"شہید حسین علی فخری کی یادیں" نامی کتاب کے مؤلف عباس رئیسی بیگدلی کے ساتھ گفتگو

ایسا انٹرویو لینے والا جس کے پاس سوال نہ ہو، اس جنگجو کی مانند ہے جس کے پاس اسلحہ نہ ہو

فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-6-20


عباس رئیسی بیگدلی، دفاع مقدس کے ایک مجاہد ہیں جو چند سالوں سے دفاع مقدس  کی یادوں کے حوالے سے تألیف میں مشغول ہیں۔ "عمو حسین" نامی کتاب جو شہید حسین علی فخری کی یادوں پر مشتمل ہے، ان کی پہلی تالیف ہے جو سن ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کی اشاعت بہانہ بنی کہ زبانی تاریخ کی ویب سائٹ ان سے گفتگو کرے۔ یادوں کی تالیف کرنے والوں اور یادوں کی تالیف کا ذوق رکھنے والوں کے لئے اُن کی اس کتاب اور بقیہ کتابوں میں جو ابھی تالیف اور اشاعت کے مراحل میں ہیں، ان کے کام کرنے کے طریقہ کار سے آگاہی ہماری گفتگو کا نتیجہ ہے۔

 

آپ نے دفاع مقدس کے شعبے میں کب سے واقعہ نگاری کا آغاز کیا؟

میں نے سات سال پہلے واقعہ نگاری شروع کی۔ البتہ اس سے پہلے بھی مختلف موضوعات پر دفاع مقدس کے ہی شعبے میں لکھتا رہا ہوں۔ سن ۱۹۸۳ء میں شہید حسین مختصی،جن کے ساتھ میں  جنگ میں دو سال رہا، میں نے تقریباً بیس، تیس صفحوں پر اُن کا زندگی نامہ لکھ کر شہید  کی بہن کودیا، جو ایک مجلے میں شایع ہوا۔ میری خوش نصیبی کہ اس میں میرا نام ذکر نہیں ہوا۔ ہم مجاہد لوگ پسند نہیں کرتے کہ ہمارا چرچا ہو لیکن رہبر معظم انقلاب کے فرمان کہ آج شہدا کی یاد کو زندہ رکھنا شہادت سے کم نہیں ہے، کی وجہ سے دفاع مقدس کے شعبے میں تألیفی میدان میں داخل ہوا ہوں۔ البتہ اس کام کی ابتدا ایک خواب سے ہوئی۔ میں تقریباً سن ۱۹۸۱ء کے شروع سے فروری ۱۹۸۹ء تک جنگ پہ رہا ہوں۔ سن ۱۹۸۹ء میں جب جنگ ختم ہوئی اور میں اپنے  شہر (آران و بیگدل) واپس آیا تو مجھے اسکول، کالج کے طالب علموں اور عام لوگوں کے درمیان جنگ کی یادیں اور باتیں بیان کرنے کی دعوت دی گئی۔ میں سن ۲۰۱۰ء کے نوروز میں آٹھ بسوں پر مشتمل ایک کاروان کے ساتھ کاشان سے آبادان کے سرحدی علاقے اروند گیا وہاں میں نے شہید حسین خرازی اور شہید احمد کاظمی جیسے شہداء کے ساتھ گزری اپنی یادوں کو بیان کیا۔ اسی رات میں نے خواب میں خود کو عباس نامی مجاہد کے ساتھ دیکھا تھا اور دیکھا کہ فوج کا ایک جوان میز کی دوسری طرف بیٹھا ہوا ہے جس کے سامنے لیپ ٹاپ کھلا ہوا ہے۔ حاج احمد کاظمی جن کی شہادت کو کچھ ہی سال گزرے تھے، دروازے سے داخل ہوئے؛ ہم سب نے ایک دوسرے کو سلام کیا اور احوال پرسی کی۔ حاج احمد کاظمی بہت خوش تھے اور مسکرا رہے تھے۔ میں نے ان سے تعجب سے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟" حاج احمد نے جواب دیا: "میں آپ لوگوں سے ملاقات کرنے آیا ہوں"، میں بہت خوش ہوا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: "آپ تہران یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے، ماسٹر بھی کیا؟" میں نے کہا: "نہیں جناب! میں نے ماسٹرز کیلئے امتحان دیا لیکن سپاہ نے اجازت نہیں دی"۔ حاج احمد نے میز کی دوسری طرف بیٹھے فوجی جوان کو حکم دیا: "ایک خط لکھو تاکہ عباس یونیورسٹی میں ماسٹرز کی پڑھائی کرے!" اور میری آنکھ کھل گئی۔ اس خواب نے تین مہینے تک میرے ذہن کو الجھائے رکھا اور میں اس کی تعبیر کے بارے میں سوچتا رہا۔ تین مہینے بعد، میں نے اپنے آپ سے کہا: "امام خمینی نے فرمایا، یونیورسٹیاں میدان جنگ ہیں اور میں میدان جنگ میں تھا۔" جب میں تہران یونیورسٹی میں تھا تو میں گریجویشن کر رہا تھا اور حاج احمد کاظمی ماسٹرز کر رہے تھے۔ ہم دونوں کے مضامین ایک ہی تھے اور ہم ہر ہفتے کچھ دیر تک ایک دوسرے سے باتیں کیا کرتے تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ حاج احمد کی اس وصیت پر عمل کروں اور دفاع مقدس کے موضوع پر قلم اٹھاؤں۔ تین سال کی مدت میں، میں اپنی جنگ کے واقعات کو رشتہ تحریر میں لے آیا؛ اور پھر مئی سن ۲۰۱۳ ء میں ہونے والے بک فیسٹیول میں میری مرتضی سرہنگی سے ملاقات ہوئی، میں نے انہیں اپنے جنگی واقعات کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہاکہ میں اپنے جنگی واقعات کی تحریر انہیں ارسال کروں۔ میری تحریر کے مطالعے کے بعد انہوں نے میری رہنمائی کی کہ اس کا کیا کروں۔ "مطالعات اور پائیدار ثقافت" کے دفتر میں شعبہ ہنر کے ماہرین جناب محمد قاسمی پور اور ساسان ناطق، قاسمی صاحبہ اور ایک اور ماہر نے میری تحریر کا مطالعہ کرکے اظہارِ نظر کیا۔ میری اس تحریر پر مزید دو ، تین سال کام ہوا اور انہوں نے مجھ سے چاہا کہ جو باتیں میں نے نہیں لکھی ہیں وہ بیان کروں۔ مثال کے طور پر میں نے جنگ کے دوران اپنی شادی کے بارے میں کچھ نہیں لکھا تھا، اپنے زخمی ہونے کے بعد ہسپتال میں داخل ہونے کے بارے میں نہیں لکھا تھا، وہاں سے چھٹی ملنے کے حوالے سے، مزاح اور مذاق کے بارے میں کچھ نہیں لکھا تھا۔ ماہرین کی رہنمائی کے سبب ان باتوں کا اضافہ کیا اور چار سے پانچ مرحلوں میں میری یہ تحریر مکمل ہوئی۔

اس دوران، میں نے تربیتی ورکشاپوں میں شرکت کی۔ ان ورکشاپوں میں چند بار شرکت کرنے کے بعد جناب سرہنگی نے مجھ سے کہا: " ایک چھوٹا وائس ریکارڈر خرید لو اور جس طرح سے اپنے جنگی واقعات لکھے ہیں، جنگ کے ایک اور مجاہد کا انٹرویو لو اور اس کے واقعات تحریر کرو۔ ان کی اس تجویز پر میں نے اپنے جنگی واقعات کی تحریر کی اصلاح کے زمانے میں ہی اپنے ہی ایک جنگی ساتھی حسین عصاریان کا انٹرویو لینا شروع کیا۔ عصاریان کا کام تقریباً دو سال چلا۔ بعض اوقات تین مہینےتک میں اپنا کام کرتا اور جب وہ کام ماہرین کے حوالے کردیتا تو اس کے بعد انٹرویو کرلیتا۔

 

اپنے ہی واقعات کو لکھنا بعض مشکلات اور نواقص کا سبب ہوتا ہے؛ مثلاً راوی کیونکہ خود بعض باتوں کو جانتا ہے، سمجھتا ہے کہ مخاطب بھی جانتا  ہے اور باریک بینی سے بیان نہیں کرتا۔ بعض نکات کی طرف توجہ نہیں کرپاتا یا خود راوی بعض باتیں بیان نہیں کرتا یا اپنے بارے میں زیادہ نمایاں طریقے سے بیان کرتا ہے یا بعض ایسی اصطلاحیں استعمال کرتا ہے کہ جس کا اثر پورے کام پر پڑتا ہے۔ آپ نے ان تمام باتوں کا خیال کس طرح سے رکھا کہ آپ کی تحریر ان نواقص سے محفوظ رہے؟

میں بھی ان مشکلات کا شکار تھا۔ میری جنگی یادوں کی کتاب ۳۵۰ صفحوں پر مشتمل ہے، اگر میرا انٹرویو لیکر یہ کتاب لکھی جاتی تو ۷۰۰ صفحوں پر ہوتی۔ لیکن جب میں نے اپنی جنگی یادوں کو کاغذ پہ لانا شروع کیا تھا تو ایک کتاب لکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔ ان کے کتاب ہونے کا آغاز مرتضی سرہنگی سے ملاقات کے بعد ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے پسند نہیں تھا کہ میرا نام ذکر ہو۔ حتی ابھی بھی جو میں آپ کے ساتھ بات کر رہا ہوں، یہ چیز مجھے ناپسند ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میرا نام ذکر ہو لیکن کیا کروں، ہوگیا  ہے ...

 

شہید حسین علی فخری کی جنگی یادوں کی کتاب یا "عمو حسین" کا آغاز آپ نے کب کیا؟

میں نے فروری ۲۰۱۴ء میں یونیورسٹی میں پڑھانے والے اپنے ایک دوست سے درخواست کی کہ اس شہید کی جنگی یادوں کی تالیف کے کام کو میرے حوالے کرے۔ میں اس شہید کو جانتا تھا۔ میرے والد  کے قدیمی پڑوسی اور ان کے ہم عمر تھے اور جنگ میں ہماری بٹالین کی تلافی کے عہدیدار تھے۔ میرے دوست نے میری اس گزارش کو قبول کرلیا اور میں نے  کام شروع کردیا۔ میں نے سب سے پہلے اس شہید کی وہ یادیں لکھیں جو مجھے خود معلوم تھیں، اس کے بعد اس کے گھر والوں کو اس بارے میں آگاہ کیا، یہ سن کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔ شہید حسین علی فخری کہ جنہیں ہم "عمو حسین" کہا کرتے تھے، سن ۱۹۸۱ء میں جنگ پہ گئے ۔اس شہید کے گیارہ بچے تھے۔ میں نے پہلے ان کی زوجہ اور دو بیٹوں سے انٹرویو لیا۔ میرا انٹرویو کیلئے طریقہ یہ تھا کہ شہید  کی تصویروں کے البم  سے راویوں کو ڈھونڈا کرتا تھا اور پوچھتا تھا کہ فلاں شخص جو تصویر میں عمو حسین کے ساتھ ہے اس کا ان سے کیا تعلق ہے؟ پھر اس کا فون نمبر لیا کرتا تھا۔ درحقیقت جس کے بھی گھر انٹرویو کیلئے جاتا تھا انٹرویو کے بعد اس سے درخواست کرتا تھا کہ اپنی تصویروں کی البم لیکر آئے۔ ان تصویروں میں سے نئے افراد کے بارے میں معلومات لینے کے علاوہ شہید کی تصویروں کو بعنوان امانت لے لیا کرتا تھا اور اسکین کرکے واپس لوٹا دیا کرتا تھا۔ ان میں سے بعض افراد کاشان کے اور بعض اصفہان کے تھے۔ (البتہ) میرے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا( کہ اُن کا تعلق کہاں سے ہیں)۔ میں ان افراد سے ٹیلی فون پہ بات کرکے انہیں انٹرویو کے بارے میں بتاتا تھا، اس کے بعد انہیں سوچنے اور شہید کی یادوں کے حوالے سے نکات لکھنے کیلئے ایک سے دو ہفتے کا وقت دیتا تھا۔ اس کے بعد انٹرویو کا وقت طے کرتا تھا۔

 

انٹرویو دینے والے افراد تعاون کیا کرتے تھے؟ اگر وہ انٹرویو دینے میں تعاون نہیں کرتے تھے  تو آپ کس طرح سے ان کی آراء لینے میں کامیاب ہوتے تھے؟

میں نے اس کام کیلئے دو سو افراد کی رائے لیں لیکن آخر میں ۵۲ لوگوں کے انٹرویو شائع ہوئے۔میں ٹیلی فون پہ یا اصفہان، آران، بیگدل اور کاشان کی مسجد، محفل یا کسی دعوت میں خود ان سے مل کر طے کیا کرتا تھا۔ انٹرویو کے حوالے سے مختلف کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھے ہوئےنکات ہمیشہ میرے ساتھ ہوا کرتےتھے۔ اگر ضرورت ہوتی تو میں اپنا لیپ ٹاپ بھی لیکر جایا کرتا تھا۔ ان سے انکساری سے ملتا تھا ۔وہ لوگ جو شروع میں انٹرویو کیلئے راضی نہیں ہوتے تھے، ان سے بات کیا کرتا اور رہبر معظم انقلاب کے چند جملے انہیں بتاتا جیسے کہ آج شہدا کی یادوں کو زندہ رکھنا شہادت سے کم نہیں ہے اور جنگی یادیں آئندہ آنے والوں کیلئے بیش بہا خزانہ ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود، بعض افراد ٹال مٹول  سے کام لیتے تھے اور کہتے ایک ہفتے بعد، دو ہفتے بعد، تین ہفتے بعد اور تاخیر کیا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک فرد وہ تھا کہ جس کے ساتھ میں جنگ پہ رہا تھا۔ میں نے شروع کے مہینوں میں اُسے ایک مسجد میں دیکھا۔ اس نے دو منٹ مجھے اپنی جنگی یادوں کے بارے میں بتایا۔ اس وقت میرے پاس نہ ریکارڈر تھا اور نہ ہی کوئی کاغذ۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ آپ کے پاس اگلے ہفتے  میں کوئی وقت ہے  اور اس طرح سے ڈیڑھ سال میں کئی مرتبہ ملاقاتیں رکھیں لیکن بالآخر اس نے انٹرویو نہیں دیا۔ اسی طرح ایک اور فرد چھ مہینے تک انٹرویو دینے کیلئے راضی نہیں ہوا۔ انہیں میں نے ایک خاص طریقے سے راضی کیا۔ (تو) کہنے لگے: "مجھے کچھ یاد نہیں آرہا۔  تم جو کچھ لکھو گے میں اس کی تائید کردونگا۔" میں نے کہا: "میں چاہتا ہوں کہ اس شہید کو آپ کی نگاہ سے اور آپ کے نام سے پہچنواؤں۔" وہ مجھ سے بڑے بھی تھے۔ ایک دن میں نے ان سے کہا: "کسی  دن آپ میرے گھر آئیں اور میں نے جو کام کیا ہے، اسے دیکھیں۔" ہم نے وقت طے کیا۔ میں نے لیپ ٹاپ کھولا اور اس میں سے اس شہید کے بارے میں دیگر افراد کی بتائی ہوئی باتوں کو چالیس منت تک پڑھتا رہا۔ اس دوران ریکارڈر، ریکارڈنگ پہ لگا ہوا تھا لیکن انہیں معلوم نہیں تھا۔ اچانک ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ کہنے لگے: "عباس! اگر میں تمہیں بتاؤں تو کیا تمہیں  یاد رہ جائے گا تاکہ بعد میں لکھ لو؟" میں نے کہا: "ہاں"۔ اس کے بعد انہوں نے بیس منٹ تک روتے روتے بتایا اور اس درمیان چند بار یہ جملہ تکرار کیا: "یہ باتیں تمہیں یاد رہیں گی؟" کتاب شائع ہونے کے بعد وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے دعائیں دینے لگے۔

میں ہر ہفتہ کچھ لوگوں سے انٹرویو کیلئے ہماہنگی کرتا تھا اور ایک یا دو انٹرویو ضرور لیتا تھا اور باقی دنوں میں ان انٹرویو ز کو لکھتا اور مرتب کرتا تھا اور دوسروں سے اس کے بارے میں رائے لیتا تھا۔

بعض ہفتوں میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ میں جس سے بھی بات کرتا وہ راضی نہیں ہوتا تھا اور انٹرویو دینے کیلئے تیار نہیں ہوتا تھا، اس صورت میں، میں خود شہید کی زیارت کرنے جاتا تھا اور خود اس سے مدد طلب کرتا تھا۔

 

آپ کے پاس جو معلومات جمع ہوتی تھیں، آپ اُسے کس طرح ایک دوسرے سے الگ کرتے تھے؟

میں شہید کی میدانِ جنگ کی یادیں جمع کرنا چاہتا تھا۔ اس سوال سے میں انٹرویو لینا شروع کرتا تھا کہ آپ کی اس شہید سے پہلی دفعہ کب ملاقات ہوئی؟ سب سے پہلی ملاقات میں آپ نے اسے کیسا پایا؟ جب جنگ پہ آپ کیلئے کھانا لیکر آتا تھا تو اس کا برتاؤ کیسا ہوتا تھا؟ کیونکہ عمو حسین، بٹالین کی تلافی کے  عہدیدار تھے، میں جاننا چاہتا تھا کہ جب ایک معمولی مجاہد ان سے رجوع کرتا تھا تو ان کا رویہ کیسا ہوتا تھا؟ میں ان سے پوچھتا تھا کہ کیا آپ نے کبھی ایسا حادثہ دیکھا کہ جس میں تلافی کے شعبے میں کسی گاڑی پر بم گرا ہو؟ بعض افراد آدھے گھنٹے تک بغیر کسی وقفے کے بتاتے رہتے اور اس دوران میں ان کی باتوں سے استفادہ کرتا تھا۔ تعریف کرنا اچھی چیز ہے لیکن مصداق اور مثال کے ذریعہ سے صفت یا تعریف کی وضاحت ہونی چاہئیے تھی۔ میں نے درحقیقت ۶۰ انٹرویو لئیے جن میں سے ۵۲ انٹرویو مفید تھے۔ میں نے ایک اور کام جو کیا وہ ان باتوں کے سچ ہونے کی آزمائش ہے۔ جو بھی واقعہ لکھتا تھا۔ بقیہ افراد سے بھی اس کے بارے میں پوچھتا تھا کہ فلاں واقعہ جو کہ فلاں شخص نے بیان کیا ہے، فلاں جگہ اور فلاں تاریخ میں واقع ہوا تھا؟ البتہ میں خود راوی سے نہیں کہتا تھا کہ میں اس کے حقیقت ہونے کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔ اسی وجہ سے میں نے بعض یادوں کو ذکر نہیں کیا اور اُنہیں منظر عام پر آنے نہیں دیا۔ مثلاً میدان جنگ میں روزہ رکھنا، میری نظر میں بیان کرنے کے قابل نہیں ہے کیونکہ آفیسرز اپنے فوجیوں کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ میں خود سات سال جنگ پہ رہا ہوں۔ ماہ رمضان  میں بیس دن تک جنگ پہ تھا۔ جب جہاد ہے تو آپ جہاد کی حالت میں مسافر ہیں اور مسافر روزہ نہیں رکھ سکتا۔ ہمیں روزہ رکھنے کیلئے اپنی امام حسین (ع) بٹالین کے کمانڈر سے اجازت لینی پڑتی تھی۔ ہمارے کمانڈر حاج حسین خرازی اپنے سپاہیوں کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ دس دن کی نیت کریں اور روزہ رکھیں۔ جن سالوں میں ، میں جنگ پہ تھا شہید خرازی کی اجازت سے میں نے تین دن روزے رکھے۔ یہ موضوع سیکیورٹی کے اعتبار سے اہمیت کا حامل تھا اور دشمن کے علم  میں نہیں آنا چاہئیے تھا کہ یہ لشکر یہاں رہے گا اور اس کے خیال میں ہمیشہ یہ رہنا چاہئیے تھا کہ یہ لشکر شاید یہاں سے چلا جائے۔ اس لئے اگر راوی مجھے بتاتا کہ میں نے دیکھا کہ فلاں شخص روزہ رکھا کرتا تھا اور عمو حسین علی اس کیلئے سحری لایا کرتے تھے تو یہ بات یقینی نہیں ہے۔ میں نہیں کہہ رہا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے بلکہ یہ بات ہمارے لئے قابل استفادہ نہیں ہے۔

 

آپ نے شہید حسین علی فخری کی بچپن کی یادوں سے شروع نہیں کیا اور ان کی سب سے پہلی بات آ پ نے ان کی زوجہ سے نقل کی۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے جنگ کے واقعات شروع کریں یا اس کی وجہ صرف آپکا انٹرویو لینے کا طریقہ ہے؟

میرا ارادہ یہ تھا کہ عمو حسین کے بچپن سے شروع کروں لیکن ان کے تمام ہی ہم عمر لوگ بوڑھے ہوچکے تھے، یہ کام مشکل تھا۔  ان میں سے ایک میرے والد تھے، جن کی عمر ۸۲ سال ہے ۔ میں نے ان میں سے بعض افراد سے گفتگو کی لیکن ان کی باتیں عمو حسین کی پندرہ سال کی عمر سے شروع ہوتی تھیں کہ جب وہ لوگ ساتھ کھیلا کرتے تھے اور ساتھ مسجد جایا کرتے تھے۔ میں نے شہید کے بہنوئی سے بھی بات کی لیکن میں ان کے پندرہ سال سے پہلے کے واقعات سنانے والا کوئی شخص نہیں ڈھونڈ سکا۔  اسی وجہ سے میں نے اس شہید کے واقعات بیس سال کی عمر سے نقل کئیے۔

 

آپ کی کتاب کی ایک خاصیت یہ ہے کہ کتاب کے متن کے ساتھ تصاویر موجود ہیں جو کئی کتابوں میں آخر میں لائی جاتی ہیں۔ یہ طریقہ آپ کی اپنی تجویز تھی یا ماہرین کی؟

یہ تجویز کتاب شائع کرنے والے، شہید کاظمی پبلیشرز کی تھی،  میرا خود بھی یہی خیال تھا۔ انٹرویو لیتے وقت بھی میں تصویروں سے استفادہ کیا کرتا تھا تاکہ انٹرویو دینے والا بھی سرگرم رہے۔ کتاب میں بھی میں چاہتا تھا کہ پڑھنے والا راوی کو وہیں دیکھے کہ جہاں اس کی بتائی ہوئی باتیں پڑھ رہا ہے۔

 

آپکا شروع سے یہی ارادہ تھا کہ آپ ایک ایک واقعہ نقل کرکے اپنی کتاب کو آگے بڑھائیں گے یا بعد میں آپ نے یہ فیصلہ کیا؟

میری نظر میں چند طریقے تھے لیکن ان میں سے آسان طریقہ یہی تھا۔ میں نے مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا اور پھر ایک نتیجے پر پہنچا۔ میں نے اپنے تمام مطالعات سے چند طریقے حاصل کئے؛ ایک طریقہ  یہ تھا کہ ایک ایک کرکے واقعات کو لکھا جائے اور دوسرا طریقہ یہ تھا کہ تمام انٹرویو لینے کے بعد انہیں کسی کے سپرد کروں تاکہ وہ اسے ایک پیوستہ کہانی کی صورت میں لکھے۔ میں نے پہلا طریقہ اپنایا۔

 

یادوں کی جمع آوری کے کام میں آپ نے تین کاموں کا تجربہ کیا ہے: خود اپنے بارے میں لکھا، شہداء کے بارے میں لکھا اور ان افراد کے بارے میں لکھا جو زندہ ہیں۔ ان تینوں میں سے کونسا کام زیادہ مشکل ہے؟

شہداء کے بارے میں لکھنا خاص مہارت کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ شہید آپ کے ساتھ بات نہیں کر رہا ہوتا بلکہ آپ کو اس کے واقعات اور واقعات بتانے والوں کا کھوج لگانا ہوتا  ہے۔ لیکن زندہ مجاہد آپ کے سامنے ہوتا ہے اور مجھے کیونکہ جنگ کا تجربہ ہے میں ان کے اندر سے باتیں نکلوا لیتا ہوں۔ خود اپنے بارے میں لکھنا بھی سخت ہے کیونکہ اس کام کے دوران آپ ہمیشہ سے اپنے اندر ایک کشمکش کا شکار ہوتے ہیں کہ کہیں یہ خود نمائی (ریاکاری) تو نہیں ہے؟ فلاں چیز کو چھوڑ دوں یا لکھوں؟ خدا کیلئے ہے یا اپنے نفس کیلئے؟ اس کے علاوہ اصطلاحوں میں الجھنا سبب بنتا ہے کہ اصلی بات کھو جائے۔ لیکن زندہ مجاہد کے ساتھ انٹرویو لینے میں اگر آپ مہارت رکھتے ہوں تو آپ با آسانی اسے واقعات بتانے کی طرف مائل کرسکتے ہیں۔

 

کیا ابھی آپ کسی اور نئے پروجیکٹ میں مصروف ہیں؟

میں نے سن ۲۰۱۵ء میں محمد کریم زادہ فینی نامی جنگ کے ایک زخمی سے ۲۲ گھنٹے کا انٹرویو لیا ہے  جن کی ٹانگ جنگ میں ضائع ہوگئی تھی۔ ان کے بچپن سے لیکر انقلاب تک، جنگ پہ جانا اور اس کے بعد طلائیہ کے مقام پر زخمی ہونا اور اس کے بعد تک کے واقعات کو میں لیکر آیا ہوں اور اصفہان کے شعبہ ہنر کے حوالے کردیا ہے۔ دوسرا پروجیکٹ ایک اور مجاہد کے بارے میں ہے جو میری ہی طرح ۸۰ مہینے جنگ پہ رہے ہیں اور آج کل ثقافتی شعبہ میں سرگرم ہیں۔ ان سے ۲۵ گھنٹوں پر مشتمل انٹرویو ہوچکا ہے۔ لیکن ان کی طبیعت کی ناسازی اور پھر ان کے والد کے انتقال کی وجہ سے یہ کام ایک سال سے رکا ہوا ہے۔ جلد ہی ان کا انٹرویو دوبارہ لینا ہے۔

 

موضوع کا انتخاب آپ اپنی سابقہ پہچان کی بنیاد پر کرتے ہیں یا آپ نے اب تک جن لوگوں کے واقعات لکھے ہیں، آپ ان سے اتفاقاً آشنا ہوئے ہیں؟

ابھی تک میں نے جو کام کیا ہے وہ لوگوں سے اپنی سابقہ پہچان کی بنیاد پر کیا ہے، کیونکہ میں ان سے ملاقات کرسکتا ہوں۔ مثلاًٍ عصاریان صاحب کے ساتھ میں بہت سی جگہوں پر رہا ہوں۔ اسی وجہ سے انٹرویو میں ہم ایک دوسرے کی مدد کرپاتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں، آہستہ آہستہ، ایک جگہ سے دوسری جگہ، ایک آپریشن سے دوسرا آپریشن، وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔

بقول ایک استاد کہ: ایک انٹرویو لینے والے کو گفتگو میں سوال کے ذریعے داخل ہونا چاہئیے۔ اگر اس کے پاس کوئی سوال نہیں تو وہ اس جنگجو کی طرح ہے جس کے پاس اسلحہ نہ ہو۔ میں نے غالباً ایسے مجاہدوں کا انٹرویو لیا ہے جن کے ساتھ میں مختلف آپریشنز یا مختلف جگہوں پر شانہ بشانہ رہا ہوں، وہ جیسے ہی خاموش ہوتے ہیں، میرے پاس ایک سوال تیار ہوتا ہے اور میں پوچھ لیتا ہوں۔ جنگی علاقوں اور جنگی آپریشنز سے واقفیت اور گذشتہ ۲۸ سالوں سے جنگی واقعات کو بیان کرنے کے سبب میں آسانی سے سوال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔

درحقیقت آپ انٹرویو کو بامقصد طریقے سے شروع کرتے ہیں لیکن شروع میں راوی کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ واقعات کو خود بیان کرے اور پھر جہاں لازم سمجھتے ہیں، اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔

جی ہاں، بالکل صحیح کہا آپ نے۔ حتی بعض اوقات اسے واقعہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی جگہ معلوم نہیں ہوتی۔ میں اس جگہ کا نام لے لیتا ہوں۔ جب مجھے لگتا ہے کہ بعض اطلاعات دقیق نہیں ہیں تو میں انٹرویو کو روک کر آپریشنوں کے نام، تاریخ اور مقامات ، دقیق طور پر لیکر آتا ہوں اور اگلی نشست میں اس کی مدد کرتا ہوں۔

 

بنابرایں کتاب خانوں میں انجام دی جانے والی تحقیقیں آپ کے کام میں اہمیت کی حامل ہیں؟

جی ہاں۔ میں نے کئی سالوں میں جنگی واقعات پر مبنی کتابیں جو انتشارات مہر اور دیگر ناشرین نے شائع کی ہیں، پڑھی ہیں لیکن قلم کے میدان میں، میں نے جنگ کے بارے میں اپنی معلومات سے استفادہ کیا ہے۔

 

شہر آران اور بیگدل میں جنگی واقعات نقل کرنے کے حوالے سے صورتحال کیسی ہے؟ اس حوالے سے وہاں موجود کسی انجمن یا گروہ سے رابطے میں ہیں؟

جی، کچھ گروہ ہیں۔ جیسے کہ "رہروا ن وصال" گروہ جس کی رہنمائی کرنے والے میرے جنگ کے ساتھی جناب کریم شاہی جیسے لوگ ہیں۔ ان میں سے بعض کے ساتھ میں بات کرتا ہوں اور لکھنے کی خصوصیات بیان کرتا ہوں۔ وہ شہداء کے بارے میں سات ، آٹھ جلد کتابیں چھاپ چکے ہیں البتہ یہ کتابیں بہت مختصر ہیں۔ ایک شہید کی ماں، بہن، بھائی اور ایک جنگ کے سپاہی نے اس شہید کے واقعات بیان کیئے ہیں لیکن جنگ کے واقعات بیان نہیں ہوئے ہیں۔ اور بھی کتابیں چھپ چکی ہیں جو پچاس سے سو صفحوں کی ہیں لیکن ان تمام انٹرویو میں شہید کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پہ روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔

 

ناشروں کے ساتھ کام کرنے کی صورتحال کیسی ہے؟

شہید کاظمی  پبلیشرز کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ اچھا تھا۔  لیکن سورہ مہر پبلیشرز سے خود میرے واقعات پر مشتمل کتاب کی اشاعت ابھی باقی ہے۔ میری اپنی کتاب شائع کرنے کی درخواست اس وجہ سے ہے کہ ہمارے شہر میں جنگ کے اٹھارہ ہزار مجاہد موجود ہیں، جنہوں نے اپنی جنگ کی آپ بیتی بیان نہیں کی۔ اگر میری کتاب شائع ہوگی تو جنگ کے بقیہ مجاہدوں کیلئے تشویق کا باعث بنے گی اور ایک تبدیلی آئے گی جو شہر کاشان کیلئے ایک اچھا نقطہ آغاز ہوگا۔ کئی دوست کہتے ہیں: تمہاری کتاب جو شائع ہونی تھی، اس کا کیا ہوا؟

آپ کا بہت شکریہ آپ نے اپنا وقت ایران کی زبانی تاریخ کی ویب سائٹ کو دیا۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3682


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔