اولویت کسے حاصل ہے؟

واقعہ کا پالینا یا حقیقت کا کشف کرنا

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-1-22


زبانی تاریخ کی خصوصیات میں سے ایک اُس کا ایک مشخص موضوع  کی حدود میں بامقصد انٹرویو  انجام پانے کو سمجھا جاتا ہے۔ اسی دلیل کی وجہ سے عام طور پر زبانی تاریخ میں کام کرنے والے افراد سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ راوی کا احترام کرتے ہوئے، اپنی وسعت قلبی کو بڑھاکر، صبر و حوصلہ کے ساتھ اُس کی باتوں کو سنیں  اور مناسب موقع پر معین حدود میں رہتے ہوئے سوالات کو پیش کرے۔

اس خاصیت کو قبول کرتے ہوئے، ایک سوال پیش ہوتا ہے کہ " کیاانٹرویو لینے والے کی ذمہ داری صرف ایک بامقصد واقعہ کو پالینے کیلئے انٹرویو کو انجام دینا ہے؟"یا "اُس کی ذمہ داری راوی کے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنے سے کسی حقیقت سے پردہ اٹھانا مراد ہے؟"

یہ سوال اُس وقت زیادہ نمایاں ہوتا ہے جب انٹرویو کو تشکیل دینے والی مربوط بحثوں میں،راوی سے بات کرتے ہوئے،   گفتگو کو جاری رکھنے کی ضرورت اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھنے کی بات آتی ہے۔

اس سوال کے جواب کو حاصل کرنے کیلئے اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ پہلے قدم پر زبانی تاریخ کا ہدف، واقعہ کو حاصل کرنا اور راوی کے مشاہدات کا اندارج ایک تاریخی سند کے عنوان سے ہے۔ اصل میں محقق اس ہدف کے ساتھ کہ پرانی روایتوں میں ایک نئی روایت کا اضافہ کرے راوی کے پاس جاتا ہے تاکہ  پہلے بیان ہونے والی باتوں کی اصلاح یا تکمیل کے مرحلہ میں نئے حقائق کا اندارج کرے۔ فطری سی بات ہے کہ ایسے عمل میں واقعات لکھنے کو اولویت حاصل ہوگی۔

واضح سی بات ہے  زبانی تاریخ کے انٹرویو میں  تشکیل پانے والی گفتگو اگرچہ ممکن ہے  جوش دلانے والی اور تنقیدی رہی ہو اور محقق ایک سننے والے کے عنوان سے نہیں کہ جو ایک سوال پوچھنے والے کی حیثیت سے  ذمہ داری کو ایفا کرتا ہے، لیکن اُس برقرار ہونے والی گفتگو کا مفہوم، مختلف فیلڈز کے صاحب نظر افراد  اور ماہرین کے درمیان سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی موضوعات پر ہونے والی  قدیمی گفتگو کے مقابلے میں مختلف نہیں۔

اہمیت کا حامل نکتہ یہ ہے کہ  اگر تمام  گفتگوؤں میں طرفین کی یہ کوشش ہو ایک جیسے مقام سے ایک دوسرے کیلئے ایک مشخص موضوع کے بارے میں اپنی نظر  منتقل کریں  اور سامنے والی کی باتوں کو وسعت قلبی اور آرام سے سنیں، زبانی تاریخ کے انٹرویو میں طرفین میں سے ایک (انٹرویو لینے والا) اس کے باوجود کہ اُسے مورد بحث موضوع کے بارے میں   تمام معلومات ہوتی ہیں (بعض اوقات راوی سے زیادہ) اُس کا اور راوی کا مقام ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس طرح کے مقام کی صورت میں شروع سے ہی انٹرویو کی ضرورت نہیں اور راوی کی باتوں کو ریکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بنیادی طور پر راوی نے خود کو زبانی تاریخ کے محقق کی باتیں سننے کیلئے  تیار نہیں کیا ہوا ہوتا، بلکہ اُس نے سوالوں کو سننے اور ایک با مقصد انٹرویو  اور بعض دفعہ اپنی  کوششوں کا اعلان کیا ہوتا ہے۔

حقیقت میں انٹرویو لینے والی کی کوشش ہوتی  پرانی معلومات اور مبہم نقاط کی پہچان سے استفادہ کرتے ہوئے ، راوی کے ساتھ گفتگو انجام دے اور اُس کی اطلاعات جو بعض دفعہ منفرد بھی ہوتی ہیں کو دریافت کرے۔  اس بنیاد پر تشکیل پانے والی گفتگو  دوسری تمام طرح کی گفتگوؤں  جیسی نہیں ہوگی۔

اسی وجہ سے  صراحت کے ساتھ کہنا چاہیے کہ زبانی تاریخ کا محقق اگرچہ وہ واقعات ریکارڈ کرنے میں کوشاں ہوتا ہے، لیکن وہ صرف واقعہ حاصل کرنے اور راوی کی من پسندمعلومات کو اندراج کرنے  کے درپے نہیں  اور وہ کوشش کرتا ہے کہ  ایک قسم کی بامقصد گفتگو ایجاد کرکے، ایک دوطرفہ تعمیراتی کام سے تاریخ کی کتابوں میں ایک نئے البتہ معتبر صفحے کا اضافہ کرے  اور اُس کے لئے حقیقت  کا کشف کرنا اولویت رکھتا ہے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3767


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔