس کا زیادہ تر معیار لکھنے والے کے میل کے تابع ہے۔ البتہ واقعہ کے صحیح وقت اور صحیح جگہ کو ذکر کرنا ایک ضروری امر ہے، کیونکہ تمام حوادث کسی زمانے یا وقت کے دائرے میں واقع ہوتے ہیں اور ایسی یادداشت جو ان دو عناصر سے خالی ہو اپنی اہمیت اور اعتبار کو کھو دیگی۔ لوگوں کی  تحریری یادداشت عام طور سے، عمر کے کسی خاص حصے، تاریخ کے حصے، کسی شخصیت، کوئی خاص جگہ، ایک اچھا یا برا احساس،غذا، سفر، پیشہ، تعلیم، دوست احباب، گھر والوں اور اس طرح کے موارد کی طرف اشارے سے شروع ہوتی ہے۔

اہمیت کا حامل دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عام طور سے افراد اپنی ذہنی معلومات کے بیان میں جو اُن کی ذاتی اور پوشیدہ زندگی سے براہ راست ارتباط رکھتے ہیں، مختلف طرح کی پابندیوں کا شکار ہوتے ہیں اور یاد داشت کو لکھنا اس مشکل سے نمٹنے کیلئے ایک مشق یا پریکٹس شمار کیا جاتا ہے۔  اتفاق سے تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی وہ لوگ جو روازنہ یاد داشت لکھنے کا کام کرتے یا جن کے پاس یاد داشت لکھنے کی ذاتی ڈائریاں ہیں، اُن کے اندر زبانی تاریخ کے انٹرویو یا یاد داشت بیان کرنے کی زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 4779


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔