زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتوں پر انٹرویو – چوبیسواں حصہ

حافظہ کو اُبھارنا

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-11-4


ایک اور مشکل جس کا انٹرویو لینے والوں کو سامنا ہوتا ہے، وقت گزرنے اور مختلف موضوعات کی وجہ سے راوی کے حافٖظہ کا ضعیف ہونا ہے۔ واضح سی بات ہے زبانی تاریخ کا محقق اچھے سے اچھا انٹرویو انجام پانے کیلئے، راوی کے حافظہ کو ابھارنے اور اُس کی ذہنی سرگرمیوں کو تقویت بخشنے کیلئے مختلف طریقوں کے استعمال پر مجبور ہے۔ مندرجہ ذیل میں آپ ان میں سے بعض طریقہ کار کو ملاحظہ فرمائیں گے:

۱۔ عام طور سے دوسروں سے گفتگو کے دوران  لوگوں کا ذہن، زیادہ مصروف  اور سرگرم ہوتا ہے۔ دونوں افراد گفتگو سے جتنی زیادہ رضایت کا احساس کریں گے، اُن کے میل و رغبت میں اس کے علاوہ اور اضافہ ہوگا۔ اسی وجہ سے زبانی تاریخ میں انٹرویو لینے والے کو چاہیے کہ جہاں تک ہوسکے سامنے والے کو اس رضایت کا احساس دلائے  تاکہ انٹرویو کیلئے اُس کی دلچسپی جاری رہے اور اُس کا ذہن تیزی سے کام کرنے لگے۔ مختلف تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ  اگر مفید گفتگو ہورہی ہو تو لوگ ذہنی اور نفسیاتی حوالے سے مناسب صورتحال رکھتے ہیں جو حافظہ مضبوط  ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح ضروری ہے کہ انٹرویو کی نشستوں کے درمیان فاصلہ زیادہ لمبا نہ ہو تاکہ راوی کا ذہن مورد بحث موضوعات سے دور نہ ہوجائے۔

۲۔ انٹرویو کے اصلی موضوع کے بارے میں راوی کو انٹرویو سے چند دن پہلے اطلاع دے دینی چاہئیے تاکہ وہ اس بارے میں سوچ بچار کرلے۔ اسی طرح اُس سے کہا جائے کہ وہ اپنے ساتھ ایک کاغذ اور قلم رکھے تاکہ جو کچھ بھی اُسے یاد آتا جا رہا ہے وہ اُسے لکھتا رہے۔

۳۔ نشست کے آغاز میں، راوی کو پہلے والے انٹرویو کے بارے میں بتایا جائے اور کچھ منٹ بعد جب وہ اپنے ذہن کو متمرکز کرلے، پھر انٹرویو شروع کیا جائے۔

۴۔ یادگار واقعات جنہیں راوی یا دوسروں نے پہلے بیان کیا ہے اُنہیں یاد دلائیں تاکہ ایک مثبت حس ایجاد ہونے کے ساتھ، وہ موضوع میں صحیح سے داخل ہوسکے۔ عام طور سے مزیدار، ہنسنے والی  اور خوشحال کرنے والی باتیں حافظے کو ابھارنے میں موثر ثابت ہوتی ہیں۔ خاص طور سے وہ بعض واقعات جس میں طنزیہ گفتگو کی جاتی ہے۔

۵۔ اُن شخصیات کی  اسامی  اور ایسے موضوعات جن کی نسبت راوی نرم گوشہ رکھتا ہے، انٹرویو کے دوران اُن کی طرف اشارہ کریں۔ یہ کام، ناگزیر موضوعات کو بیان کرتے وقت راوی کے ذہن پر دباؤ کو کم کرسکتا ہے۔

۶۔ عام طور سے لوگ اپنی یادوں کو مختلف تصویروں، احساسات سے جڑی ہوئی نشانیوں اور علامتوں کے ساتھ اپنے ذہن کے سپرد کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے بہتر ہے ہر سوال کو نشانیوں اور دلچسپ تصویریں بناکر پیش کریں اور براہ راست  اور فوراً اہم سوالات کرنے سے اجتناب کریں۔

یاد رکھیں کہ ہم سب، معلومات کی یاد دہانی اور اُنہیں محفوظ کرنے میں اپنے تمام حواس سے استفادہ کرتے ہیں۔ مختلف موارد جیسے آوازیں، اشارے، احساسات، تصویریں، خوشبوئیں، جگہیں، زبانیں، ذائقیں وغیرہ اس بارے میں بہت مؤثر ہیں۔

۷۔ سوالوں کو وقت کی ترتیب ، ایک مناسب موضوع ساتھ اور ایک ایک کرکے پوچھیں۔ سوالات اور موضوع کا آپس میں گڈ مڈ ہوجانا راوی کے تمرکز کو کم کرنے کا سبب اور راوی کے ذہن کو تھکانے کا باعث بنے گا۔ اس وجہ سے جب تک ایک سوال کا جواب اور ایک موضوع کے مطالب مکمل نہ ہوجائیں دوسرے سوال کو نہ چھیڑیں۔

۸۔ اس بات پر دقت دیں کہ راوی تھکا ہوا اور نیند میں نہ ہو۔ اُس کی یہ حالت اُس کے حافظے کو کمزور کردیگی۔

۹۔ ضرورت کی صورت میں، اسناد ، تصویریں دکھا کر اور مکتوب منابعوں کی طرف اشارہ کرکے راوی کے ذہن کو سرگرم کریں۔

۱۰۔ راوی کو زیادہ آرام فراہم کرنا اور اُس کے آرام کا خیال رکھنا، اُس کے حافظے کو مضبوط کرنے کا باعث ہوگا۔ اس بات کا دھیان رکھیں کہ راوی دباؤ کا شکار نہ ہو، کیونکہ ہر طرح کی پریشانی اُس کے تمرکز کو کم او



 
صارفین کی تعداد: 3759


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔