زبانی تاریخ کی تالیف کے بارے میں

سوالوں کے ساتھ یا بغیر سوالوں کے، یہ نکات ضروری ہیں

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-1-7


یاد داشتوں کی تالیف اور متن  کی حتمی ترتیب،بہت زیادہ اہمیت  کی حامل ہے اور زبانی تاریخ کے محقق کو چاہئیے اس کام کی ظرافت پر توجہ رکھے اور اُسے ذمہ داری کے ساتھ انجام دے۔ موضوع کو واضح کرنے کیلئے مندرجہ ذیل نکات ذکر کئے جا رہے ہیں:

1۔ ترتیب کے حتمی مراحل میں بہتر ہے کہ انٹرویو کے ڈھانچے کو محفوظ رکھا جائے اور سوالات حذف نہ ہوں۔ کیونکہ سوالات متن کو زیادہ سمجھنے اور جوابات کے چوں چرا میں مدد کرتے ہیں اور مخاطب کیلئے انٹرویو کی شرائط اور  متن کو واضح طور پر پیش کرتے ہیں۔

2۔ سوالات حذف کرنے کی صورت میں، ضروری ہے مطالب کے درمیان، مناسب موضوع کے اعتبار سے عناوین قرار دیئے جائیں تاکہ مختلف موضوعات آپس میں مل نہ جائیں اور مطالب کو پڑھنا زیادہ آسان ہوجائے۔

3۔ دونوں صورتوں میں (سوالوں کے ساتھ یا بغیر سوالوں کے) تالیف پانے والی کتاب  کو مناسب فصل بندی کی ضرورت ہے۔

4۔ آخری متن (فائنل تحریر) کا ممکنہ صورت میں راوی کے لہجہ اور ادبیات سے نزدیک ہونا لازمی ہے اور اُس سے زیادہ فاصلہ نہ رکھتا ہو۔ اس بات کے یہ معنی ہیں کہ ایک معاشرتی طبقے سے اور جانے پہچانے ادبی اور ثقافتی معاشرے کے ایک شخص کی یادوں کو کسی دوسرے معاشرتی طبقے اور ادبیات  سے لی گئی فردی ادبیات سے ہٹ کر منظم نہیں کیا جاسکتا۔

5۔ ممکن ہے انٹرویو کے عمل میں، اصلی موضوع سے ہٹ کر  غیر مربوط اور دوسرے مطالب  ریکارڈ ہوجائیں کہ جنہیں داخل کرنے کی ضرورت نہیں۔

6۔ مطالب کو ترتیب دیتے وقت، براہ راست راوی کے مشاہدات اور واقعات پر توجہ کرنی چاہیے اور واقعہ میں تحلیلی مطالب کا اضافہ نہ ہو۔

7۔ پاورقیوں (فوٹ نوٹس) اور زندگی ناموں کو حوالوں کے ساتھ ہونا چاہیے اور انہیں تیار کرنے کیلئے معتبر منابعوں (انٹرنیٹ اور مکتوب) سے استفادہ کیا جائے۔  اسی طرح اصلی متن اور پاورقی کے منابعوں کو ایک مشخص اور سنجیدہ ترتیب سے ہونا چاہیے اور پوری کتاب میں ایک جیسے ہوں۔

8۔ بعض پا ورقیوں میں منبع سے استفادہ نہ کرنے کی صورت میں اس طرح سے مشخص کرنا چاہیے کہ پاورقی تصحیح کرنے والے (ایڈیٹر) کی طرف سے ہے۔

9۔ پاورقی کا مقصد، یاد داشتوں کو دلیل کے ساتھ پیش کرنا ہے اور یاد داشتوں سے بے ربط باتوں کو لکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

10۔ متن یا پاورقی میں خاص الفاظ کے معنی بیان کرنا ضروری ہے۔

11۔ ایڈیٹر کیلئے ضروری ہے کہ راوی اور مالک کی طرف سے بیان ہونے والی نصیحتوں کا خیال رکھے اور جب تک وہ راضی نہ ہوں اثر تحویل دینے یا اُسے چاپ کرنے سے پرہیز کرے۔

12۔ ایڈیٹر کتاب کے ٹائٹل پیج، نام  اور بائنڈنگ کے بارے میں اپنی اور راوی کی رائے کو تحریری صورت میں مالک یا ناشر کو پیش کرسکتا ہے۔ لیکن آخری فیصلہ کرنے کا حق صرف مالک اور ناشر کے پاس ہے۔

13۔ الفاظ لکھنے کا طریقہ(فونٹ) اور تحریری قوانین، اُن  دستورات کے تابع ہیں جسے مالک یا ناشر نے ایڈیٹر کے اختیار میں دیا ہے۔

14۔ تحریری متن تحویل دینے کے ساتھ ساتھ، مقدمہ، حوالہ جات، تصاویر اور تمام ملحقات کو بھی شامل کرکے تحویل میں دیا جائے۔

15۔ تمام کاغذات، انٹرویوز (آڈیو فائل اور ٹیکسٹ فائل)، تصاویر، آمادہ رسیدیں اور وہ تمام دستاویزات جسے محقق نے انٹرویو  اور کتاب کی تالیف کے عمل جمع کیا ہے، وہ ناشر یا مالک کی طرف سے معین شدہ حدود کے مطابق تحویل دی جائیں۔

16۔ کتاب کی فائنل تحریر کو ناشر کی تحویل میں دینے سے پہلے راوی کی تائید حاصل  کرلی جائے اور اُس سے مکتوب تائید دریافت کی جائے۔

17۔ تالیف کے تمام مراحل کو ایک ٹائم ٹیبل  میں لکھا جائے تاکہ احتمالی پوچھ گچھ کی صورت میں زیادہ آسانی کا سامنا ہو۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3544


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔