حجاب پر پابندی کی سازش اور امام خمینی (رہ) کی حق گوئی

مریم اسدی جعفری
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-2-5


حجاب اور پردہ، ایران کی تاریخ کے مختلف ادوار میں - حتی اسلام سے پہلے کی حکومتوں کے زمانے میں بھی – مختلف صورتوں میں مردوں اور خواتین کے درمیان رائج رہا ہے اور دین اسلام کے ایران میں آنے سے لوگوں کے درمیان ایک خاص توجہ اور احترام  حاصل کرگیا۔ صفویوں کی حکومت میں  شیعہ مسلک کے رسمی ہونے کی وجہ سے اسلامی شعائر کا خاص اہتمام کیا جانے لگا اور قاجاریوں کی حکومت تک قاجاری چادر اور سفید مقنعے کی شکل اختیار کر گیا جو کہ قاجاریوں کی حکومت کے حجاب کی علامت ہے۔ لیکن پہلوی بادشاہی حکومت میں رضا خان کے بادشاہ بننے کے بعد حجاب کو ختم کرنے کی مقدمہ سازی ہوئی۔

رضا خان نے اپنی حکومت کے آغاز میں دھوکہ دہی کے طریقے کو اپنایا اور امام حسین (ع) کی عزاداری کے جلوسوں میں پیدل شرکت کی؛ لیکن آہستہ آہستہ اپنے تمام دینی عقائد کو ایک طرف رکھ دیا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ فرنگی لباس اور ٹوپی ایران  کا رسمی لباس قرار پایا اور مجالس کو محدود کر دیا گیا اور حجاب کو ممنوع۔

 

حجاب پر پابندی، رضا خان کیلئے ترکی کی سوغات!

محمد علی فروغی  جو کہ  اس وقت ترکی میں ایران کا سفیر تھا، اس نے رضا خان کے سفر ترکی کیلئے  راہ ہموار کی تاکہ ایران کا  بادشاہ اس یورپی ثقافت کو نزدیک سے دیکھے جو ترکی میں رائج ہوچکی تھی۔ رضا خان نے ۲ جون ۱۹۳۴ء کو ترکی کا سفر کیا جس میں وہ کمال مصطفی پاشا (اتا ترک) کے دین مخالف اقدامات سے متاثر ہوا۔

فروغی بعد میں رضا خان کے وزراء کا رئیس بن گیا اور رضا خان کے سفر ترکی کو ثمر آور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگیا۔ محمد رضا پہلوی نے اس بات کا اس طرح  اعتراف کیا ہے کہ خواتین کے حجاب کو ختم کرنے کیلئے سب سے پہلے اس کے باپ نے قدم اٹھایا اور اس کے شوق دلانے کی وجہ سے، پہلی مرتبہ دربار کے اعلیٰ مرتبے کی خواتین یا ان سے وابستہ خواتین اپنے گھروں اور دعوتوں میں مغربی لباس میں ظاہر ہوئیں اور ایسی خواتین کی تعداد کم تھی جنہوں نے عام گلی کوچوں میں بغیر حجاب کے آنے کی جرأت کی۔ اس کے بعد خواتین اساتذہ اور طالبات کیلئے حجاب ممنوع کر دیا گیا۔ (۱)

۸ جنوری ۱۹۳۶ء کو پہلی دفعہ کسی عمومی پروگرام میں رضا خان اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ آیا کہ جس میں وہ بے حجاب تھیں۔ یہ پروگرام ٹریننگ کالج سے فارغ التحصیل ہونے والی طالبات میں تقسیم اسناد کا جشن تھا۔ اس سے اگلے دن پورے ملک میں حجاب پر پابندی لگ گئی اور با حجاب خواتین کے ساتھ گلیوں اور کوچوں میں پولیس بدترین طریقے سے پیش آنے لگی۔

علماء کی طرف سے  حجاب پر پابندی کے خلاف سب سے پہلا ردّ عمل شیراز سے ظاہر ہوا۔ ایک جشن جو شیراز کے شاہپور اسکول میں منعقد ہوا تھا،  جس میں اس وقت کے وزیر تعلیم حکمت نے بھی شرکت کی تھی،  اس میں نوجوان لڑکیوں کے ایک گروہ نے اچانک اپنے برقعے پھینک دیئے اور کھلے چہروں اور بالوں کے ساتھ اپنے پاؤں زمین پر پٹخنا شروع کر دیئے، جس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا۔ اس سے اگلے دن ایک معترض عالم دین سید حسام الدین فال اسیری  نے مسجد میں تقریر کی اور اس حرکت پر اعتراض کرتے ہوئے لوگوں کو خبردار کیا کہ دشمن کے ہتھکنڈوں کی طرف دھیان رکھیں۔انھیں اس تقریر کے بعد گرفتار کرکے جیل میں قید کر دیا گیا۔ (۲)

اس کے بعد حوزہ علمیہ مشہد کے علماء نے آیت اللہ شیخ یونس علی اردبیلی کے گھر ایک اجلاس بلایا، جس میں یہ طے پایا کہ آیت اللہ حسین قمی، علمائے مشہد کی نمائندگی کرتے ہوئے تہران جائیں اور رضا خان سے خود بلاواسطہ اس حجاب پر پابندی کے مسئلے پر بات کریں۔ وہ جیسے ہی حضرت عبد العظیم حسنی (ع) کے حرم میں داخل ہوئے، گرفتار کر لئے گئے اور ان کی شاہ سے ملاقات پر پابندی لگا دی گئی۔ پہلوی حکومت کے اس عمل پر حوزہ علمیہ مشہد کے علماء نے گوہر شاد مسجد میں احتجاجی جلسہ منعقد کیا  جسے حکومت نے سرکوب کرنے کی  کوشش کی اور احتجاج کرنے والوں کا خون بھی بہایا گیا۔ علماء کی بڑی تعداد گرفتار کر لی گئی جو اگست ۱۹۴۱ء تک جیل میں رہے یعنی رضا خان کے ایران سے جلا وطن ہونے تک۔ مشہد کے دینی مدارس توڑ دیئے گئے اور پورے شہر میں کرفیو لگا دیا گیا۔ علماء نہایت ہی مشکل میں آگئے تھے اور رسمی طور پر حجاب ممنوع ہونے کے بعد انہیں مجبوراً سکوت اختیار کرنا پڑا۔ رضا خان کے (ایران سے) جلا وطن ہونے کے بعد، اگست ۱۹۴۱ء میں شیخ حسین بروجردی اور سید محمد تقی خوانساری نے حجاب کی حفاظت کی ضرورت اور بے حجابی کے حرام ہونے کا فتویٰ دیکر، حجاب کو معاشرے میں واپس لوٹانے میں اہم کردار  ادا کیا لیکن بے پردگی اور بے حجابی محمد رضا پہلوی کے دور حکومت میں اسی طرح سے رائج تھی۔ (۳)

 

بے حجابی اور آخری پہلوی بادشاہ

محمد رضا پہلوی کی حکومت قائم ہونے کے بعد بے حجابی نے شدت اختیار کی اور سینما اور ٹیلی ویژن پر اعلانیہ طور پر اس کا اظہار ہونے لگا، جو بے حجابی کے رواج میں اضافے کا سبب بنا۔ حکومتی عہدیداروں کے درمیان اس نکتہ نظر پر اتفاق کے باوجود امام خمینی (رہ) جو کہ ساٹھ کی دہائی میں ایران میں حوزہ علمیہ کی عظیم شخصیت تھے اور سفید انقلاب اور خواتین کے  ووٹ کاسٹ کرنے جیسے مسائل وقوع پذیر ہونے کے باوجود، انھوں نے ایران میں بے حجابی اور اس کی وجوہات کے بارے میں آواز بلند کی۔

محمد رضا پہلوی نے اپنی کتاب میں اس طرح لکھا ہے: "ترکی کے بعد ایران دوسرا ملک تھا جس نے حجاب کو رسمی طور پر ممنوع کیا تھا۔ ہر سال ۷ جنوری کے دن ایرانی خواتین کی طرف سے اس دن کی یاد میں میرے باپ کے اس عظیم کارنامے کی قدر دانی کیلئے، جو انھوں نے ملک کی تمام خواتین کیلئے کیا تھا (!) جشن منعقد کیا جاتا ہے اور ایرانی خواتین کی ایک تنظیم کا نام اسی کام کی وجہ سے "ہفدہ دی" (یعنی ۷ جنوری) رکھا گیا ہے اور اس کے اغراض و مقاصد امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں اس جیسی تنظیموں کی طرح خواتین کی فکری سطح کی ترقی اور خواتین کے حقوق ہیں (!)" (۴)

لیکن امام خمینی (رہ) نے ۸ جنوری آنے سے پہلے ۱۱ دسمبر ۱۹۶۲ ء کو قم میں ایک تقریر کی، جس میں انھوں نے ارشاد فرمایا: " ... ٹیلی ویژن پہ اشتہار چلانے والا ایک خاص گروہ ہے جسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا اور لگتا ایسا ہے کہ اسے پورے ملک میں پھیلانے کا ارادہ ہے۔ ... ان کا ارادہ یہ ہے کہ ۸ جنوری کو گذشتہ اور موجودہ خواتین کی نمائش ہو اور اسی دن ان کی خواتین صوبائی انجمنوں کے لائمہ عمل کے اجراء نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کریں۔ ابھی سے تہران اور دوسرے شہروں کے لوگوں کے ایک گروہ نے ہم سے رابطہ کیا ہے کہ اگر ایسا کچھ ہوا تو ہم اسی دن ردّ عمل کے طور پر مسجد گوہر شاد کے شہداء کی یاد میں مجلس منعقد کریں گے۔ مناسب ہوگا کہ حکومت کے لوگ اپنے مرکزی  دفاتر تک یہ بات پہنچائیں کہ ۸ جنوری کو ہونے والے پروگرام کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں اور عوام جو کہ غصے میں ہے، بہائیوں کے ٹیلی ویژن کے ذریعے ان کے غصے میں اضافہ نہ کریں۔" (۵)

انھوں نے ۳۰ دسمبر ۱۹۶۲ء کو دوبارہ قم کی مسجد اعظم میں علماء، فضلاء، طلباء اور اہل قم  کے د رمیان سیاسی اوراجتماعی بدحالی کو بیان کیا: "علماء یہ کہنا چاہتے ہیں۔ علماء ملک کے اقتصاد کے مخالف نہیں ہیں ...علماء غیر  منحصر ہونے کے مخالف نہیں ہیں؛  علماء کا نکتہ نظر یہ ہے کہ غیر منحصر ہوا جائے۔ دین کی مجبوری ہے کہ ہم کہیں ہمارے پاس و سائل نہیں ہیں؛ مجلے ہمارے ساتھ نہیں ہیں؛ علماء کی غلط شناخت کروائی گئی ہے۔ آپ دیکھیں حجاب کی ممنوعیت جیسے قبیح قانون کو بیس سال سے زیادہ گزر چکے ہیں؛ سوچیں کہ آپ لوگوں نے کیا کیا؟ اپنے علماء کی دنیا کے سامنے غلط پہچان نہ کروائیے؛ یہ آپ لوگوں کی کوتاہی ہے۔ یہ دردناک باتیں ہیں، یہ نصیحتیں ہیں؛ لیکن کیا فائدہ۔ جنہیں سننا چاہئیے وہ لوگ ہیں نہیں؛ اور اگر کوئی ہو بھی تو وہ باتیں جو کہ ہماری مشکلوں کا سبب ہیں، انہیں نہیں پہنچائے گا۔" (۶)

امام خمینی (رہ) نے اس تقریر میں حجاب پر پابندی کے بارے میں معمولی سا اشارہ کیا اور اس طرح سے انھوں نے ایران میں بد حجابی کی حالت  کی طرف دوبارہ اشارہ کیا۔ اسی بات کو انھوں نے ۲ مئی ۱۹۶۳ء کو مدرسہ فیضیہ کے شہداء کے چہلم میں تقریر کرتے ہوئے ڈھکے چھپے لفظوں میں دوبارہ دہرایا اور امام خمینی (رہ) نے ۴ جولائی ۱۹۳۵ء کو کشف حجاب کے بعد مسجد گوہر شاد میں ہونے والے قتل عام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "... ہمارے  عزیزوں پر تشدد ہوا اور انہیں اس دنیا سے گئے ہوئے چالیس دن گزر گئے۔ مدرسہ فیضیہ کے شہداء کے لواحقین کو اپنے عزیزوں پر روتے ہوئے چالیس دن ہوگئے۔ کل شہید سید یونس رودباری کے والد کمر جھکائے میرے پاس آئے، جن کے چہرے پر شکستگی کے آثار  ظاہر تھے۔ ان مرنے والے جوانوں کی ماؤں اور غمزدہ باپوں سے کن الفاظ کے ساتھ تعزیت کی جائے؟ ...ان چالیس دنوں میں ہم مقتولین اور متاثرین کے اعداد و شمار تک حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ نہیں معلوم کہ کتنے لوگ مرگئے، کتنے قید کر لئیے گئے اور کتنے اپنی جان بچانے کیلئے چھپے ہوئے ہیں۔ بالکل اسی طرح سے کہ جیسے ہمیں مسجد گوہر شاد کے واقعے میں جان بحق ہونے والوں کی تعداد اتنے سالوں بعد بھی معلوم نہیں ہوسکی ہے کہ جنہیں گاڑیوں میں بھر بھر کے لے جایا گیا تھا۔ سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ جس بھی ادارے میں جاتے ہیں، جواب ملتا ہے کہ یہ سب اعلیٰ حضرت (شاہ) کے حکم سے ہوا ہے، ہم بے اختیار ہیں ..." (۷)

 

حوالہ جات:

۱۔ حکایت کشف حجاب، موسسہ فرہنگی ہنری قدر ولایت، پانچواں ایڈیشن، ۲۰۱۱ء، ص ۹۔

۲۔ صلاح، مہدی، کشف حجاب، اقدامات، ردّ عمل و نتائج، تاریخی مطالعات اور تحقیق کا ادارہ، ۲۰۱۰ء، ص ۱۸۶۔

۳۔ أیضاً، ص ۱۸۷۔

پہلوی، محمد رضا، پاسخ بہ تاریخ، ص ۳۰۔

۵۔ صحیفہ امام خمینی (رہ)، جلد اول/ http://www.imam-khomeini.ir

۶۔ ایضاً۔

۷۔ ایضاً۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3993


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔